محبت کا پہلا سال بہت رومان پرور ہوتا ہے۔یہ وہ سال ہوتا ہے جو محبت کی طرح عمر بھر یاد رہتا ہے۔محبت کا پہلا سال اس لیے بھی خوبصورت ہوتا ہے کہ آغاز محبت میں کوئی ایک د وسرے کے ساتھ توقعات وابستہ نہیں کرتا۔بس ہاتھ تھام کردور تک ساتھ چلنے کی خواہش ہوتی ہے۔محبت کا پہلا سال خوشیوں کاسال ہوتا ہے۔لگن کا سال ہوتا ہے، ملن کا سال ہوتا ہے کہ اس میں تائید وتجدید کی نوبت نہیں آتی۔بس یہ ایک دوسرے پر آنکھیں بند کرکے یقین کرنے کا سال ہوتا ہے ،محبت کے پہلے سال میں کسی کوکسی پر کوئی شک وشبہ نہیں ہوتا اور محبت کے پہلے سال کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں بے تکلفی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ابھی ہم تکلف کے مرحلے میں داخل نہیں ہوئے ہوتے۔ابھی ہمیں ایک دو سرے کی باتیں بری نہیں لگتیں، ابھی ہم کانوں کے کچے نہیں ہوتے، ابھی ایک دوسرے کو یقین دلانے کے لیے قسمیں کھانے کی نوبت نہیں آتی۔ یہ اعتبار کاموسم ہوتاہے ۔ یہ اقرار کاموسم ہوتا ہے۔ یہ اظہار کا موسم ہوتا ہے اور یہ وہ موسم ہوتا ہے جب ہم سود وزیاں سے بالاتر ہوکر کسی خوف وخطرے اور اندیشے کے بغیر محبت کررہے ہوتے ہیں۔ایسا ہی خوبصورت سال تھا سخن ورفورم کی اس ادبی بیٹھک کے قیام کاسال۔ اور ادبی بیٹھک کے 9برسوں میں یہ اس کاسب سے خوبصورت سال تھا۔محبت کا پہلا سال۔ بیٹھک کاپہلا سال۔
12فروری2010ء کو جب ہم نے ڈاکٹر اسد اریب کی صدارت میں ادبی بیٹھک کا پہلا اجلاس کیا توہم میں سے کسی کومعلوم نہیں تھا کہ یہ بیٹھک کیسی ہوگی؟یہاں تقریبات کی نوعیت کیا ہوگی اور اس کی تقریبات کا انداز کیسا ہوگا؟ اس پہلے اجلاس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے ملتان آرٹس کونسل کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹرمحمد علی واسطی نے شرکت کی تھی جودراصل اس ادبی بیٹھک کے خواب کو حقیقت کا روپ دینے میں ہمارے مدد گار تھے۔ان کے ساتھ ڈاکٹر محمد امین بھی محفل کے مہمان خاص تھے۔دیگر شرکاءمیں ہمارے علاوہ ڈاکٹر صلاح الدین حیدر،محترمہ نوشابہ نرگس، ماہ طلعت زاہدی ، شاکر حسین شاکر، راحت وفا،جمشید رضوانی، آرٹس کونسل کے موجودہ ریذیڈنٹ ڈائریکٹر سجاد جہانیہ، عامرحسینی ،ضیاءثاقب بخاری، راشد نثار جعفری اورڈاکٹر وقار مسعود خان شامل تھے۔وسیم ممتاز ، قمر رضا شہزاد ، نوازش علی ندیم، سہیل عابدی، ضمیر ہاشمی، لقمان ناصر، ، محمد علی رضوی سمیت بیٹھک کے دیگر عہدیدار دوسرے اجلاس یا اس کے بعد کے اجلاسوں سے اس بیٹھک کاحصہ بنے۔پہلے اجلاس میں بہت سی تجاویز سامنے آئیں۔ اس بیٹھک کو کس طرح آگے لے کر چلنا ہے، دوستوں کو کیسے اس میں شامل کرنا ہے ، اس بارے میں ہم نےکوئی باضابطہ منصوبہ بندی نہیں کی تھی ۔ہم نے پہلے اجلاس میں ہی واضح کردیاتھا کہ یہ روایتی اجلاس نہیں ہوں گے۔یہاں روایتی تنقیدی اجلاس بھی نہیں ہوں گے۔یہ روایتی بیٹھک نہیں ہوگی۔لیکن یہاں سب کچھ غیرروایتی ہونے کے باوجود ہم روایت سے تعلق بھی نہیں توڑیں گے اور ہم نے یہ بھی واضح کیاتھا کہ یہ بیٹھک کسی بھی قسم کی مذہبی یا لسانی تفریق سے بالاتر ہو کر کام کرے گی۔ بس پھرسفر شروع ہوا ۔ ہم سفر ملتے رہے اور کارواں بنتا گیا ۔
اس بیٹھک کاخواب ہم نے تین نومبر 2007ءسے دیکھنا شروع کیاتھا۔اور یہ تاریخ ہمیں اس لیے یاد ہے کہ اس روز پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی لگائی تھی اوراسی روز ہم نے سہیل عابدی اورضیاءثاقب بخاری کے ساتھ مل کر نواں شہر کے ڈان ہوٹل میں ایک نشست کا آغاز کیاتھاکہ اس روز ہمیں ایک نظم سنانے کے لئے کہیں اور پناہ نہیں مل رہی تھی ۔ اس ہوٹل میں ہماری نشستیں چند روز جاری رہیں اور ان میں ایک بار اقبال ارشد بھی تشریف لائے تھے لیکن پھرکچھ عرصہ بعد ہم لاہورچلے گئے اور پھر جنوری 2008ءمیں ملتان واپس آکر ہم نے لال کرتی میں نذیرے کے ہوٹل پر دوستوں کی محفل آباد کرلی ۔ہم سب وہاں نجم الاصغرشاہیا صاحب کی قیادت میں روزانہ جمع ہوتے تھے۔ شاہیا صاحب کو وہاں لانا ہماری اور عاطف مرزا کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔ اس ہوٹل پر اکثر شعری نشستیں بھی ہوئیں اور گفتگو کاسلسلہ تو تسلسل کے ساتھ جاری رہتاتھا۔آندھی ہو یا بارش ہم سب مغرب کے بعد لال کرتی پہنچ جاتے تھے۔
یہیں ایک روز شاہیا صاحب نے کہا تھا کہ ہم روزیہاں بیٹھتے تو ہیں کیوں نہ اسے کسی ادبی اجلاس کا روپ دے دیاجائے اور یہاں باقاعدہ مشاعرے اور اجلاس منعقد کیے جائیں۔شاہیا صاحب کی اس تجویزکو اس ہوٹل پر عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں تھا۔پھر محمد علی واسطی صاحب اس خو اب کو تعبیر دینے کےلئے ہماری مدد کو آئے اور ملتان آرٹس کونسل کے اس کمرے کو جو عموماً خالی رہتا تھا مستقل طورپر ادبی بیٹھک کا نام دے دیا۔یہاں اجلاس شروع ہوئے اوریہ پہلا موقع تھا کہ ملتان کے ادیبوں اورشاعروں نے کسی سکول کے بنچوں اورکرسیوں کی بجائے آرٹس کونسل کے خوبصورت ماحول میں ادبی سرگرمیاں شروع کیں اور پھرشہر میں چرچا ہوگیا کہ رضی اور شاکر نے آرٹس کونسل پر قبضہ کرلیاہے۔
