مری میں رونما ہونے والے سانحہ کی سنگینی بیان کرنے کے لئے الفاظ چننا محال ہے۔ ایک ہزار سے زیادہ کاریں مری جانے والی سڑکوں پر برف میں پھنسی ہیں اور اکیس افراد سردی میں ٹھٹھر کر جان کی بازی ہار گئے ہیں۔ حکومت کی طرف سے رپورٹ طلب کرنے اور افسوس کا اظہار کرنے کے علاوہ ذمہ داری قبول کرنے کا ایک لفظ سننے میں نہیں آیا۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کو ٹوئٹ کے ذریعے غم و غصہ ظاہر کرنے یا ہمدردی جتانے سے زیادہ کچھ کرنے کا حوصلہ نہیں ہؤا۔ کیا یہ وہی ’مدینہ ریاست ‘ اور اس کا بے داغ سربراہ ہے جس کے خواب بیچ کر عمران خان اپوزیشن کے کپڑے اتارنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں؟
ملک کے وزیر اعظم کو یورپی نظام کی خوبیا ں اور خرابیاں بتانے میں ملکہ حاصل ہے۔ وہ یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ ان سے زیادہ یورپ کو کوئی نہیں جانتا۔ وہ وہاں کی جمہوریت کے بارے میں بھی بے تکان لیکچر دے سکتے ہیں اور یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ وہاں کا فلاحی نظام کیسے چلتا ہے، کیوں کر وہاں قانون کی عملداری ہے جو تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھتا ہے۔ امیر ہو یا غریب، طاقت ور ہو یا کمزور اسے قانون کے مطابق اپنے جرم کی سزا بھگتنا پڑتی ہے ۔ مری میں رونما ہونے والے سانحہ اور بے بسی اور لاچاری کی حالت میں ہونے والی ہلاکتوں کی موجودہ صورت حال میں کیا عمران خان بتا سکتے ہیں کہ کسی یورپی ملک کا وزیر اعظم کیا ایسی کسی آفت پر ایک ٹوئٹ کرکے اور سب سے حساب لیا جائے گا نعرہ لگا کر اپنی پر تعیش رہائش گاہ میں دبک کر بیٹھا رہتا؟
حتی کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو بھی جو محض ’ پیا من بھائی‘ کے مصداق عمران خان کے چہیتے ہونے کی وجہ سے اس عہدے پر براجمان ہیں، ایک ٹوئٹ پر بیان جاری کرنے اور فوری امدادی کارروائی کرنے کا حکم دینے کے سوا کوئی اقدام کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اس پر مستزاد یہ کہ ایسے المناک سانحہ کے بعد بھی جو سو فیصد حکومتی کوتاہی، انتظامی نااہلی اور موسمی صورت حال سے نمٹنے میں ناکامی کی وجہ سے پیش آیا ہے، پنجاب کے وزیر اعلیٰ اپنی پبلک ریلیشننگ کرنے کی شرمناک کوشش کررہے ہیں۔ پنجاب حکومت کے سرکاری بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سانحہ میں مدد فراہم کرنے کے لئے وزیر اعلیٰ نے اپنے ذاتی استعمال کا ہیلی کاپٹر بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ جوں ہی موسم ٹھیک ہو گا یہ ہیلی کاپٹر امدادی سرگرمی میں حصہ لے گا۔ کیا یہ ہیلی کاپٹر عثمان بزدار نامی کسی شخص کی ذاتی ملکیت ہے یا اس ملک کے عوام کے وسائل سے خریدا گیا ہے جسے صوبے کا حکمران استعمال میں لا کر اس عہدے سے حاصل ہونے والی سہولتوں سے تو استفادہ کرتا ہے لیکن اپنے شہریوں کی حفاظت کرنے اور مشکل حالات میں ان کی مدد کرنے کا حوصلہ نہیں کرتا۔
صورت حال کی سنگینی اور مقامی انتظامیہ کی مکمل ناکامی کے بعد صوبے کے وزیر اعلیٰ اور ملک کے وزیر اعظم کا فرض تھا کہ وہ بنفس نفیس موقع پر پہنچتے اور امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کرتے اور ابھی تک سرد ی اور طوفانی موسم میں پھنسے ہوئے لوگوں کو سہولت بہم پہنچانے کی کوشش کی جاتی۔ اس کے برعکس ملک کے منتخب سول حکمران حالات کو سنبھالنے کا کا م رینجرز اور فوج کے حوالے کرکے خود اپنے گرم دفتروں یا رہائشوں میں بیٹھے اپنے ماتحتوں کے ذریعے ٹوئٹ پیغامات میں سب کچھ کنٹرول میں ہے کی اطلاع دے رہے ہیں یا افسوس کا اظہار کیا جارہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے ابتدائی طور پر معاون خصوصی شہباز گل کے ذریعے ہی اس سانحہ پر دکھ ظاہر کرنا کافی محسوس کیا گیا ۔ تاہم چند گھنٹے بعد ان کے اپنے ٹوئٹ سے پریشانی ظاہر کرتے ہوئے یہ بالواسطہ وضاحت دینے کی کوشش کی گئی کہ مقامی انتظامیہ موسم کی اچانک شدت کی وجہ سے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار نہیں تھی۔ اسی لئے یہ افسوسناک سانحہ ہؤا ہے۔
