‘سوال’۔۔۔ کیا ہے، کیوں ہے، کب ہے، کہاں ہے اور کیسے ہے؟ یہی صحافت اور سچ کی بنیاد بھی ہے۔ سوال پوچھنے کے لیے ہمت چاہیے، طاقت چاہیے اور علم چاہیے۔۔۔ سوال کے لئے زُبان چاہیے، حقائق چاہییں اور الفاظ چاہییں۔۔۔
سوال، سوچ کا اظہار، گفتگو کا انداز اور علم کی بنیاد ہے۔ سوال کی طاقت کا اندازہ سقراط کو تھا جو گلی گلی، محلے محلے پوچھتا تھا اور سوال اُٹھانے کی ترغیب دیتا تھا۔ سوال کی طاقت کا اندازہ باب العلم کو تھا جو سلونی سلونی کی صدائیں لگاتے تھے۔۔۔ اور سوال کی طاقت کا علم مدینۃ العلم کو تھا جن کی ہر محفل میں سوال پوچھنے والے کی خاص اہمیت تھی۔سوال اُس وقت اٹھایا جاتا ہے جب جانتے ہوں اور مزید جاننا چاہتے ہوں۔۔۔ اور اُس وقت بھی جب آپ جواب جانتے ہیں۔ جس معاشرے میں سوال اُٹھانے کی اجازت نہ دی جائے وہاں جواب بھی ختم ہو جاتے ہیں اور جواز بھی۔ہم سوال سے ڈر کیوں رہے ہیں؟ یہی میرا سوال ہے۔ آج ذرائع ابلاغ کی صنعت زوال کی جانب جا رہی ہے۔ ہر روز ٹی وی چینلوں سے ورکرز نکالنے کی اطلاع آ رہی ہے تو ہم صرف یہ سوال اُٹھا سکتے ہیں کہ یہ کب ہوا؟ کیوں ہوا؟ اور کیسے ہوا؟2014 کے بعد سے میڈیا کو قابو میں لانے کی ایک منظم کوشش کی جا رہی ہے؟ اس کی پہلی کڑی پاکستان کے مایہ ناز صحافی حامد میر پر حملے کی ہے؟ سوال یہ ہے کہ حامد میر پر حملہ کیوں ہوا؟ اور کس نے کیا؟ رپورٹ شائع کیوں نہ ہوئی؟۔اسی دوران بول چینل کا بڑے پیمانے پر اجرا ہوا، مجھ سمیت بہت سے صحافی اس کا حصہ بنے، اس چینل کے ناجائز آمدنی کے ذرائع کے بارے میں ایک موقر بین الاقوامی روزنامے میں رپورٹ شائع ہوئی، چینل روک دیا گیا، کئی ٹی وی ورکرز کا معاشی قتل ہوا۔یہ چینل کچھ عرصے بعد آن ایئر ہوا مگر جس انداز میں ہوا اُس سے خبر ہو گئی کہ کون کیا چاہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بول کے ساتھ یہ سب کیوں اور کس کے کہنے پر ہوا؟ بند کیوں ہوا؟ اور آن ایئر کس کے کہنے پر کیا گیا؟سوال یہ بھی ہے کہ اخبارات اور چینلز کا موجودہ بحران مصنوعی ہے یا حقیقی؟ سوال یہ بھی ہے کہ ٹی وی چینلز کی ادائیگیاں روک کر اس نہج تک لانے کا منظم پروگرام کس نے بنایا کہ مالکان تقریباً ہر شرط ماننے کو تیار نظر آئے؟ بحران کس کس ادارے کا ہے؟ اور کون کون اس بہتی گنگا سے فائدہ اُٹھا کر صحافیوں کے معاشی قتل کا بندوبست کر رہا ہے؟اور سوال یہ بھی ہے کہ صحافی تنظیموں کو کس نے کیوں تقسیم کیا؟ اور اُس کا فائدہ کون اُٹھا رہا ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ صحافی تنظیمیں صدائےاحتجاج تو بلند کر رہی ہیں مگر اُن میں اثر کیوں نہیں رہا؟اور سوال یہ بھی ہے کہ اس معاشی قتل کے ذمہ دار کون ہیں؟ ہم صحافی جنھیں پہلے سینسر شپ، پھر سیلف سینسر شپ اور اب مکمل خاموشی کا عادی بنا دیا گیا؟ یا وہ طاقتیں جو اس ملک میں صرف ‘سناٹا’ چاہتی ہیں تاکہ کسی چینی، سعودی ماڈل کی تشکیل ہو سکے، کوئی بول نہ سکے، کوئی سوال نہ کرے اور کوئی جواب نہ ڈھونڈے؟؟؟
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