ایک روز پی ٹی وی کی صبح کی نشریات کے دوران چاچا جی یعنی تارڑ صاحب نے بسکِٹ اور بسکُٹ کا فرق واضح کیا۔ فرمانے لگے کہ بسکِٹ وہ ہوتا ہے جسے پرچ یا پلیٹ سے اٹھا کر دانتوں سے ہلکا سا کاٹ کے نزاکت اور نفاست کے ساتھ واپس رکھ دیا جاتا ہے۔ جبکہ بسکُٹ کو پلیٹ سے اٹھا کر چائے میں ڈبو ڈبو کے کھاتے ہیں۔ یہ سنہری الفاظ سننے کے بعد ہم نے ایک عرصہ بسکِٹس اور بسکُٹوں پر تحقیق کی۔ مختلف علاقوں ، تہذیبوں،بیکریوں اور فیکٹریوں سے اِن دونوں کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ مختلف ٹیلی ویژن چینلز پر چلنے والے اشتہارات دیکھے۔ اِنہیں بنانے کے طور طریقے پڑھے اور سنے۔ سوچتے سوچتے ایک روز ہم نے دونوں خوراکوں کے عادات و خصائل، لطف و سرور وغیرہ پر اچھا خاصا غور کر ڈالا۔
بسکُٹ اور بسکِٹ بنیادی طور پر گندمی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انسان اور گندم کا تعلق بھی بڑا پرانا ہے۔غیر محتاط اندازے کے مطابق بسکٹ در اصل روٹی کا قریبی رشتہ دار ہے۔ روٹی سے بسکٹ تک بات کیسے پہنچی اس کے بارے میں ماہر باورچی بھی خاطر خواہ معلومات نہیں رکھتے۔ البتہ لفظ بسکِٹ کا تعلق چودھویں صدی عیسوی میں فرانسیسی زبان سے جڑتا ہے۔ کہتے ہیں کہ بسکٹ فرانسیسی زبان کا لفظ ہےجو لاطینی لفظ "بِس” یعنی "دو” اور "کوکٹس” یعنی "پکایا ہوا” سے مل کر بنتا ہے۔اِس طرح”بِسکوکٹس” کےمعانی ہیں” دو بار پکا ہوا”۔ اٹلی میں "بِسکوٹی” اِسی لاطینی مرکب لفظ "بِسکوکٹس” کا ہم معنی ہے۔
سادگی سے ہٹ کر جب بات نخرے تک پہنچی تو گندم کے آٹے کو چھان کر استعمال کرنے کا رواج پڑا۔پھر چھلنیاں باریک ہوئیں تو میدہ نکالا جانے لگا۔ میدے کی روٹی میں نفاست کی وجہ سے امراءنے اِسے خوراک میں شامل کر لیا۔باورچیوں اور نان بائیوں کے مختلف تجربوں کے نتیجے میں پہلے خمیری روٹی ایجاد ہوئی ، پھر رفتہ رفتہ بھٹی میں پھولی ہوئی ڈبل روٹی یا بریڈ تیار کی جانے لگی۔ اِسی میدے کو کسی زمانے میں ٹکی کی شکل میں پہلے بھٹی میں پکایا گیا ور بعد میں ہلکی آنچ پر سکائی کر دی گئی۔ ایسے باقاعدہ بِسکِٹ وجود میں آئے۔
گورا صاحب جب ہندوستان آیا تو یہ سوغات بھی ساتھ لایا۔ ورنہ اِس سے پہلےیہاں نان خطائی کھانے کا رواج تھا۔ جب تک یہ انگریزوں کی خوراک تھا تو بسکِٹ رہا جب ہندوستانیوں کے ہتھے چڑھا تو بسکُٹ بن گیا۔جس کی وجہ میرے اندازے کے مطابق اس کے انگریزی ہجے ہیں، جس کے درمیان میں ‘یو’ اور’ آئی’ آتے ہیں ۔ ‘یو’ کے بعد ‘آئی’ کی وجہ سے کسی نے ‘ک’ کے نیچے زیر لگایا اور بسکِٹ پڑھا۔ جب کہ ‘آئی’ سے پہلے ‘یو’ کے سبب سادہ لوح ‘ک’ پر پیش لگا کر اسے بسکُٹ پڑھتے رہے۔ ہندوستان میں دونوں قسموں کو مقبولیت حاصل ہوئی اور نمک اور میٹھا شامل کر کے مختلف ذائقوں کے بسکِٹ اور بسکُٹ تیار کئے جانے لگے۔
