میں نے جب آ ج سے قریباََ دو برس قبل برگیڈئیر صدیق سالک کی کتاب” ہمہ یاراں دوزخ“ کا مطالعہ کیا تو اس قدر گھٹن محسوس ہوئی کہ جیسے مجھے تختہ دار پر لٹکا دیا گیاہواور جیسے مجھے مارا جا رہا ہواور نہ زندہ رکھا جا رہا ہو۔اس احساس کی اصل وجہ شاید آپ حب الوطنی کہہ سکتے ہیں کہ میرے لیے پاکستانی افواج کے ہتھیار ڈالنے اور سقوطِ مشرقی پاکستان دونوں کا دکھ ناقابلِ برداشت تھا۔ صدیق سالک کی اس کتاب کے مطالعے کے بعد میں نے ان کی دیگر کتب کے مطالعہ کے اشتیاق میں اُن کے ناول ”پریشر ککر “ کا مطالعہ کیا ۔جس میں مجھے اُن کے ناول کا وہ موڑ بہت پسند آیا جہاں پر ناول کے مرکزی کردار فطرت کو اپنے کالج کے پروفیسر سعید کے توسط سے ایک اشتہاری ایجنسی میں نوکری مل جاتی ہے۔مختصر یہ کہ رسمی تعارف کے بعد فطرت کو اُس کا دفتر دکھا دیا جاتاہے اور اس کو اس کا کام بھی سمجھا دیاجاتاہے۔ وہ ایک آرٹسٹ تھا یعنی مصور تھا۔لاہور فائن آرٹس کالج کا فارغ التحصیل اور اسی سلسلے میں امریکہ کا دورہ بھی کر چکا تھا۔ سائیڈروم میں شہناز اور لودھی بیٹھتے تھے اور اپنے کام میں محو رہتے تھے ۔وہ بھی ان دونوں کے ساتھ دفتری کام کے لحاظ سے گھل مل چکاتھا اور اس طرح وہ ایک ٹیم بن گئے تھے ۔اس کے بعد ناول میں کیا ہوتاہے خود ملاحظہ فرمائیے۔
ََ”اگرچہ فوٹو سیکشن براہِ راست فطرت کے ماتحت نہ تھالیکن کام کاج کی ریت یہ تھی کہ آرٹ سیکشن سے جس قسم کی تصویر کی مانگ آتی اسے فوٹو سیکشن پورا کر دیتا۔ ایک دن فطرت اپنے دفترسے نکل کر سٹو ڈیو چلا گیاجہاں ایک ٹائلٹ سوپ کے اشتہار کے لیے تصویر کھینچی جا رہی تھی۔لودھی اور شہناز بھی سٹوڈیو میں موجود تھے ،ماڈل لڑکی چہرے پر مسکراہٹ طاری کر کے تصویر کھنچوانے کے لئے تیار بیٹھی تھی اور فوٹوگرافر ”ریڈی مس“ کہنے ہی والا تھاکہ فطرت نے ایک منٹ رک جانے کو کہا۔
سارا کام روک دیا گیا
فطرت نے کہا” آپ لوگ دیکھتے نہیں کہ ماڈل کے پاﺅں کا سینڈل پرانا ہے“
فوٹو گراافر،لودھی اور شہناز سمجھے کہ فطر ت بالکل نیا اور اناڑی ہے،انہوں نے تقریباََ یک زبان ہو کر کہا
” سر، تصویر تو صرف چہرے کی اتاری جا رہی ہے ،تصویر میں سینڈل نظر نہیں آئیں گے“
” وہ ٹھیک ہے لیکن میرا مشورہ بھی آزما لو،بہتر تصویر آئے گی“
”جی ، وہ کیا“
” میں نے کسی کتاب میں پڑھا تھا ،آج آزما کر دیکھ لیتے ہیں ،شہناز اگرزحمت نہ ہو تو ایک منٹ کے لیے اپنا نیا سینڈ ل ماڈل کو پہنایئے“
شہناز نے غیر یقینی سی حالت میں فطرت کی طرف دیکھا اور بادل نخواستہ اپناسینڈل اُتارکر ماڈل کو پہنا دیا۔
جب ماڈل لڑکی نے نیا سینڈل پہنا تو اس کاچہرہ کھل اٹھا ،فطرت نے اپنے ساتھیوں سے کہا:
”کچھ فرق محسوس کیا“
”جی ہاں، ماڈل کا سارا تاثر (ایکسپریشن ) ہی بدل گیا ہے۔حالانکہ بظاہر پاﺅں کے سینڈل کا چہرے کے تاثرات کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا“
”میں آپ کو یہی بتانا چاہتا تھاکہ چہرے کاتاثر صرف چہرے کاتاثر نہیں ہوتا،یہ پوری شخصیت کا ایکسپریشن ہوتا ہے۔اب، تصویر لیجیے آپ خود فرق محسوس کریں گے“