12فروری کے اجلاس کے بعد ہم سب سے پہلے شاہیا صاحب کے پاس ہی گئے اور انہیں بتایا کہ آرٹس کونسل میں ادبی بیٹھک قائم ہوگئی ہے۔شاہیا صاحب ان دنوں صاحب فراش تھے۔خوشی سے اٹھ کر بیٹھ گئے ۔کہنے لگے مجھے ایک مرتبہ اس بیٹھک میں ضرور لے جانا۔میں وہاں جانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے بہت اشتیاق سے پوچھا کہ کون کون آیا تھا اس بیٹھک میں ۔ کتنی دیر بیٹھے۔ کیا گفتگو ہوئی اوراگلی بیٹھک میں کیاہوگا۔ ہم نے انہیں تفصیل بتائی اور یہ بھی بتایا کہ 19فروری کی دوسری بیٹھک میں ہم انہیں ضرور لے کر جائیں گے۔ 19فروری کو دوسری ادبی بیٹھک امریکہ سے آئے ہوئے مہمان شاعر نصیر ہمایوں کے اعزاز میں منعقد ہوئی ۔ڈاکٹر عاصی کرنالی نے اس کی صدارت کی۔ہم نے کوشش ضرورکی کہ 19فروری والے اجلاس میں شاہیا صاحب کو لاسکیں لیکن ان کے لیے اس روز اجلاس میں آنا ممکن نہیں تھا۔ ہم ان کے گھر بھی گئے مگر ان سے ملاقات نہ ہوسکی کہ اگلے روز 20فروری کو انہوں نے تمام محفلوں اور بیٹھکوں کو ہمیشہ کے لیے خدا حافظ کہناتھا۔اگلی بیٹھک ہم نے نجم الاصغر شاہیا کی یاد میں منعقد کی۔یہ پہلے سال کی پہلی تعزیتی بیٹھک تھی اور اس بیٹھک میں پہلی بار مسعود کاظمی تشریف لائے تھے۔مسعود کاظمی نے اسی بیٹھک میں بتایا تھا کہ میں نجم الاصغر شاہیاصاحب کی وصیت پر اس بیٹھک میں آیا ہوں۔وہ مجھے کہہ کر گئے تھے کہ تم سخن ورفورم کاحصہ بنواور ادبی بیٹھک میں جایا کرو۔میں ان کی زندگی میں تو اس بیٹھک میں نہ آسکا لیکن ان کی وفات کے بعد میں نے یہ عہد کیا ہے کہ میں آخری سانس تک اس بیٹھک کے ساتھ رہوں گااور سخن ورفورم ہی اب میرا حلقہ احباب ہے۔مسعود کاظمی نے ممکن ہے زندگی میں بہت سے وعدے توڑے ہوں ممکن ہے کسی کے ساتھ بے وفائی بھی کی ہو لیکن شاہیا صاحب کے ساتھ کیاہوا وعدہ انہوں نے آخری سانس تک وفاکیا۔
پہلے برس کے دوران ہونے والے اجلاسوں کی تعداد 35سے زیادہ تھی۔اوراسی برس کے دوران غیرمحسوس انداز میں اس بیٹھک کی تقریبات کا انداز طے ہوگیا۔پہلے برس ہی ہم نے 19مارچ کو لطیف الزماں خاں صاحب کی 84ویں سالگرہ منائی تھی۔ یہ اس بیٹھک میں ہونے والی سالگرہ کی پہلی تقریب تھی اور اسی سالگرہ کے ذریعے ملتان میں ادیبوں، شاعروں کی سالگرہ اورکیک کاٹنے کی روایت قائم ہوئی جو بعدازاں ادیبوں سے ہوتی ہوئی پولیس افسروں اور دکان دار وں تک پھیل گئی۔2010ء کے دوران ہی اس بیٹھک میں خواتین کا پہلا مشاعرہ منعقدہوا۔اس سے پہلے خواتین کے مشاعرے صرف خواتین کی تنظیموں کے زیراہتمام ہی منعقد ہوتے تھے۔سخن ورفورم کی اس ادبی بیٹھک نے پہلی بار خواتین قلمکاروں کو احترام دیا اور انہیں بتایا کہ اس بیٹھک میں صنفی امتیاز سے بالاتر ہوکر تقریبات منعقد کی جائیں گی۔خواتین کے مشاعرے کی صدارت محترمہ ثمربانو ہاشمی نے کی تھی۔