دو درجن انسانوں کا برف کے طوفان میں پھنسی ہوئی گاڑیوں میں سردی سے مرجانا ایک ایسا سانحہ ہے جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس پر کوئی وضاحت تسلیم کی جاسکتی ہے۔ اس افسوسناک موقع پر لیڈروں کی طرف سے ٹوئٹر کو ایک ’مؤثر‘ ذریعہ ابلاغ سمجھ لینا، حکمرانوں کی بے حسی اور غیر ذمہ داری ظاہر کرتا ہے۔ یہ ایک قومی المیہ ہے۔ وزیر اعظم کو اس موقع پر قوم کے غم میں شریک ہونے اور جاں بحق ہونے والے لوگوں کے پسماندگان سے اظہار ہمدردی کے لئے قوم سے خطاب کرنا چاہئے تھا تاکہ عوام کو یہ اندازہ ہوسکتا کہ حکومت کو ان کی مشکل اور اپنی کوتاہی کا احساس ہے۔ اور آئیندہ اس المیہ سے سبق سیکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں ایک بار پھر احساس ہؤا ہے کہ کسی بھی بحران میں کسی کو یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ اصل ذمہ دار کون ہے۔ کیا اس سانحہ کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب کو تمام سرگرمیوں کی قیادت کرنا تھی یا وزیر داخلہ شیخ رشید اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے ٹوئٹ پیغامات کے ذریعے اس المیہ سے نکلنے کی کوشش کرنا مقصود تھا؟ کیا وزیر اعظم اس کے ذمہ دار ہیں یا ان کے ماتحت کام کرنے والے وزیروں یا انتظامی عہدیداروں پر اس قسم کی صورت حال پیدا کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
یہ وضاحت ناقابل قبول ہے کہ موسم اچانک شدید ہوجانے کی وجہ سے مقامی طور سے انتظامات نہیں کئے جاسکے اور کچھ لوگ جاں بحق ہوگئے۔حقیقت یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کے موجودہ دور میں یہ وضاحت حکمرانوں کی سفاکی پر دلالت کرتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق لوگوں کی بڑی تعداد برفباری کا نظارہ کرنے کے لئے مری کی طرف روانہ ہوئی۔ تاہم ناقص مواصلاتی نظام، ٹریفک کے غیر مربوط طریقے اور کسی کنٹرول سنٹر کی عدم موجودگی کی وجہ سے کسی بھی مرحلے پر نہ تو سیاحوں کو ضروری اطلاعات فراہم کی گئیں ، نہ ہی بروقت مری کی طرف ٹریفک روک کو صورت حال کو خراب ہونے سے روکا گیا اور نہ ہی سینکڑوں گاڑیوں کے برفانی طوفان میں پھنسنے کی اطلاعات ملنے کے بعد فوری طور سے امدادی کارراوئی کو مربوط کیاجاسکا۔
حکومت کو اس سانحہ کے حوالے سے متعدد سوالوں کا جواب دینا ہے۔ ایک تو کیا وجہ ہے کہ شدید موسم کی پیشگی اطلاع عام کیوں نہیں کی جاسکی او ر مری کی طرف جانے کے خوہشمند لوگوں کو کیوں یہ معلومات فراہم نہیں ہوسکیں کہ حالات دگردوں ہیں اور انہیں سفر کا ارادہ ترک کردینا چاہئے۔ کیا وجہ ہے کہ ایک ہزار کے لگ بھگ گاڑیوں کے پھنسنے اور ہزاروں لوگوں کے برفانی طوفان میں گھرے ہونے کی خبر ملنے کے باوجود مری کی طرف ٹریفک کو بروقت ریگولیٹ نہیں کیا جاسکا؟ اس سے سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ متعدد کاریں بیس سے چوبیس گھنٹے تک برف میں پھنسی رہیں لیکن ان میں سوار انسانوں کو کسی محفوظ مقام تک پہنچانے کے کام میں غیر ضروری تساہل کا مظاہرہ کیا گیا۔ بلکہ اس موقع پر بھی وزیر داخلہ مقامی شہریوں سے یہ اپیل کررہے تھے کہ وہ سڑکوں پر پھنسے ہوئے لوگوں کو کمبل اور ضروری اشیا پہنچائیں۔
