ظلِ حیوانی عزت مآب شیر ببرجی کا جنگل میں اچانک ظہور ہوا تو آزاد فضا کے عادی جانوروں اور ڈنگرانِ کرام کو کچھ زیادہ خوف محسوس نہ ہوا۔ کیونکہ عزت مآب کی دم ہمیشہ ان کی ٹانگوں میں گھسی رہتی تھی۔ اور وہ دھاڑ کر کمزور جانور پر جھپٹنے کی بجاۓ بالعموم معصوم اور بے ضرر جاندار کی طرح جمائی لے کر اپنے جبڑوں کی نمائش کرتے جس کے باعث یہ افواہ بھی گردش کرتی رہتی تھی کہ عرصہ پہلے عزت مآب کو سرکس والے اغواء کر کے لے گئے تھے اورا ن کی ایسی تربیت یا حجامت کی تھی کہ وہ خونخوار پنجوں کے مالک ہونے کے باوجود شاید وضع داری اور بزرگ جانوروں کے احترام کے پیش نظر دم کو ٹانگوں میں سمیٹ کر رکھتے تھے۔ اوران کی اس عادت کے پیش نظر معصوم جانوروں نے ان کی نیت کو نیک سمجھ لیا تھا اور ویسے جنگل کے آئین میں شیر ببر کو چالاک مکار یا کمینہ سمجھنے کی کوئی روایت پہلے سے موجود نہ تھی ۔
ان حالات میں عزت مآب شیر ببر چی نے جنگل میں قانون کی حکمرانی کے نفاذ کے آغاز کے لیے کئی خوبصورت ہرنوں کو دبوچ لیا۔ وہ بہت نفاست سے ہرن کی گردن میں پنجے گاڑ کر آہستہ آہستہ اس کا خون پیتے اور اس دوران پروٹوکول ڈیوٹی پر موجود بھیڑیے غراتے رہتے اور کرگسوں کا فل بینچ درخت پر سکون سے بیٹھا اپنی نظروں سے قانون کی دستاویزات مرتب کرتا رہتا۔۔۔۔۔ عزت مآب شکار کی مہم پر اکیلے نہ جاتے تھے بلکہ ان کی تشکیل کردہ کابینہ میں جناب بھیڑیا جی خونخوار، جناب لگڑ بگڑ، بیتاب اور کتاجی بلڈاگ جیسے جہاں دیدہ درندگان کرام نفاذ قانون جنگل میں معاونت کے لئے اوتھ لے چکے تھے۔ اور بے پنجہ جانوروں کو شکار کرنے کے لئے کابینہ کو وسیع اختیارات دے دئے گئے تھے۔ سیر و شکار کی اس دوڑ میں ایک واقعہ ایسا بھی ہوا جس نے عزت مآب کو بہت محتاط بنا دیا ۔ ہوا یوں کہ ایک بار وہ ر ات کے سناٹے میں کابینہ کے ہمراہ ایک نیل گائے کو گھیر کر جبلتوں کے رقص سے مسرور ہو رہے تھے کہ اچانک ایک جھاڑی میں دو پراسرار اور سرخ سی آنکھوں کو گھورتے اور سلگتے ہوئے پایا۔ عزت مآب کو جھر جھری سی آگئی شاید ہر شکاری کے دل میں کہیں شکار ہو جانے کا ڈر بھی جاگز یں ہو تا ہے دراصل جھاڑیوں میں ایک چھوٹا سا خرگوش چھپا بیٹا تھا۔ وہ بھاگا تو مخالف سمت بھاگنے کی بجاۓ ہنرا یکسی لینسی شیر ببر کی طرف بڑھتا چلا آیا اور پروٹوکول کے تمام تقاضے نظر انداز کر کے بڑا کیسی لینسی کی ناک پر اس طرح گرا کہ ان کی سرکس کے زمانے کی شرافت کی عینک جھاڑیوں میں کہیں جا پڑی ۔
دریں حالات عزت مآب ا فرا تفری کے عالم میں اپنی دم کو ٹانگوں میں سمیٹے ہوئے اور اپنے ہی ارکان کابینہ کو روندتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوۓ ۔ اگر چہ اس بہادری پر بعد ازاں انہیں جناب بھیڑیا جی خوںخوار نے جملہ ارکان کابینہ کی طرف سے اعزازی ” ڈنگر کراس“ بھی عنایت فرمایا لیکن شیر ببرجی نے اپنی ذات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جنگل کی سلامتی کے تقاضوں کے پیش نظر عزت مآب لومڑ میاں چیف انٹیلی جنس کو فوری طور پر طلب کر کے یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ سراغ لگاۓ کہ وہ کون سے خوف ناک جانور ہیں جو جنگل میں لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا کر کے سارے جنگل میں قانون کی سلامتی کو خطرات سے دوچار کرنا چاہتے ہیں؟
