ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ملک میں غیرقانونی طور سے رہنے والے غیر ملکی یکم نومبر تک ملک چھوڑ دیں ورنہ ریاستی ادارے انہیں ملک سے باہر نکال دیں گے۔ کمیٹی کا اجلاس نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی سربراہی میں منعقد ہؤا۔ اس میں وفاقی وزرا کے علاوہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر ، صوبائی وزرائے اعلیٰ ، تمام سول و عسکری اداروں کے سربراہان نے شرکت کی۔ ایپکس کمیٹی نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کا حتمی فیصلہ کیا۔
اطلاعات کے مطابق پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ ایک پاکستانی شہری کی جان و مال اور فلاح و بہبود کسی بھی دوسرے ملک اور کسی بھی دنیاوی مفاد سے مقدم ہے۔ پاکستان کے پاس صرف ایک ہی آپشن ہے کہ ہمیں اٹھنا ہوگا اور ان درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ ریاست کی رٹ قائم کرنے کےلیے کسی بھی حد تک جائیں گے‘۔ ایپکس کمیٹی نے ملک میں غیر قانونی طور سے مقیم غیر ملکیوں کو نکالنے کا فیصلہ حال ہی میں یکے بعد دیگرے دہشت گرد حملوں کے تناظر میں کیا ہے۔ اس فیصلہ سے زیادہ تر افغان شہری متاثر ہوں گے۔ پاکستانی حکومت کابل سے اس بارے میں مؤثر اقدامات کا مطالبہ کرتی رہی ہے لیکن سرحد پار سے حملے جاری رہے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ سال رواں کے دوران پاکستان میں ہونے والے 24 خود کش حملوں میں سے 14 میں افغان شہری ملوث تھے۔
ایپکس کمیٹی کے فیصلہ کے مطابق جن افغان شہریوں کو ملک چھوڑنے کی وارننگ دی گئی ہے ان کی تعداد 17 لاکھ 30 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ان کے علاوہ قانونی طور سے پناہ گزینوں کے طور پر پاکستان میں رہنے والے افغان شہریوں کی تعداد تیس لاکھ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ حکومتی فیصلہ کے مطابق نہ صرف غیر قانونی طور سے ملک میں رہنے والے تمام غیر ملکیوں کو ڈی پورٹ کیا جائے گا بلکہ ان کے کاروبار اور املاک کو بھی بحق سرکار ضبط کرلیا جائے گا۔ ایپکس کمیٹی نے واضح کیا ہے کہ غیر قانونی غیرملکیوں کی مدد میں ملوث پاکستانی شہریوں کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی ہو گی۔
نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے ملک میں جیسے شناختی کارڈ کا اجرا ہوتا رہا ہے، اس میں بہت زیادہ بے ضابطگیاں تھیں ۔ غیرقانونی طریقے سے بہت سے جعلی شناختی کارڈ بنائے گئے ہیں اور ان شناختی کارڈ پر سفری دستاویزات اور پاسپورٹ بنائے گئے ہیں‘۔ حکومت اب ان بے قاعدگیوں کا خاتمہ کرکے غیر قانونی طور سے مقیم غیرملکیوں کو ملک بدر کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے۔ وزیر داخلہ کے مطابق اس مقصد کے لیے وزارت داخلہ میں ایک ٹاسک فورس بنا دی گئی ہے جس کے تحت پاکستان میں غیرقانونی طریقے سے آکر رہنے یا کاروبار کرنے والے افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