اب یہ بات واضح ہو گئی کہ بسکِٹ کھانے والے عموما ً اپر کلاس کے نازک اندام لوگ ہوتے ہیں۔یہ وزن میں انتہائی ہلکے مگر اِن کی سوچ بہت بھاری ہوتی ہے۔ یہ کلاس سال میں پونے بارہ مہینے ڈائٹنگ کرتی ہے۔ڈائٹنگ کا مطلب ہے مصنوعی طور پر بھوکے رہنا تاکہ وزن نہ بڑھے اور بندہ سمارٹ نظر آئے۔ امیر ہوتے ہوئے بھوکے رہنا بد نصیبی ہی تو ہے۔اِن لوگوں کے ہاں تصنع اتنی ہو جاتی ہے کہ یہ ہر اصل اور تازہ چیز سے دُر ہوتے چلے جاتے ہیں، جیسے اے سی کی وجہ سے تازہ ہوا سے محرومی اِن کا مقدر ہوتی ہے۔
جبکہ بسکُٹ کھانے والے غریب غربأ، مسکین ٹائپ لوگ ہوتے ہیں جو کہیں بھی بسکُٹانہ سٹائل اپناتے ہوئے شرماتے نہیں،بسکُٹ کو چائے میں اچھی طرح غسل کراکے حلق کے ذریعے پیٹ میں پہنچا کر دم لیتے ہیں۔جیسے معاشرہ اِن کے ساتھ ظلم روا رکھتا ہے یہ اپنے کھانے کے ساتھ یہی سلوک کرتے ہیں، اسی لیے مرغِ مسلم کو مسالے مار کے کھا جاتے ہیں۔ ٹھنڈے پانی سے نکلی مچھلی کو اُبلتے تیل میں دھو کر ڈکار جاتے ہیں۔
بسکِٹس اور بسکُٹوں کی دو بنیادی اقسام ہیں۔ اِن میں نمک والے اور میٹھے شامل ہیں۔ بسکِٹس میں میٹھے والی اقسام کم ہیں۔ اب ڈائٹ کوکا کولا کی طرز پر شوگر فری بسکِٹ تیار کیے جاتے ھیں۔ جب کہ بسکُٹ زیادہ میٹھے اور نمکین کم ہوتے ہیں۔ اِن کے علاوہ بادام، مونگ پھلی اور دُوسرے ڈرائی فروٹ والے بسکِٹس۔ سُوجی والے، کافی والے، چاکلیٹ والے بسکُٹ بھی کھائے اور پئے جاتے ہیں۔
خرید و فروخت کرتے وقت بسکِٹ گنِے جب کہ بسکُٹ تولے جاتے ہیں۔ بسکِٹ ملٹی نیشنل کمپنیاں بڑی فیکٹریوں میں مشینوں کی مدد سے بنا کر میڈیا کی ذریعے ڈیپارٹمنٹل سٹورز پر فروخت کرتی ہیں۔ بسکُٹ گلی محلے کی بیکریوں کی بھٹیوں میں شیدے یا گامے کے ہاتھوں سے بن کر کریانے کی دکانوں یا جنرل سٹورز پر بیچے جاتے ہیں۔
بسکِٹ بناتے وقت آئی ایس او سرٹیفیکشن کی روشنی میں ہائی جین اور صفائی کا خیال رکھنا لازم ہے۔ جبکہ بسکُٹ کی تیاری میں کسی بھی قسم کی روشنی لازمی نہیں۔ ہائی جین یا صفائی کے اصول و ضوابط کا ایسی بیکریوں میں داخلہ سخت منع ہے۔بسکِٹ میں مکھی، مچھر، کاکروچ جیسی مخلوقات کا نکلنا ناممکن جب کہ بسکُٹوں میں اِن کی آمیزش ہونا عام بات ہے۔ کہتے ہیں کہ آنکھوں دیکھی مکھی نگلی نہیں جاتی مگر آج کل کھائی جاتی ہے۔ اکثر اوقات شیرے میں ڈوبی مکھی کو کشمش کا نام دے کر گاہگ کو تسلی دے دی جاتی ہے۔ گھر پہنچنے کے بعد یہی کشمش خواتین کی مکڑیانہ نظر میں آنے کی صورت میں بندے کی تسلی ہو جاتی ہے۔ جیری اور مکی ماؤس کے بھائی بندوں یعنی چوہوںکی بیکریوں میں موجودگی سے کوئی انکار بھی نہیں کرتا۔ اس کے باوجود ان بیکریوں سے بسکُٹ خریدنے سے بھی کوئی انکار نہیں کرتا۔