اسی برس رحمن فراز صاحب کے ساتھ شام منائی گئی۔اسی سال ادبی بیٹھک میں محفل موسیقی منعقد ہوئی۔اس برس کے دوران بہت سی کتابوں کی تعارفی تقریبات ہوئیں۔مہمان قلم کاروں کے ساتھ شامیں منائی گئیں۔دانشوروں کے ساتھ مکالمے کی روایت قائم ہوئی۔یہی وہ سال تھا جب ہم نے مرحومین کو اس محفل میں باقاعدگی کے ساتھ یاد کرنا شروع کیا۔مرزا ابن حنیف اور تاثیر وجدان کی یاد میں تعزیتی تقریب اسی بیٹھک میں منعقد ہوئی۔ اسی برس ایک شام دوشاعر کے نام سے سینئر اور جونیئر شعراءکو سنا گیا۔اور یہی وہ برس تھا کہ جب ہم نے مرحومین کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ زندہ قلم کاروں کی خدمات کااعتراف بھی کیا۔اس سلسلے کی پہلی تقریب اقبال ساغر صدیقی کی 60سالہ خدمات کے اعتراف کے لیے منعقد کی گئی تھی جس میں بڑی تعداد میں ادیب اورشاعرشریک ہوئے اور ساغر صاحب کو گلدستے اور شیلڈ پیش کی گئی۔سال کا آخری اجلاس 30دسمبر 2010ءکو منعقد ہوا جو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی برسی کے حوالے سے تھا۔2010ءکے شرکاءکی فہرست پرنظرڈالیں تواحساس ہوتا ہے کہ ایک ایک کرکے یہ شہر قدآور شخصیات سے کیسے خالی ہوتا چلاگیا۔بہت سے قدآور نام تھے جو اس بیٹھک کاحصہ تھے۔ ڈاکٹر عاصی کرنالی، پروفیسر حسین سحر، اقبال ارشد، اصغرعلی شاہ، لطیف الزماں خاں، نعیم چوہدری، رحمن فراز جیسی ہستیوں کی وجہ سے اس بیٹھک کو بہت اعتبار ملا۔راشد نثار جعفری دوبرس تک اس بیٹھک کے فعال ترین رکن رہے۔اس نوجوان کی موجودگی میں ہمیں اس بیٹھک کی کرسیاں سیدھی نہیں کرناپڑتی تھیں۔اس کے علاوہ سلمان غنی، مشتاق کھوکھر، اقبال حسین شاہ، آصف رشید، قسور رضی،نصیر ہمایوں بھی بارہا اس بیٹھک میں شریک رہے۔پیرانہ سالی کے باوجودمحترم فاروق انصاری صاحب تسلسل کے ساتھ اس بیٹھک میں کئی برس تک آتے رہے۔اب گزشتہ ایک برس سے وہ پے درپے صدمات کے باعث گھر تک محدودہوگئے ہیں۔ہم ان کی صحت اورسلامتی کے لیے دعاگو رہتے ہیں۔ارشد عباس ذکی، عماریاسرمگسی اوران کے کچھ دوست جو ابتدائی برسوں میں باقاعدگی کے ساتھ اس بیٹھک میں آتے اب یہاں نہیں آتے۔ لیکن ہم ان کی صحت،سلامتی اورترقی کے لیے ہمیشہ دعاگو رہتے ہیں۔ایک طویل فہرست ان دوستوں کی بھی ہے جو تسلسل کے ساتھ اس بیٹھک کاحصہ ہیں ۔اورایک فہرست ان نوجوانوں کی ہے جو پہلی مرتبہ آج بیٹھک کی سالگرہ میں شریک ہوں گے۔یہی اس بیٹھک کاحسن ہے اور یہی محبت کاحسن ہے کہ اس کاپہلا سال اس لیے یاد رہتا ہے کہ آنے والے برسوں میں بھی وہی پہلا سال محبت کے تھکے ہارے مسافروں کو آگے بڑھتے رہنے کاحوصلہ دیتا ہے۔