پاکستانی شہریوں کی حفاظت اور ملک سے دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے بیرونی ممالک سے آنے والے افراد کا کنٹرول کرنا ایک مستحسن اقدام ہوسکتا ہے۔ لیکن آج ایپکس کمیٹی میں جو فیصلہ کیا ہے، اس کے حوالے سے متعدد الجھنیں سامنے آسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی آمد کا سلسلہ گزشتہ چار دہائیوں پر پھیلا ہؤا ہے۔ اس دوران متعدد بے قاعدگیاں بھی دیکھنے میں آئی ہیں اور حکومت پاکستان نے مختلف اوقات میں ان پناہ گزینوں کو اپنے ’وسیع تر قومی مفاد‘ کے لیے استعمال بھی کیا ہے۔ اب یک بیک بیس لاکھ کے لگ بھگ لوگوں کو ملک بدر کرنے کی وارننگ پر عمل درآمد اتنا سہل نہیں ہوگا جس آسانی سے وزیر داخلہ یا ایپکس کمیٹی کے اعلامیہ میں اس کا اظہار کردیا گیا ہے۔
اس حوالے سے سب سے اہم بات اس وقت ملکی حالات اور نگران حکومت کے مینڈیٹ کے حوالے سے ہے۔ اصولی طور سے ایپکس کمیٹی ایک سول ادارہ ہے جس میں وزیر اعظم، متعلقہ وفاقی وزرا ، صوبائی وزرائے اعلیٰ اور سول اداروں کے سربراہان شامل ہوتے ہیں۔ اس میں مسلح افواج کے سربراہان اور عسکری اداروں کے نمائیندوں کو شامل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ قومی سلامتی کے بارے میں کیے جانے والے فیصلوں پر عمل درآمد میں تعاون کریں گے ۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ جب سب سول و عسکری ادارے اور لیڈر مل کر کوئی فیصلہ کریں گے تو اس پر مستعدی سے عمل درآمد ہوسکے گا۔ البتہ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ اس وقت ملک میں نگران حکومتیں کام کررہی ہیں جن کا بنیادی فریضہ انتخابات کا انعقاد ہے۔ البتہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ نگران حکومتیں انتخابات کے علاوہ ہر معاملہ میں مستعدی اور پھرتی کا مظاہرہ کررہی ہیں۔
وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ اور ان کی کابینہ میں شامل ارکان میڈیا میں نمودار ہونے اور ہر اہم مسئلہ پر بات کرنے کے حد سے زیادہ شوقین ہیں لیکن جب بھی ان سے انتخابات کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے ، وہ یک بیک بے بس دکھائی دینے لگتے ہیں اور الیکشن کمیشن کی طرف اشارہ کرنے لگتے ہیں۔ اب الیکشن کمیشن سرکاری طور سے جنوری کے آخر میں انتخابات ے انعقاد کا عندیہ دے چکا ہے ۔ نگران حکومتوں کو اس وقت ملک میں انتخابات منعقد کرنے کے انتظامات پر پوری توجہ مبذول کرنی چاہئے لیکن اس کی بجائے وفاقی نگران حکومت ایسے اہم فیصلے کررہی ہے جن پر عمل درآمد کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی اور طویل مدت درکار ہوگی۔ ان میں قومی اداروں کو نجی تحویل میں دینے کے فیصلوں سے لے کر اسمگلنگ کی مکمل روک تھا، اس کام میں ملوث فوجی اہلکاروں کے احتساب کا اعلان کرنے کے بعد اب بیس لاکھ کے لگ بھگ غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ اس فیصلہ پر آسانی سے عمل درآمد ممکن نہیں ہوگا۔ جو مسئلہ سال ہا سال کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے وجود میں آیا ہے اسے محض ایک اعلان اور ایک نوٹس سے ختم کرنا سہل نہیں ہوسکتا۔
کثیر تعداد میں افغان شہریوں کی ملک بدری ایک اہم قومی معاملہ ہے۔ اس بارے میں اپیکس کمیٹی کے پلیٹ فارم پر کوئی نگران حکومت فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہوسکتی۔ اس فیصلہ سے ملک کی خارجہ و سکیورٹی پالیسی متاثر ہوگی اور ہمسایہ ملک سے تصادم کی غیر معمولی صورت حال کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے بہتر ہوتا کہ نگران حکومت اور عسکری قیادت اس عبوری دور میں کوئی دوررس اور اہم فیصلے کرنے اور ان کا بوجھ اٹھانے کا تردد نہ کریں بلکہ ملک میں منتخب حکومت کے قیام پر توجہ دیں۔ اور نئی منتخب حکومت اپنی پہلی فرصت میں اہم قومی مسائل پر غور و خوض کے بعد مناسب فیصلے کرسکتی ہے۔ اس حکومت کو پارلیمنٹ کی حمایت حاصل ہوگی جو عوام کا منتخب ادارہ ہوتاہے۔ اس طرح یہ اجتماعی دانش کا مرکز بھی سمجھا جاتاہے۔ ملک میں غیرقانونی طور سے مقیم لوگوں کے خلاف کسی ڈرامائی کارروائی سے پہلے ضروری ہوتا کہ پارلیمنٹ میں اس دوررس پالیسی کے خد و خال اور حسن و قبح پر بحث کرلی جاتی۔