واقعی تصویر پہلے سے بدرجہا بہتر اتری “
اس واقعے سے وہاں کا سارا عملہ فطرت کی ذہانت اور فنکاری کا قائل ہوگیا۔
اس حوالے کا مقصدیہ ہے کہ جس طرح چہرے کا تاثر صرف چہرے کا تاثر نہیں ہوتا بلکہ یہ پوری شخصیت کا تاثر ہوتا ہے اسی طرح میں یہ کہنا چاہوں گا کہ کسی معلم یا استاد کا تاثر صرف معلم یا استاد کا تاثر نہیں ہوتا بلکہ نسلِ نو یا آئندہ قوم کا تاثر ہوتا ہے۔ کسی بھی قوم کے اساتذہ کو دیکھ کر اس قوم کے مستقبل یا نسلِ نو کے بارے میں پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔ تاریخ گواہ کہ جب بھی اس تاثر میں بھگاڑ پیدا ہوا توپھر مشرقی پاکستان (صوبہ بنگال ) ایک الگ وطن کے طور پر بنگلہ دیش کے نام سے ابھر ااور اس تاثر نے دنیا کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا۔مگر ہماری قوم کی اس معاملے میں بے حسی اور غفلت اتنے بڑے صدمے کے بعد بھی نہیں بدلی اور ہم نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا۔ آج ٹی وی پر ایسی خبر دیکھی کہ دل دھک سے رہ گیا۔افسوس ،بدتہذیبی اور نا اہلی کا ڈنڈھورا پیٹنے کے سوا کچھ بھی نہ کر پایا۔میڈیا دکھا رہا تھا کہ اساتذہ کرام اپنی نوکریوں کے مستقل کرنے کے لیے احتجاج کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ انہیں کافی عرصے سے تنخواہیں نہیں دی جا رہی ہیں ۔بجائے اس کہ کراچی اور سندھ حکومت ان کے مطالبات سنیں اور مسائل کا حل نکالیں انہوں نے پولیس کو حکم دے کر اساتذہ اکرام پر لاٹھی چارج کروا دیا۔جس کے نتیجے میں چند عمر رسیدہ اساتذہ کے سر بھی پھٹ گئے اور خون بھی بہا۔پولیس کا تشدد شرمناک تھا ۔میڈیا پر صحافی کو ایک استاد اپنی سفید داڑھی کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہہ رہا تھا کہ پولیس والے ہماری سفید داڑھی کا بھی حیا نہیں کرر ہے۔مجھے اس بزرگ معلم کی گریہ اور آہ و زاری کا بہت دکھ ہوا۔ ٹی وی پرسب کچھ لائیو نشر ہو رہا تھا کسی استاد کو ڈنڈے مارے جارہے تھے ،کسی کوپولیس وین میں بٹھایا جا رہا تھا، کسی کو تھپڑمارے جا رہے تھے۔۔۔۔ اور وہی بزرگ استاد یہ بھی کہہ رہا تھا کہ ہم نے ہی ان کو پڑھایا ہے اور صلے میں ہمیں یہ سزا مل رہی ہے۔اس سارے کا ردِعمل بلاول بھٹو زرداری کا محض ایک ٹویٹ اور محکمہءتعلیم کے کسی افسر کا محض اتنا ساجواب کہ احتجاج کرنے والے لوگ غلط طریقے سے نوکریوں پر لگے تھے اسی لیے انہیں تنخواہیں نہیں دی جا رہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا انہوں نے برس دو برس نہیں پڑھایا؟ نوکریاں بھی توآپ ہی کے لوگوں نے دی تھیں ؟مستقل کرنا کیا آپ کا فرض ہے یا نہیں ؟اگر وہ مظاہرین غلط ہیں تو اس کا امن وامان سے حل نکالا جائے۔آج تک مسئلے کا کوئی حل نہیں نکالا گیا۔ویسے عدالت کو بھی چا ہئے تھا کہ از خو د ہی نوٹس لیتی ۔ اگر ہمیں ترقی کرنی ہے تو اساتذہ کے تاثر کو بہتر رکھنا ہو گا۔
فیس بک کمینٹ