بسکِٹس کی فیکٹری میں غیر متعلقہ آدمی نہیں جا سکتا اور بسکُٹ کی بیکری میں متعلقہ آدمی نہیں جا سکتا۔بسکِٹس کو مارکیٹ میں بزنس ایڈمنسٹریشن کے اصولوں کے تحت لایا جاتا ہے جب کہ بسکُٹوں کو مارکیٹ میں لانے کے لیے سائیکل کافی ہوتا ہے۔بسکِٹس بورژوا کلاس کے نمائندے ہونے کی وجہ سے مہنگے ہوتے ہیں لہٰذا عام آدمی اِنہیں منہ نہیں لگا سکتے۔ بسکُٹ پرولتاری ہوتے ہیں اِس لیے اَپَر کلاس والے اِنہیں منہ نہیں لگاسکتے۔
فیض کے بیان کے مطابق اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا، اِن میں سے ایک بڑا غم ہے چائے میں بسکُٹ کا گر جانا۔ اِسی طرح زندگی کے سنسنی خیز لمحات وہ ہیں جن میں چائے سے بسکُٹ نکال کر منہ تک لایا جارہا ہوتاہے۔ یہاں بسکُٹ کی مضبوطی اُس میں اِستعمال کیے گئے میدے، شکَراور دُوسرے اجزاء پر منحصر ہے۔ زندگی کے بڑے مسائل میں سے ایک چائے سے منہ کے سفر کے دوران اگر بسکُٹ کپڑوں پرگر جانا بھی ہے۔ چائے ملے بسکُٹ کا داغ بیگماتی قوانین کی رُو سے قابل بیلن اندازی جرم ہے۔اگر ٹی وی کمرشل کے مطابق آپ بھی مانتے ہیں کہ داغ اچھے ہوتے ہیں، تو پیشانی پر بیلن کے داغ کے بارے میں بھی معلومات حاصل کر لیں، کیونکہ مشہور زمانہ واشنگ پاوڈر صرف کمرشل میں ہی کپڑے کے داغ دھو سکتے ہیں۔ حقیقت میں داغ صاف نہ ہونے کی صورت میں کپڑوں کے بعد بندےکو دھویا جا سکتا ہے۔
بچپن میں ہم نے جٹ بیکری پر بسکُٹ بنتے دیکھے۔ جٹ بیکری والوں کا دعویٰ تھا کہ جس رنگ کے بسکُٹ کھاؤ وہی رنگ واش روم کے پائپ سے گزرتا دیکھو۔ بیکری کے ملازمین صبح سویرے ایک میز سے مکھیاں اور گرد ہٹانے کے لیے کپڑا مارنے کا تکلف کرتے تھے۔ پھررات سے گُندھا ہوا میدہ اُس پر پھیلاتے، مختلف رنگ ملاتے اور بیلنے کے بعد اُس میں سے سانچوں کی مدد سے کچے بسکُٹ اٹھا لیتے۔ اِس دوران پسینہ صاف کر کے ہاتھ دھونے سے بچنے کے لیے بیکری ملازمین اپنی دھوتی سے صاف کر لیتے۔ اِس کی وجہ وہ یہ بتاتے تھے کہ دھوتی تو ہر وقت ہی دھوتی ہوتی ہے۔ حالانکہ مصنوعی رنگ میں لتھڑے ہاتھوں کے نقش و نگار سے وہ دھوتی کی بجائے کسی آرٹسٹ کو کینوس معلوم ہوتی تھی۔
ایک مشہور بیکری میں پاؤں سے آٹا گوندھنے کا عمل ٹی وی پر دکھایا گیا مگر کسی نے کچھ خریدنا بند نہیں کیا ۔
متذکرہ بالا معلومات حاصل کرنے کے لیے ہم نے کئی ہزار بسکِٹس اور بسکُٹوں سے ملاقات کی، آپ یقین کیجئے ہر ایک سے مل کر اتنی خوشی ہوئی کہ مکمل طور پر یہاں بیان کرنا ممکن نہیں، ویسے بھی تحقیق کا پیالہ اور بندے کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا۔ لہٰذا مزید تحقیقات کے لیے کچھ اور مغرور بسکِٹس اور معزز بسکُٹوں سے ملاقات ضروری ہو گئی ہے۔ بیگم صاحبہ چائے اور بسکُٹ لے آئی ہیں۔اجازت دیجئیے!
فیس بک کمینٹ