کیا لکھیں وہ جو مقبول ہے یا وہ جو سچ ہے۔۔۔ سچ پر پروپیگنڈا کا غلبہ ہو تو لکھا ہوا مقبول ہوتا ہے مگر سچ نہیں رہتا۔ لکھنے والے لکھنے سے پہلے سوچیں کہ تحریر پر داد ملے، تقریر پر تالیاں اور تصویر پر ویوز۔۔۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ لکھا، بولا اور دیکھا بھالا سچ متاثر نہ ہو۔
یہ دور انفلوئنسرز کا دور ہے۔ سیاست، صحافت اور ابلاغ سب انفلوئنسرز کے حوالے ہے۔ ٹوتھ پیسٹ بیچنے سے لے کر ’ٹروتھ‘ بیچنے تک انفلوئنسرز کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ جن صحافیوں نے سیکھ لیا وہ کامیاب جن سیاست دانوں کے ہاتھ آیا وہ بہترین۔
یوں سمجھیے کہ مزاج دیکھ کر سوال کرنا، اجازت سے آدھا سچ کہنا، گل ویلے دی پھل موسم دا اور ماحول دیکھ کر موضوع ترتیب دینا سماجی رویہ بنتا چلا جا رہا ہے۔
دُنیا بھر میں سوشل میڈیا کا عروج ہے۔ سچ وہ نہیں جو سامنے ہے، سچ وہ ہے جو گھڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پروپیگنڈا سچ کی جگہ لے چُکا ہے اور بڑے بڑے دانشور تک اب صرف ماحول دیکھ کر جملہ پھینکنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
ایسے میں ہواؤں کے مخالف چلنا، کڑوی، کسیلی تنقید کرنا اور آئینہ دیکھانا جیسی باتیں متروک ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ قلم قبیلے کے لوگ، کیمرے کا کاروان اور آواز بیچنے کا قافلہ ایسی مشکل میں ہے جو اب سے پہلے کبھی نہ تھی۔
سوشل میڈیا کے غُل بڑے بڑے جغادریوں کو اپنی مرضی کے مطابق لکھنے اور چلانے پر قادر ہو چکے ہیں جبکہ ’سوشل میڈیا کے ان نامعلوم‘ چہروں کی اکثریت سامنے آنے کو بھی تیار نہیں۔ جُز وقتی نام نہاد صحافیوں اور کرائے کے قلم کاروں کے ذریعے جو ماحول بنایا جا چکا ہے اُس کے سامنے سچے، بڑے اور جی دار صحافی بھی بے بس اور بے اختیار نظر آتے ہیں۔
یوں کہیے کہ اصل ’طاقت‘ اب مقتدروں کے پاس بھی نہیں بلکہ یہ طاقت اب سوشل میڈیا کے توسط اُس گروہ کو منتقل ہو چکی ہے جس کا کنٹرول بظاہر کہیں اور ہے۔ طاقت کا محور کب بدلا؟ سوشل میڈیا نے کب مقتدرہ کی طاقت شیئر کرنا شروع کی یہ محسوس ہوا تو بہت دیر ہوچکی تھی۔ جج، جنرل اور صحافی سب خوف کا شکار ہوئے۔
پروپیگنڈا سٹرٹیجی پڑھانے والے محض تھیوری تک محدود ہیں جبکہ عملدرآمد کرنے والے کسی دوردراز علاقے میں بیٹھے وہ ’کارکن‘ ہیں جنھیں روزگار کی بھی ضرورت ہے اور اختیار کی بھی۔ اب گویا اختیار کے معنی بدل گئے ہیں مگر مقتدروں کو ادراک ہوتے ہوتے بہت دیر ہو چکی۔ جب سمجھ میں آیا تو بازی پلٹ چکی تھی، تخلیق کرنے والے کردار نشانے پر تھے اور ’کی بورڈ جنگجو‘ میدان سنبھال چکے تھے۔
پاکستان میں تحریک انصاف کے علاوہ کسی سیاسی جماعت نے سوشل میڈیا کواہمیت دی اور نہ ہی اسے باضابطہ ’ہتھیار‘ کے طور استعمال کیا۔ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ پی ٹی آئی کی نمود و نمائش کا اہتمام کرنے والوں نے جو بندوبست فراہم کیا تھا وہ کسی اور سیاسی جماعت کے لیے میسر تھا نہ ہی آئندہ کبھی ہو گا۔ اس باقاعدہ سائنس کے لیے سرمائے سے لے کر دماغوں تک کی سہولت کاری میں ادارے کا کردار جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
سوال یہ بھی ہے کہ ’ففتھ جنریشن وار فئیر‘ کے پرچارکر ان جنگنجوؤں کی قابلیت سے ناآشنا کیسے ہوئے۔ وہ یہ جان کیوں نہ سکے کہ اُن کو دستیاب سہولت کسی اور کو بھی منہ مانگے دام دستیاب ہو سکتی ہے۔ سوشل میڈیا وہ منڈی ہے جہاں منہ مانگی قیمت پر ’کی بورڈ جنگجو‘ دستیاب ہیں۔
اب جب انتخابات سر پر ہیں تو جھوٹ اور پراپیگنڈے کا بازار گرم ہے، گھر بیٹھے سادہ لوح ووٹر یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ درست کیا اور غلط کون؟ تصدیق کا کوئی ذریعہ ہاتھ ہے اور نہ ہی اتنے وسائل کہ کس طرح سوشل میڈیا کے انفلوئینس میں آنے والے ووٹر کو حقیقی زمینی حقائق سے جوڑا جائے۔
ایسے میں جہاں انتخابات پر اثرانداز ہونے کے اشارے مقتدروں پر کیے جاتے ہیں وہاں خاص مقاصد کے لیے تیار کیے جانے والے ’سوشل میڈیائی جنگجو‘ بھی مقتدرہ کو ’ٹکر‘ دینے کو تیار ہیں۔
انتخابات کے قریب غیر تصدیق شُدہ سروے اور بے بُنیاد پولز انتخابی عمل کو متاثر کرسکتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ نہ تو اس پر قابو پایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی کنٹرول بہتر ہو گا۔ ایسے میں سوشل میڈیا جیسے بے قابو جن اور سیاسی طور پر متحرک انفلوئینسرز کو روکنے لیے اطلاعات تک رسائی اور فیک نیوز پر چیک رکھنا ہو گا۔
بونے کئی جھوٹے پاؤں جوڑ بھی لیں تو بھی سچ قدآور ہوتا ہے۔ سچ کے قبیل کو تالی، داد اور تحسین سے نکل کر صرف حقائق بیان کرنا ہوں گے جبھی جھوٹ دم دُبا کر بھاگے گا۔
(بشکریہ: بی بی سی اردو)
فیس بک کمینٹ