کل ادبی بیٹھک کےلئے جاتے ہوئے مکمل بھیگ گیا اور پھر فلائی اوور تلے پناہ لی ۔ جو لوگ سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کے خلاف ہیںاور کہتےہیں کہ فلائی اوور بنانا کوئی ضروری تو نہیں ۔۔۔
ان کو سمجھایا اور بتلایا جائے کہ کس قدر ضروری ہیں یہ فلائی اوور ۔۔ تم کار سواروں کو کیا پتا کہ جس فلائی اوو ر کے اوپر سے تم میوزک سنتے ، موٹر سائیکل اور سائیکل سوار بے کاروں پر چھینٹے اڑاتے گزرتے ہو ان کا اس فلائی اوور کے نیچے تم کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ جس چوراہے کے فلائی اوور تلے میں کھڑا تھا وہاں تقریباً سو سے زیادہ موٹر سائیکل ، سائیکل والے کچھ مع فیملیز اور کچھ پیدل لوگ بارش سے محفوظ تھے ۔۔عارضی پناہ گزین تھے ۔
حد ہے کہ اب بھی کچھ لوگ کہتے کہ فلائی اوور ضروری نہیں ۔ پھر بیٹھک والوں کو یقین دلانے کی غرض سے موبائل کو لفافے (یہ پلاسٹک کا لفافہ ہے جسے شاپر کہتے دوسرا لفافہ نہیں) سے نکالا تصویر بنائی اور بتانا چاہا مگر یہ ایک روداد سی بن گئی ہے اور اب اصل مزے کی کہانی تو یہ ہے کہ بارش رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی جس کے سبب اس وقت تذبذب کا شکار رہا کہ آیا بارش تھم جانے کے بعد بیٹھک کو ہی جایا جائے یا واپسی کی راہ لی جائے کیونکہ یہ بھی معلوم نہیں ہے نا کہ وہاں کی کیا صورتحال ہے ۔ بہر حال صورتحال تو ایک طرف یہ بھی ہے کہ سیلاب زدگان مصیبت کے ماروں کےلئے اگر خیموں کی ضرورت پڑی ہے تو خیمہ چار ہزار والا دو دنوں میں دس ہزار کا ہوگیاہے۔
اور خیمے فروخت کرنے والے حصول رزق حلال کے ذریعے عین عبادت کررہے ہیں نہ جانے یہی تاجر ہونگے جو قیامت کے دن صدیقین شہدا اور صالحین کے ساتھ ہونگے یا پھر وہ کوئی اور ہونگے یہ کسی مفتی سے پوچھنا پڑے گا ۔
۔۔۔
اور تحریر کی دم یہ ہے کہ فلائی اوور کا فائدہ بتانے کے چکر میں پلاسٹک کے شاپروں کا مفید استعمال بھی بیان کر گیا ۔ یہی تو ہیں وہ شاپر جو سیوریج لائینوں کو بند کرتے ہیں اور رحمت کی بارش کو بھی زحمت بنا دیتے ہیں ۔
فیس بک کمینٹ