بدو کی شرافت کا جو واقعہ مشہور ہے اس میں تو محض اتنا درج ہے کہ صحرا کے سفر کے دوران اس نے خیمہ لگایا اور اونٹ کو باہر رسی سے باندھ دیا۔ آدھی رات کے وقت اونٹ کو سردی لگی تو اس نے مالک سے خیمے کے اندر اپنی گردن لانے کی اجازت مانگی۔ اجازت مل گئی تو کچھ دیر بعد آدھے دھڑ کو اندر لانا چاہا اور جب اس کی بھی اجازت مل گئی تو وہ سارے وجود کو اندر لے آیا۔ اور مالک اٹھ کر باہر چلا گیا۔ چونکہ موقع پر کوئی وقائع نویس موجود نہ تھا اس لئے بعض اہم تاریخی شواہد نظر انداز ہو گئے ہیں۔
اصل واقعہ یوں ہے کہ جب اونٹ نے گردن خیمے کے اندر لانے کی اجازت طلب کی تو دراصل وہ خیمے کے اندر پہلے سے گردن داخل کر چکا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک پراسرار چمک تھی۔ اور جبڑے سختی سے بھینچے ہوئے تھے۔ تاہم موقع پر موجود ایک فوٹو گرافر کی کھینچی تصویر سے پتہ چلتا ہے کہ اونٹ جس قدر جبڑوں کو بھینچا اتنا ہی معصومیت سے مسکرا تا ہوا نظر آتا۔ ان حالات میں بد و بیچارا اونٹ کے عزائم سے بے خبر خیمے کے باہر جھانک رہا تھا۔ ”میرے آقا ! سردی بہت ہے کیا میں اپنی گردن خیمے کے اندر لا سکتا ہوں؟ اونٹ نے بظاہر لجاجت سے پوچھا۔ بدو نے اونٹ کے اسلوب کی شرافت کو مد نظر رکھتے ہوۓ کہا خیمے کی قانونی اور آئینی حیثیت تو یہ ہے کہ مالک بدو ہی اس میں قیام کر سکتا ہے لیکن مجھے تمہارے شریفانہ لہجے نے بہت متاثر کیا ہے اس لئے تم عارضی طور پر اپنی گردن کا قیام خیمے کے اندر رکھ سکتے ہو۔
روایت ہے کہ آدھی رات تک اونٹ خیمے کے ماحول اور حالات کا اپنی کینہ پرور آنکھوں سے جائزہ لیتا رہا اور اس کی آنکھوں کےاندر کینہ پروری کے ساتھ پراسرار چمک بھی اپنا کام کرتی رہی اس دوران بدو خراٹے لینے لگا تب اچانک اونٹ نے اسے مخاطب کر کے کہا۔ میرے آقا! سردی بہت بڑھ گئی ہے اب اجازت ہو تو میں اپنا آدھا دھڑ خیمے کے اندر لے آؤں!
جب اس نے یہ بیان دیا تو پہلے ہی اپنا آدھا دھڑ خیمےکے اند ر لا چکا تھا۔ اندر خیمے کی کئی رسیاں کیلوں کے اکھڑ جانے کی وجہ سے کھل چکی تھی بدو بیچارا اب حواس باختہ ہو کر اٹھ بیٹھا۔ اس نے حیرت اور خوف کے ملے جلے جذبات سے اونٹ کو دیکھا اور کہا۔ ” میرے پیارے اونٹ ! سفر کے دوران جس طرح تم میری حفاظت کرتے رہے ہو
اور اپنے فرائض ذمہ داری سے ادا کرتے رہے ہو میں وہ سب کس طرح بھلا سکتا اب میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ اپنے آدھے دھڑ کو خیمے کے اندر اپنی آئینی حدود میں رہ کر داخل کر سکتے ہو اونٹ نے شکریہ ادا کیا اور بدو اپنی چادر پر چوکڑی مار کر بیٹھ گیا اونٹ کے ار ادوں کے بارے میں اس کے دل میں شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ۔ ۔ ۔ وہ جانتا تھا کہ تنہا ہے اور صحرا کا سفر در پیش ہے لیکن مسلسل صحرا کے سفر کی صعوبتوں کے باعث وہ اونٹ کےعزائم کو دل و دماغ میں لا ہی نہیں سکا تھا۔ آدھی رات کے بعد اچانک اونٹ خیمے کے اندر داخل ہوا اور خیمہ کی رسیاں اس طرح ٹوٹیں کہ سارا خیمہ اونٹ پر آگرا پھر اونٹ نے آگے بڑھ کر اپنے آقا بدو کو ایک زور دارلات رسید کی کہ وہ کئی فٹ لڑہکتا ہوا دور جا گرا اور ریڑھ کی ہڈی پر ہاتھ رکھ کر دہائیاں دینے لگا اس کے برعکس اونٹ خود ایک چلتا پھرتا سا خوبصورت خیمہ نظر آنے لگا اور تب اس نے بدو کو آگاہ کیا کہ خیمہ جو بھی پہن لے وہی اس کا آئینی حقدار ہوتا ہے۔
( کتاب ۔۔ درندگی کے عہد میں پاگل مور )
فیس بک کمینٹ