وزیر داخلہ کا ایسا پیغام ’اپنی بلا پرائے سر ڈال‘ کی مثال ہے۔ پاکستانی شہری مصیبت میں پھنسے انسانوں کی مدد کرنے میں مستعد رہتے ہیں ۔ اس کام کے لئے انہیں کسی وزیر کی ٹوئٹ پر ہدایت کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن اس پہاڑی علاقے میں خال خال آبادی ہے اور یہ مقامی لوگ لاتعداد ضرورت مندوں تک پہنچنے یا ان کی مدد کرنے سے قاصر رہے۔ عام طور سے ان علاقوں میں آباد لوگ غریب اور خود بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہوتے ہیں۔ ایسے بحران میں حکومت کے کرنے کے کام کو شہریوں اور مقامی باشندوں کے سپرد کر کے یہ سمجھ لینا کہ مسئلہ حل ہوجائے گا، غیر ذمہ داری کی نمایاں مثال ہے۔
حکومت کے طرز عمل اور بے خبری کا اندازہ اس سے ہی کیا جاسکتا ہے کہ ایک روز پہلے ہی وزیر اطلاعات فواد چوہدری مری کی طرف ٹریفک کی بڑی تعداد کو ملک میں عام ہونے والی خوشحالی کی نشانی قرار دے کر مہنگائی کی خبروں کو جھوٹ اور پروپیگنڈا بتانے کی کوشش کررہے تھے۔ حالانکہ وہی وقت تھا جب مری میں موسم کی شدت میں اضافہ ہورہا تھا اور ٹریفک روکنے،ایمرجنسی کا ادراک کرنے اور مشکل میں پھنسے لوگوں کی مدد کا اہتمام کرنے کی کوشش کی جاتی۔ حکومتی نمائیندوں کے طرز عمل سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اقتدار کی کسی بھی سطح پر صورت حال کا درست جائزہ لے کر فیصلے کرنے اور کسی بڑی مشکل سے پہلے ہی حالات سنبھالنے کی کوشش کرنے کے مزاج کاشدید فقدان ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ عمران خان تمام اپوزیشن کا احتساب تو کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنی حکومت کی کسی غلطی اور کوتاہی کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ شوگر او رگندم بحران کے معاملہ ہو، یا ایل این جی کی خریداری کا، پائلٹ لائسنسوں کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ بیان دیا جائے یا پنڈورا لیکس میں درجنوں حکومتی لوگ مشکوک قرار پائیں لیکن وزیر اعظم کو بدعنوانی اور نااہلی کے تمام شواہد اپوزیشن لیڈروں اور اپنے سیاسی مخالفین میں دکھائی دیتے ہیں۔
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی سیاست سے ہزار اختلاف کے باوجود ان دونوں لیڈروں کا یہ بیان جائز اوردرست ہے کہ برفانی طوفان کی وجہ سے ٹریفک میں پھنسے ہوئے لوگوں کی ہلاکت کا معاملہ ایک ایسا المیہ ہے جس پر اعلیٰ سطح پر ذمہ داری کا تعین ہونا چاہئے۔ یہ حکومتی مشینری اور سیاسی قیادت کی انتظامی صلاحیتوں کی مکمل ناکامی کا ثبوت ہے۔ ایسے کسی موقع پر مہذب ملکوں میں اعلیٰ ترین قیادت استعفیٰ دے کر ذمہ داری قبول کرتی ہے۔ مری میں رونما ہونے والے اس سانحہ کے بعد اول تو وزیر اعظم عمران خان کو خود اپنی حکومت کی ناکامی اور نااہلی کی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے۔ تاہم اگر وہ اسے صوبائی معاملہ قرار دیں تو عثمان بزدار کو فوری طور سے یا تو علیحدہ کیا جائے یا وہ خود استعفیٰ دیں۔
بیس سے زائد انسانوں کی بے بسی سے ہلاکت ایک سنگین معاملہ ہے۔ اسے سیاسی بیان بازی اور اپوزیشن کے غم و غصہ کے جواب میں جوابی ٹوئٹ پیغامات سے نظر انداز کرنے کی کوئی کوشش قابل قبول نہیں ہوگی۔ یہ تحریک انصاف کی حکومت اور عمران خان کی قیادت کے دامن پر بدنما داغ ہے۔ اس کا ازالہ کرنے کے لئے ایک ذمہ دار سیاست دان ، لیڈر اور انسان کے طور پر عمران خان سمیت تمام متعلقہ عہدیداروں کو اظہار شرمندگی کرنا چاہئے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