آج 2جون سقوط ملتان کو (1818ء۔ 2018ء)، 200 سال پورے ہو چکے ہیں ،اقتدار پرست سیاستدانوں کے مسائل الگ ہیں ، وہ ہمیشہ اقتدار کے مراکز کا طواف کرتے ہیں اور عہدوں کے آگے سر بسجود رہتے ہیں ۔ وہ کبھی بھی اصل حقیقت کا اظہار نہیں کرتے۔ سرائیکی پنجابی تنازعہ کے ضمن میں عرض کروں گا کہ یہ دو صدیوں پر محیط ہے اور رنجیت سنگھ کے قبضے کے بعد اس کے حل کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ۔ آج مسائل کے حل کیلئے باتوں کو چھپانے نہیں بلکہ کھولنے کی ضرورت ہے اور اکیسویں صدی میں نئی نسل کو اندھیرے میں رکھنے کی بجائے حقائق بتانے کی ضرورت ہے اور اس کا نام آج کا نیا بیانیہ ہے ۔
2 جون 1818ءکو سقوطِ ملتان ہوا ۔ اس دن رنجیت سنگھ کی سکھ فوج نے سلطنتِ ملتان پر قبضہ کیا ۔ قوم پرست سرائیکی جماعتیں یہ دن یومِ سیاہ کے طورپر مناتی ہیں ۔ اس دن پورے سرائیکی وسیب میں سیمینار، ورکشاپس، کانفرنسیں اور احتجاجی مظاہرے ہوتے ہیں۔ اس موقع پر رنجیت سنگھ کا پتلا نذرِ آتش کیا جاتا ہے۔ والی ملتان نواب مظفر خان شہید نے سکھ فوج کی مزاحمت کرتے ہوئے ملتان کی سپاہ کے ساتھ ساتھ اپنی اور اپنے اہل عیال کی جوعظیم قربانی دی ، کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے ۔
2 جون 1818ءکو نواب مظفر خان نے رنجیت سنگھ کی سکھ فوج سے جنگ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ۔سکھ فوج نے قلعہ ملتان پر قبضہ کر لیا۔ نواب کی آل میں سے دو بیٹے اور چند سپاہی جو زندہ بچے قیدی کر لئے گئے اور انہیں لاہور بھیج دیا گیا۔ تاریخ میں یہ ” قیدی تخت لہور دے“ کہلائے ۔سقوط ملتان کے بعد سکھ فوج نے لوٹ مار شروع کر دی۔ سرکاری خزانہ لوٹنے کے بعد سکھ فوج گھروں میں داخل ہوئی، وہاں بربریت کی انتہاءہوئی ، وہاں لوٹ مار کے علاوہ انسانوں کو تہ تیغ کیا گیا ،بچوں کو سانگوں پر ٹانگ دیا گیا ، تاریخ کی کتب میں درج ہے کہ غیرت کا یہ عظیم واقعہ بھی ملتان کے حصے میں آیا کہ اپنی عصمت و ناموس کو سکھ ہوس پرستوں سے بچانے کیلئے ملتان کی سینکڑوں و ہزاروں دوشیزاؤں نے کنوؤں میں چھلانگیں مار دیں اور جب کنویں لاشوں سے بھر گئے تو ان کے منہ بند کر کے انہیں اجتماعی قبریں قرار دیدیا گیا۔ ملتان پر قبضے کے بعد سکھوں نے جس طرح لاہور میں مسجدوں کو اصطبل بنایا ، قرآن مجید کی بیحرمتی کی، اذانوں کی آواز بند کر دی، لائبریریاں جلا دیں یہی کچھ سکھوں نے ملتان میں بھی کیا۔ ملتان اور لاہور کا فرق یہ ہے کہ ملتان میں مزاحمت کر کے ملتانیوں نے رسم شبیری ادا کی مگر لاہور میں ایسا نہ ہوا۔ اب بھی لاہور میں رنجیت سنگھ کی برسی منائی جاتی ہے ، پچھلے دنوں رنجیت سنگھ کی برسی پر 3500سکھ یاتری مشرقی پنجاب سے آئے، ہمارے لاہوری بھائیوں نے ان کا استقبال کیا ، لاہوری بھائیوں کا یہ عمل کسی گولی سے کم نہیں۔
تاریخی طور پر ملتان ایک ذات نہیں بلکہ کائنات کا نام ہے ، ملتان کی جغرافیائی حیثیت اتنی وسیع اور کشادہ ہے کہ اس میں پاکستان تو کیا پورا جہان سما سکتا ہے، ملتان کے بارے حضرت امیر خسرو نے کہا کہ ” چہار چیز است تحفہ ملتان ، گرد ، گرما ، گدا و گورستان “ اگر آج امیر خسرو زندہ ہوتے تو ہم ان سے سوال کرتے کہ کن کن حملہ آوروں نے ملتان کی اینٹ سے اینٹ بجا کر اسے گرد آلود کر کے گورستان میں تبدیل کیا اور وہ ملتان جسے ” بیت الذہب “ یعنی سونے کا گھر کہا گیا ، کو کاسہ گدائی تک کس نے پہنچایا ؟ ملتان کی شان صرف اتنی ہی نہیں کہ اپنی کتاب کشف المحجوب میں حضرت داتا گنج بخش ؒ نے لاہور کو یکے از مضافات ملتان کہا بلکہ حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی نے ملتان کے بارے میں کہا کہ ” ملتانِ ماءبجنت اعلیٰ برابر است ، آہستہ پابنہ کہ ملک سجدہ می کنند“ ملتان کے بارے میں ایک سرائیکی کہاوت ہے ” جئیں نہ ڈٹھا ملتان ، نہ او ہندو نہ مسلمان “ ۔ اسی طرح ملتان کے بارے میں ایک ہندی کہاوت پورے ہندی ادب میں موجود ہے کہ ” آگرہ اگر ، دلی مگر ، ملتان سب کا پِدر “ ۔