یہ اصول تو اپنی جگہ اہم ہے کہ کسی کو ملک میں غیر قانونی طور سے داخل ہونے کی اجازت نہ دی جائے اور مناسب دستاویزات کے بغیر کوئی شہری پاکستان میں قیام نہ کرسکے۔ البتہ موجودہ صورت حال پاکستان میں یکے بعد دیگرے قائم ہونے والی متعدد حکومتوں کے ادوار میں تیار کی گئی پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ اسے ایپکس کمیٹی کے ایک فیصلہ سے تبدیل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ ناکامی کی صورت میں ملک کے اعلیٰ ترین فیصلہ ساز ادارے کی ساکھ اور اتھارٹی متاثر ہوگی۔
اس کے علاوہ اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ یہ فیصلہ اس الزام کے بعد کیا گیا ہے کہ افغان شہری دہشت گردی کے متعدد واقعات میں ملوث پائے گئے ہیں۔ یہ بات سچ ہونے کے باوجود یہ نوٹ کرنا بھی ضروری ہے کہ سال رواں کے دوران 14 خود کش حملوں میں افغان شہری ملوث پائے گئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر دھماکے کرنے والے خود کش بمبار افراد کے علاوہ ان کے سہولت کاروں کا اندازہ بھی کیا جائے تو یہ تعداد چند درجن یا چند سو افراد سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ سہولت کاروں اور منصوبہ سازوں کی اکثریت افغانستان یا کسی دوسرے ملک میں بیٹھ کر ان کارروائیوں میں ملوث رہی ہو۔ ایسی صورت میں کیاان 17 لاکھ 30ہزار افغان باشندوں کو جو کسی نہ کسی مجبوری کی وجہ سے اپنا وطن چھوڑ کر دربدر ہوئے ہیں، اجتماعی سزا دینا کسی بھی اخلاقی اصول کے تحت جائز طریقہ ہوسکتا ہے؟
خاص طور سے جب یہ بھی واضح ہو ان لوگوں کو پاکستان آنے اور طویل عرصہ تک ملک میں رہنے کی سہولت پاکستانی حکومتوں کی غلط پالیسیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی۔ افغان شہریوں کے بارے میں اختیار کی گئی بیشتر پالیسیوں میں پاک فوج اور ایجنسیوں کی حکمت عملی اور طریقہ کار کو عمل دخل رہا ہے۔ اب ان تمام پہلوؤں پر نظر ثانی کرنے اور کثیر تعداد میں افغان باشندوں کو واپس بھیجنے سے مسائل حل ہونے کی بجائے ، ان میں الجھنیں پیدا ہوسکتی ہیں۔ ان افغان شہریوں کی بڑی تعداد شاید پاکستان ہی میں پیدا ہوئی ہو یا بچپن میں اپنے والدین کے ترک وطن کی وجہ سے یہاں آکر آباد ہوگئی ہو۔ ان لوگوں کے لیے تو افغان معاشرہ اتنا ہی اجنبی اور انجان ہوگا جتنا کسی بھی غیر ملکی کے لیے ہوسکتا ہے۔
پاکستانی حکومت ضرور کابل میں طالبان حکومت کے غلط طریقوں کے خلاف سخت پالیسی اختیار کرنے کا اقدام کرے لیکن ایسا کرتے ہوئے اسے افغانستان کے معصوم شہریوں کو سزا دینے سے گریز کرنا چاہئے۔ اس قسم کا پالیسی فیصلہ گہرے سوچ بچار اور غور و فکر کا تقاضہ کرتا ہے۔ ایپکس کمیٹی کا موجودہ فیصلہ اضطراری نوعیت کا ہے جس میں تمام پہلوؤں کا جائزہ نہیں لیا جاسکا۔ نگران حکومت کو اس حوالے سے اپنے مینڈیٹ کے اندر رہتے ہوئے اقدام کرنا چاہئے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