لومڑی نے انتہائی تفصیلی تفتیش کے دوران کئی مینڈکوں چوہیوں اور پلوں کو اپنے پنجوں کا ہنر مندی سے نشانہ بنایا اور اس کے بعد شیر ببرجی کو یہ رپورٹ ارسال کی کہ انہیں ہلاک کرنے کی سازش ”الخرگوش “ کے ارکان نے تیار کی ہے اور وہ اپنی سرخ آنکھوں کے قمقموں سے شیر ببر کو جنگل سے بھگا دینا چاہتے ہیں۔ دریں حالات پنجہ شیر ببر آرڈیننس کے تحت جھاڑیوں میں سرخ آنکھوں والے خرگوشوں کا قیام وداخلہ ممنوع قرار دے د یا گیا اور جو قریب کی جھاڑیوں میں آباد تھے ان کے دور دراز علاقوں میں تبادلوں کے احکاما ت جاری کردئے گئے۔ لومڑی کی رپورٹوں کی روشنی میں بہت سے خرگوش اسیر کرلیے گئے تاہم انہیں اس شرط پر رہائی ملی کہ وہ آنکھوں میں نیلے پیلے اور سبز رنگ کے قمقمے لگا کر جنگل میں آئیں لیکن خرگوش اتنی بڑی تعداد میں تھے۔ اور جنگل میں اس طرح پھیلے ہوئے تھے کہ ان کی سرخ آنکھوں کے خوف سے شیر ببرجی کا دل دھڑ دھڑ کرنے لگتا۔ اور انہیں ہر سمت سے سرخ آنکھوں والے خرگوش اپنی سمت بڑھتے ہوئے نظر آئے۔ دریں حالات جانوروں نےجنگل کے مسائل حل کرنے کے لئے کل ڈنگر کانفرنس منعقد کی اور پھر ایک ولولہ انگیر ز ” کل جنگل چھترا و بکرا “ کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں شیر ببرکی قربانیوں اور ذمہ داریوں کا خاکہ تفصیل سے پیش ہوا۔ شیر ببر حسب معمول دم کو ٹانگوں میں دبا کر شریف النفس جانوروں کےخیالات سنتے رہے۔ اور ان جانوروں کی سفارشات کے نتیجے میں عزت مآب کی حفاظت کے” البھیڈو ” اور” الپہاڑو “ عنوان سے جانبازوں کے دستے تشکیل دے گئے۔ اور کاروائی کا آغاز کر دیا گیا سنا ہے کہ "البھیڈو ” کے کمانڈوز انتہائی خفیہ اطلاعات کی روشنی میں سرخ آنکھوں والے ایک خرگوش کو پکڑ لاۓ۔ اور اپنی جانبازانہ ٹکروں سے انہوں نے کئی دہشت خرگوشووں کو بھی بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ اور دشمن پر ”پہلے حملہ ” کے اصول کے تحت خرگوشوں کے کیمپوں میں بھگڈر بھی مچادی ان آپریشنر کی تکمیل کے لئے شیر ببرجی نے اپنے سرکس کے تجربات سے بھی کام لیا۔ لیکن سرخ آنکھوں والے خرگوش پھر بھی اپنی حرکتوں سے بازنہ آئے۔ ایک اندھیری رات کی تاریکی میں دیوانہ وار عزت مآب ایک نیل گائے کا شکار کرنے کے لیے بڑھ رہے تھے اور کابینہ کے جملہ ارکان کے علاوہ عزت مآب کمانڈر گینڈا جی بھی ہم رکاب تھے کہ اچانک انہیں پراسرار سرخ آنکھیں اپنی طرف بڑھتی نظر آئیں۔ شیر ببرجی گھبرا کر پلٹے اور اندھیرے میں اپنے محافظوں سمیت ایک کھائی میں جاگرے۔ کھائی میں گرنے سے عزت مآب کی ریڑھ کی ہڈی پر شدید ضرب آئی اور وہ اپنے دیگر ساتھیوں کے بر عکس کھائی سے باہر نہ آ سکے آنرایبل قاضی ان کی موت پر بہت دیر تک اپنے پر پنجوں سے باہر نہ لا سکے
فیس بک کمینٹ