سقوط ملتان کے واقعات قلمبند کرتے ہوئے مورخین لکھتے ہیں ۔ جون کے مہینے میں سورج آگ برسا رہا ہے، گرمی سے انسان تڑپ رہے ہیں، بدنام زمانہ ڈاکوؤں کے جتھے پر مشتمل ”سکھا فوج“ نے قلعہ ملتان کا چاروں طرف سے محاصرہ کر لیا ہے ۔ راستے بند، پانی اور راشن کی سپلائی بند، بارود کی تڑ تڑاہٹ میں سکھ کمانڈر کھڑک سنگھ کی طرف سے ملتان کے فرمانروا کو پیغام آتا ہے کہ ہتھیار ڈال کر جان کی امان لے لو ، جواب ملتا ہے ہمیں جان کی نہیں ایمان کی امان چاہئے ، سکھا فوج قلعے کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرتی ہے ، ملتانی سپاہ کا قائد اور اس کے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی سب سے آگے ہیں،مسلم فرمانروا کے دو بیٹے شہید ہوئے تو سکھا فوج نے کہا ،بوڑھے نواب اب تمہاری کمر ٹوٹ چکی ہے، تختِ ملتان کی چابیاں ہمارے حوالے کر دو، مسلم فرمانروا کہتا ہے ملتان کی چابیاں میرے پیٹ میں ہیں، سکھا فوج کی بربریت جاری ہے ، سورج سوا نیزے پر ہے ، گھمسان کی جنگ ہو رہی ہے ، ملتانی سپاہ کے ساتھ ملتان کے فرمانروا کی عظیم بیٹی دخترِ ملتان صبیحہ بی بی اور اس کے ایک اور بھائی کو قتل کر دیا جاتا ہے ،سکھ کمانڈر کی طرف سے پیغام آتا ہے کہ ضدی نواب! اب تمہاری آل اور نسل ختم ہونے کے قریب ہے اب تم ہاتھ کھڑے کر دو، ملتانی فرمانروا کا واپسی جواب ہوتا ہے مجھے پیدا کرنے والے کی قسم پانچ تو کیا پانچ لاکھ بیٹے اور بیٹیاں ہوں تب بھی میں ایک ایک کر کے اپنی ماں دھرتی اور ملتان کی ”ویل“ دیدوں ۔ یہ ملتان کی تابناک تاریخ ہے ۔ملتان جو سرائیکی وسیب کا مرکز ہے، کی بہادری کے حوالے سے تاریخ مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔
آج اپنے قبضے کے 200 سال گزارنے کے بعد سرائیکی وسیب اور اس کا مرکز ملتان جن حالات سے گزر رہا ہے تو اس کا تقاضہ ہے کہ ملتان کے اس خطے کے بارے میں تحقیق اور ریسرچ کی جائے ۔ اس علاقے کے لوگ ہمیشہ اعلیٰ عہدوں پر بر سر اقتدار رہے مگر اس طرف کسی نے توجہ نہ دی ۔ مخدوم سید یوسف رضا گیلانی وزیراعظم کے عہدے پر پہنچے مگر وہ بھی کوئی ایسا ادارہ قائم نہ کر سکے جو خطے کی تاریخ ، ثقافت اور جغرافیہ پر ریسرچ کرتا ۔ ملک مصطفی کھر پنجاب کے سربراہ بنے تو انہوں نے خود کو شیر پنجاب کہلوانا شروع کر دیا حالانکہ شیر پنجاب رنجیت سنگھ کا لقب تھا اور اس کے بعد شیر پنجاب کی پگ اس کے بیٹے کھڑک سنگھ کے سر پر آئی ۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ہمارے جو ” رہنما “ ہیں انہیں خود نہ تاریخ کا علم ہیں اور نہ وہ سرائیکی وسیب کے جغرافیہ کے بارے میں کچھ جانتے ہیں اور نہ ہی اس خطے کی ثقافت کا ادراک رکھتے ہیں تو ایسے لوگوں نے ہماری کیا رہنمائی کرنی ہے اور ہمیں کیا راستہ دکھانا ہے ؟ اللہ جھوٹ نہ بلوائے ، میں وثوق سے کہتا ہوں کہ سرائیکی وسیب کے 99 فیصد رہنماؤں کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ سقوط ملتان کیا ہے اور ملتان کے لئے اپنے اہل و عیال کی قربانی دینے والے نواب مظفر خان شہید کا مقام و مرتبہ کیا ہے ؟ اور تو اور انہیں اس بات کا بھی ادراک نہیں کہ مظفر آباد اور مظفر گڑھ کس شخصیت کے نام پرموسوم ہیں ؟ پوری دنیا میں سرائیکی شاید واحد خطہ ہو جسے آشکار ہونے کی ضرورت ہے ‘ اگر ریسرچ سکالر اس بارے توجہ کریں تو حیرتوں کے بہت سے جہان تلاش کر سکتے ہیں ۔
(بشکریہ: روزنامہ خبریں)
فیس بک کمینٹ