جب سے پیدا ہوئے ہیں سنتے آ رہے ہیں کہ پاکستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ یہاں سیاسی حکومتیں آئیں، بغیر مدت پوری کیے جاتی رہیں، مارشل لا آئے دس دس سال کا وقت گزار کر جاتے رہے، مسائل جوں کے توں رہے، معیشت کبھی نہ سنبھلی۔
آج بھی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ پاکستان علاقائی تنہائی کا شکار ہے لیکن جس اہم معاشی دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں، حالات شاید ایسے پہلے کبھی نا تھے۔پاکستان کو 20 ارب ڈالرز کی چنداں ضرورت ہے، کہاں سے لائیں بہت اہم سوال، اوپر سے ہمسائے نوچ کھانے کو تیار۔۔۔انڈیا مشرقی سرحدوں پر چھیڑ خانی شروع کر چکا ہے، حالانکہ حال ہی میں جب پومپیو صاحب پاکستان تشریف لائے تھے ہم نے دست بستہ عرض کیا تھا کہ جناب جس طرح افغانستان میں ہم سے کام لینا چاہتے ہیں لیں،، لیکن علاقائی ٹھیکیدار کو کنٹرول کریں اور مشرقی سرحد پر دباؤ کم کرائیں۔۔معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوا۔ پومپیو کے روانہ ہوتے ہی انڈین آرمی چیف عرف ‘ترچھی ٹوپی والے’ نے سرجیکل سٹرائیکس کی تڑیاں لگانا شروع کر دیں۔ہم نے کمال ضبط کا مظاہرہ کیا اور جواب میں صرف اتنا کہا کہ ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نا سمجھا جائے۔۔۔ محض تین دن کے بعد جنرل راوت نے پھر دھمکی دے ڈالی۔۔ اور ہم نے پھر مذاکرات کی دعوت۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی سشما سوراج بمقابلہ شاہ محمود خوب رہا۔۔۔ دیکھیں یہ ‘اِب کے مار’ والی صورتحال کب تک جاری رہتی ہے۔رہی بات افغانستان کی۔۔۔افغانستان ہمیشہ بہت ڈیمانڈ کرتا رہا ہے اور اب بھی کر رہا ہے۔ بلکہ اس سے کہیں زیادہ امریکا، جو افغانستان میں اپنی کامیابی چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ پاکستان مدد بھی کرے اور ڈھنڈورا بھی نا پیٹے۔۔ بلکہ اس کی کامیابی کے گُن بھی گائے۔تیسری جانب ایران۔۔ جس سے ہمارا تعلق اس شخص کا سا ہے کہ جب محبوب چرنوں میں بلانا ہو تو محبت کی پینگ ڈال لیتے ہیں اور محبوب کے پاس آتے ہی دُھتکار دیتے ہیں۔ حال ہی میں تہران میں داعش کے خطے میں بڑھتے ہوئے خطرات سے متعلق اہم سکیورٹی کانفرنس ہوئی جس میں انڈیا کی جانب سے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول نے شرکت کی جبکہ چین، روس اور افغانستان کے نیشنل سکیورٹی کے اہم اہلکار بھی شریک تھے۔ حیران کُن بات یہ ہے کہ اس کانفرنس میں پاکستان شریک نہیں تھا۔۔ہماری مالی مجبوریاں اور لاچاریاں ہمیں اس حد تک لے آئی ہیں کہ سعودی عرب سے اربوں چاہئیں، بدلے میں شرائط کیا، نتائج کیا؟حکومت آئی ایم ایف کے پاس جائے تو مہنگائی میں ہوش ربا اضافہ۔۔۔ نو منتخب مگر کمزور حکومت پر عوامی دباؤ بڑھا سکتا ہے۔ تو دوسری طرف سعودی امداد قبول نا کر کے گھاس کھانے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔زرمبادلہ کے ذخائر 30 دن سے بھی کم ہیں، سعودی امداد قبول ہو تو کیا وہ شرائط بھی تسلیم کرنا ہوں گی جو سابقہ کسی حکومت نے نہیں کیں؟ امداد اگر سرمایہ کاری کی صورت میں ہو یا تین سال کے تیل کی صورت، ہم اگر گوادر میں ایران کی سرحد کے بالکل قریب سعودی سرمایہ کاری کی اجازت دیں گے تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ سب جانتے ہیں مگر کوئی نہیں جانتا!کریں تو کریں کیا؟ تحریک انصاف کی حکومت بھینسیں بیچے، ہیلی کاپٹروں کا سودا کرے، وزیراعظم ہاؤس کی گاڑیاں نیلام کرے۔۔ اتنے پیسے پھر بھی اکٹھے نہیں ہوں گے کہ معیشت دباؤ سے نکلے۔سابقہ حکومت کے غیردانشمندانہ معاشی فیصلوں نے نئی آنے والی حکومت کو بحرانوں کے بھنور میں دھکیل دیا ہے تو دوسری جانب گذشتہ ایک ماہ میں حکومت کی کارکردگی کی سمت اور فیصلے لایعنی محسوس ہو رہے ہیں۔اور ایک طویل فہرست ایسے فیصلوں کی موجود ہے جس نے بہت کم وقت میں حکومت پر بے شمار تنقید کے دروازے کھولے ہیں۔ ملک واقعی نازک دور سے گزر رہا ہے اور اس نازک دور سے نکلنے کے لیے محض نعرے نہیں، قومی مفاد میں حقیقت پسندانہ اورعملی فیصلے کرنا ضروری ہیں۔چونکہ اب سب ادارے تاریخی ہم آہنگی حاصل کر چکے ہیں اور ایک ہی صفحے پر ہیں لہٰذا اب ناکامی بھی سب کی مشترکہ ہی تسلیم ہو گی اور یہی لمحہ فکریہ بھی ہے خاص کر کے اُن قوتوں کے لیے جو ہمیشہ سیاسی حکومتوں کو ناکامی کا سبب گردانتی رہی ہیں۔ ایسے میں کون بچائے گا پاکستان۔۔۔عمران خان۔۔۔عمران خان۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو)
فیس بک کمینٹ