ابھی دو تین دن پہلے کسی کی لکھی سطر پڑھی،’’ جب کوئی ایسا شخص دنیاسے رخصت ہوتا ہے،جس کے ساتھ آپ نے زندگی کے کچھ لمحات گزارے ہوں تو اس کی تدفین کے ساتھ آپ کی زندگی کا اتنا وقت کٹ کر اس کے ساتھ ہی چلا جاتا ہے۔‘‘ بات واقعی خوبصورت ہے، افسوس کہ سوشل میڈیا کے مطالعے سے ہم بہت سی چھوٹی بڑی باتوں سے متعارف تو ہوتے ہیں، مگر ان کی تفصیل معلوم نہیں ہو پاتی۔ کسی دوست نے اچھا ون لائنر شیئر کر دیا، کوئی خوبصورت کوٹیشن جسے پڑھ کر دل شاد ہوجائے ، اس کے اصل مصنف کے بارے میں معلوم نہیں ہوپاتا۔ یہ فیس بک کا زمانہ ہے،مطالعہ کی ایک خاص قسم اس نے متعارف کرائی ہے، سطحی ، ادھوری اور گہرائی سے عاری علم ۔جیسے راہ چلتے زمین پر گر ااخبار کا ٹکڑا مل جائے ، جس میں کسی دلکش تحریر کا حصہ چھپا ہو، یا تنور سے اخبار میں لپٹے نان لئے اور اس پرانے ورق میں کچھ غیر معمولی چھپا مل جائے۔سیاق وسباق نامعلوم ، مگر تحریراپنی اصل میں خوبصورت اور قابل تحسین۔ بات زندگی میں ملنے والے افراد کی ہو رہی تھی، جن کے ساتھ کچھ وقت بِتانے کو ملا ہو۔ پیدائش سے آخری سانس تک کے سفر میں بہت سے کرداروں سے ملتے ہیں۔ ان سب کے ہمارے اوپر کچھ نہ کچھ اثرات ضرور پڑتے ہیں۔ بعض کردار تو قدرت نے ہمیں ودیعت کئے ، خونی رشتے، عزیز واقارب وغیرہ۔ کچھ کرداروں سے رشتہ حالات کی وجہ سے جڑتا ہے، ہمسایے، بچپن کے دوست، اساتذہ وغیرہ۔ ہم اس حوالے سے چوائس نہیں کر سکتے۔ جس محلے میں پیدا ہوئے، پلے بڑھے، وہاں کے ہمسایے، ان کے بچے، محلے کے دیگر بچوں سے دوستیاں بنیں۔ کبھی یہ بچپن کا ساتھ زندگی بھر چلتا ہے۔ میں اگر چاہوں بھی تو احمد پورشرقیہ کے قدیمی محلہ کٹڑا احمد خان میں اپنے بچپن اور پھر قلندر کالونی کے نئے مکان میں رہتے ہوئے ہائی سکول، کالج کے دنوں کو اپنی زندگی سے منہا نہیں کر سکتا۔ کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ یہ حقیقت ہے کہ جب زندگی میں گہرا اثرڈالنے والا ایک کردار دنیا سے چلا جائے تو اس کے جانے کا غم تو اپنی جگہ، مگر یادوں کے توشہ خانے سے ایک حصہ بھی کٹ کر الگ ہوجاتا ہے۔ وہ جگہ پر نہیں ہوتی، زخم مندمل نہیں ہوپاتا۔ ہم اس ادھوری جگہ ، اس خلا کے ساتھ باقی ماندہ زندگی گزارتے ہیں۔جب کبھی یاد کی لہر جھلملائے تو ایک ہوک دل سے اٹھتی ہے، کسک محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے میری زندگی میں خوشگوار، حسین رنگ گھولنے والا ایک ایسا ہی شخص رخصت ہوگیا۔ ان کی کہانیوں، ناولوں سے بچپن میں خوب لطف اٹھایا۔سکول کا زمانہ انہی کی کتابوں کے ساتھ گزرا، حتیٰ کہ ہم یکا یک بڑے ہوگئے اور پھر لگا کہ اب ایک زینہ اوپر چڑھنا چاہیے،تب دلچسپی کا محور بدل گیا، کچھ نئے نام، نئے تخلیق کاروں نے اپنے سحر میں لے لیا۔ یہ سفر جاری رہا، احمدپور شرقیہ سے لاہور آگئے، صاحب علم افراد کی صحبت نے خیال وفکر کے نئے دروازے وا کئے، مختلف طرح کی تحر یریں پڑھنے کو ملیں ، حتیٰ کہ ایک دن دستِ قدرت نے قلم ہاتھ میں پکڑا دیا کہ چل اب وہ سب نقشے جما، وہ لکھ جس کا بچپن سے خواب دیکھ رہا تھا۔ تخلیق کاری تو اسے کیا کہیں، قلم گھسیٹنا ہی کہہ لیجئے ،برسوں سے یہی کر رہے ہیں، قدرت نے کرم نواز ی کی تو آخری وقت تک یہی کرتے رہیں گے۔ اردو کے دو عظیم جاسوسی ناول نگاروں میں سے ایک ، اپنی وضع کا منفرد قلم کار،بچوں اور بڑوں کے لئے ہزاروں ناول لکھنے والا مظہر کلیم دنیا سے رخصت ہوگیا۔ ہماری زندگیوں میں مظہر کلیم کے نقوش گہرے ہیں۔ ابن صفی(بی اے) جنہیں اردو کا بابائے جاسوسی ادب کہنا چاہیے تھا، وہ میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے انتقال کر گئے تھے ، کہانیاں پڑھنے کا جب چسکہ پڑا اور ابن صفی کا نام سنا تو ان کے ناول ڈھونڈ ڈھانڈ کر پڑھے۔ابن صفی اس میں کوئی شک نہیں جینوئن تخلیق کار تھے، ان کی نثر بڑی عمدہ اور جاندار تھی۔ہمارا مظہر کلیم بھی کوئی عام رائٹر نہیں تھا۔ افسوس کہ انہیں بری طرح نظرانداز کیا گیا۔ مظہر کلیم نے چھ سات سو کے قریب عمران سیریز کے ناول لکھے، جبکہ بچوں کی کہانیاں پانچ ہزار کے لگ بھگ ہیں۔انہوں نے بچوں کے ادب میں کئی دلچسپ کردار متعارف کرائے۔ مجھے اپنے بچپن میں آنگلو بانگلو اور چلوسک ملوسک کی کہانیاں بہت پسند تھیں۔ پچھلے دنوں انارکلی کی پرانی کتابوں والی دکانوں سے چلوسک ملوسک کی ایک کہانی ملی تو خرید لایا کہ بچوں کو دکھاؤ ں گا۔ یہ ایک سائنس دان کے دو بچوں کی کہانیاں تھیں جو سپیس شٹل لے کر مختلف سیاروں کا سفر کرتے ہیں ۔ٹارزن اور امیرحمزہ، طلسم ہوشربا کی کچھ کہانیاں بھی مظہر کلیم نے لکھیں۔ انہیں اصل شہرت مگر عمران سیریز سے ملی۔ مظہر کلیم (ایم اے)کے ساتھ زیادتی یہ ہوئی کہ ان کا ہمیشہ ابن صفی کے ساتھ موازنہ کیا جاتا رہا ، ابن صفی کی فین شپ زیادہ بڑی ، وسیع اور پھیلی ہوئی تھی۔ سنجیدہ عمر کے بیشتر لکھاری ابن صفی کو اپنے زمانے میں پڑھ چکے تھے، وہ ابن صفی کے سوا کسی اور کو جاسوسی ناول لکھتے گوارا ہی نہیں کر سکتے تھے۔ ادھر مظہر کلیم ایم اے کے بیشتر فین میری عمر کے ہیں، ان کے بیشتر ناول 1980ء کے عشرے اور اس کے بعد شائع ہوئے، انہیں پڑھنے والوں کی بڑی تعداد 1970ء کے بعد کی ہے۔ یہ نسل ابن صفی کو پڑھنے والی نسل سے ایک دو عشرے بعد کی ہے ، ان میں سے چند ایک ہی لوگ آج کل اخبارات وجرائد میں چھپ رہے ہیں، اپنے پسندیدہ ادیب کا وہ بھرپور دفاع نہیں کر پاتے۔ سوشل میڈیا پر البتہ مظہر کلیم کے فین زیادہ مل جائیں گے کہ وہاں نسبتاً نوجوان نسل کا غلبہ ہے۔ ابن صفی اور مظہر کلیم کا موازنہ کرنا زیادتی ہے۔ یہ دونوں مختلف سٹائل کے لکھنے والے تھے ، اگرچہ انہوں نے ایک جیسے کرداروں پر لکھا۔ ابن صفی نے اردوکے مسٹری ادب میں علی عمران جیسا دلچسپ اور منفرد کردار متعارف کرایا۔ عمران اور ان کی سیکرٹ سروس جو صفدر، جولیا نافٹرواٹر، تنویر، چوہان ، صدیقی وغیرہ پر مشتمل تھی۔ جولیا ایک سوئس نژاد خوبصورت لڑکی تھی، پاکیشیا کی سیکرٹ سروس میں ایک غیر ملکی لڑکی کو کیوں شامل کیا گیا، یہ بات ویسے کبھی سمجھ نہیں آئی۔ اس وقت تو خیر ہم جولیا کے نادیدہ حسن کے اسیر تھے ، اگرچہ نک چڑھی جولیا علی عمران ایم ایس سی، ڈی ایس سی، پی ایچ ڈی (آکسن)پر فریفتہ تھی اور اپنے کولیگ تنویر کو ہمیشہ نولفٹ کرا کے چڑاتی ۔میری رائے میں ابن صفی نے کرنل فریدی سیریز زیادہ عمدہ لکھیں۔ فریدی ان کا پسندیدہ کردار تھا۔ انہوں نے ایک ناول میں فریدی اور علی عمران کو اکٹھا کیا تھا اور سچ تو یہ ہے کہ اس میں فریدی کا پلہ بھاری تھا۔ کرنل فریدی سنجیدہ مزاج انٹیلی جنس افسر تھا، غیر شادی شدہ، ہر وقت سگار پینے والا ، کتابوں کے مطالعہ میں غرق۔ ان کا اسسٹنٹ کیپٹن حمید ایک شوخ، شرارتی ، لاابالی نوجوان تھا، جو مخصوص انداز میں پائپ پیتا۔خواتین سے گھبرانے والا امیرزادہ گرانڈیل قاسم بھی ایک دلچسپ کردار تھا۔ مظہر کلیم نے ابن صفی کے برعکس تقریباً تمام ناول عمران پر لکھے ۔ چند ایک ناولوں میں وہ کرنل فریدی کو بھی لے آئے، مگر واضح طور پر عمران کا کردار غالب تھا اور فریدی دبا رہا۔ مظہر کلیم کی مجبوری تھی کہ عمران کا کردار اس قدر مقبول ہوچکا تھا کہ وہ اسے چھوڑ نہیں سکتے تھے، ان کے لاشعور میں یہ بات البتہ موجود تھی کہ یہ ابن صفی کا کردار ہے۔ انہوں نے اسی لئے اپنے بعض کردار تخلیق کئے اور انہیں محنت کر کے چمکا دیا۔ کیپٹن شکیل، ٹائیگر، جوانا وغیرہ ان کے اپنے کردار تھے۔ایک بڑا فرق یہ تھا کہ ابن صفی کے ناول (شرلاک ہومز کی طرح)مسٹری تھے، ان کا کینوس مقامی تھا، اکثر ناولوں میں سسپنس کا عنصر زیادہ تھا، پڑھنے والے اندازے لگاتے رہتے کہ کیس کس طرح حل ہوگا۔مظہر کلیم نے بھی مسٹری ناول لکھے، مگر ان میں تھرلر ناول زیادہ تھے۔ ایکشن ان کے ناولوں میں بہت تھا ۔کہانی میں جدید ہتھیار، سائنسی اصطلاحات عام تھیں اور کئی مشن پاکیشیا کے ایٹمی اثاثوں کو چوری کرنے کے گرد گھومتے تھے۔ مظہر کلیم کااصل جرم ملتان میں قیام تھا۔ بڑے سٹیشن سے دوری جرم سے کم نہیں۔ مین سٹریم میڈیا نے اس مقبول ترین ادیب کو مکمل نظرانداز کیا۔ دو ڈھائی برس پہلے ایک اخبار میں ان کا انٹرویو شائع ہوا، یہ ان کے معدودے چند انٹرویوز میں سے ایک تھا۔ کسی یونیورسٹی میں ان پر ایم اے، ایم فل یا پی ایچ ڈی کے مقالے نہیں لکھے گئے۔ مظہر کلیم حالانکہ اس کے مستحق تھے۔ ابن صفی بڑے ادیب تھے،زندگی اوربعدمیں ان کی بھرپور پزیرائی کی گئی،ان کا حق بنتا تھا۔مظہر کلیم بھی پاپولر ادب کا ایک ممتاز نام تھا، افسوس کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔ اشتیاق احمد کی طرح مظہر کلیم کے ساتھ بھی ہمارے سماج نے فراخدلانہ سلوک نہیں کیا۔ ان کی کہانیاں چھاپ کر پبلشر کروڑ پتی بن گئے، مگر وہ آخری سانسوں تک لکھنے کی مشین بنے رہے۔میرے نسل کے قاری انہیں مگر کبھی نہیں بھلا پائیں گے۔ ہمارے بچپن کو ان کی کہانیوں نے خوشگوار بنایا
( بشکریہ : روزنامہ 92 نیوز )
فیس بک کمینٹ