وزیر اعظم مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بعض دیگر حکومتی اہلکاروں کے ساتھ اس وقت امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں افغانستان کے معاملہ پر پاکستان کا سرکاری مؤقف واضح کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ معیدیوسف نے امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان سے بھی ملاقات کی ہے جو گزشتہ چند ماہ کے دوران ان دونوں عہدیداروں کے درمیان ہونے والی دوسری ملاقات ہے۔
معید یوسف نے امریکی ہم منصب جیک سلیوان سے ملاقات کے بعد ایک ٹوئٹ میں کہا ہے ’ واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والی ملاقات دراصل حال ہی میں جنیوا میں ہونے والی ملاقات کا تسلسل ہے۔اس دوران دوطرفہ تعلقات سمیت خطے اور عالمی معاملات سے متعلق باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت ہوئی۔ جیک سلیوان سے ملاقات میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان باہمی تعاون کو برقرار رکھنے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے‘۔ تاہم امریکی صدر کے مشیر برائے قومی سلامتی جیک سلیوان نے اس ملاقات کے بارے میں ٹوئٹ پر جو بیان جاری کیا ہے اس میں افغان تنازعہ کا خاص طور سے ذکر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ ہم نے افغانستان میں جاری تشدد میں فوری کمی کی ضرورت اور تنازع کے سیاسی حل کے لیے مذاکرات پر تبادلہ خیال کیا ۔ پاکستانی ہم منصب سے ملاقات میں خطے کے روابط اور سیکیورٹی امور پر بات چیت ہوئی ہے‘۔
اس دوران امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے مشرق وسطیٰ اور بھارت کے دورہ کے دوران دیے گئے انٹرویوز میں واضح کیا ہے کہ پاکستان کو طالبان پر اثر و رسوخ حاصل ہے اور اسے افغانستان میں پر امن تصفیہ کے لئے اپنا اہم کردار ادا کرنا چاہئے۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ پاکستان یہ کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے افغانستان میں مختلف علاقوں پر طالبان کے قبضہ کے بعد بعض پر تشدد کارروائیوں کے بارے میں شدید تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ’ پوری دنیا افغانستان میں مظالم کی پریشان کن خبریں سن رہی ہے اور ایسی اطلاعات یقینی طور پر پورے ملک کے لیے طالبان کے ارادوں کی کوئی اچھی تصویر سامنے نہیں لاتیں۔ ایسا افغانستان جو گزشتہ 20 سالوں کے بنیادی فوائد کا احترام نہیں کرے گا، وہ بین الاقوامی برادری میں اکیلا ہوجائے گا‘۔ ان انٹرویوز میں انٹونی بلنکن نے کابل پر قبضہ کے بارے میں طالبان کے ارادوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی کردار کی اہمیت پر زور دیا۔امریکی دارالحکومت میں پاکستانی سیکورٹی کے اہم عہدیداروں کی موجودگی اور ملاقاتیں پاکستان کے لئے امریکہ سے تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں ۔ پاکستانی عہدیدار کسی بھی طرح امریکی حکام کو اپنے مؤقف سے آگاہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ البتہ معید یوسف نے امریکی ہم منصب سے ملاقات کی تصدیق کے لئے جاری ہونے والےٹوئٹ بیان میں افغانستان کا براہ راست ذکر کرنے سے گریز کیا۔ جبکہ جیک سلیوان کی ٹوئٹ میں خاص طور سے اس نکتہ پر اصرار کیا گیا ہے کہ اس ملاقات میں افغانستان میں تشدد کی روک تھام اور بین الافغان مذاکرات کے حوالے سے بات چیت کی گئی ہے۔ یہ مختلف طریقہ کا ر درحقیقت دونوں حکومتوں کے درمیان اس معاملہ پر پائے جانے والے اختلاف، تضاد، عدم اتفاق یا دوری کو ظاہر کرتا ہے۔ اگرچہ دونوں میں سے کوئی بھی ملک فی الوقت دو ٹوک الفاظ میں اس اختلاف کا اظہار نہیں کرنا چاہتا۔اس دوران پاکستانی کردار کے بارے میں انٹونی بلنکن کا دو ٹوک بیان اور یہ توقع کہ پاکستان طالبان کو کابل پر قبضہ کرنے سے باز رکھے گا ، تشدد سے گریز کا مشورہ دے گا اور اسے بات چیت کے ذریعے کسی پرامن تصفیہ تک پہنچنے پر آمادہ کرے گا ۔۔۔ بھی دونوں ملکوں کے اختلاف کو واضح کرتا ہے۔ حالانکہ پاکستان اور امریکہ دونوں ہی تواتر سے اس مشترکہ خواہش کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں حکومتی انتظام کے لئے مختلف گروہ کسی پر امن معاہدے پر متفق ہوجائیں گے اور ملک کو کسی بڑے تشدد اور خانہ جنگی سے بچایا جاسکے گا۔ امریکہ میں ہونے والی ملاقاتوں اور امریکی وزیر خارجہ کے انٹرویو کی روشنی میں یہ سمجھنا دشوار نہیں ہے کہ امریکہ اس حوالے سے پاکستان سے تعاون چاہتا ہے اور اسے اس معاملہ میں ذمہ دار بھی سمجھتا ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز افغان میڈیا کے نمائیندوں سے بات چیت کرتے ہوئے ایک بار پھر دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ’پاکستان نہ تو طالبان کے اقدمات کا ذمہ دار ہے اور نہ ہی ان کی حکومت طالبان کی ترجمان ہے‘۔
اس صورت حال سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ افغانستان میں کردار کے حوالے سے اختلاف رائے کے باوجود پاکستان بدستور افغانستان ہی کو اپنی خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ سمجھتا ہے اور اسے خوب اندازہ ہے کہ افغانستان میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات پاکستان کے مستقبل پر اثر انداز ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی غلطیوں کی نشاندہی کے باوجود امریکہ کے ساتھ مواصلت و مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان کو یہ بھی احساس ہے کہ اس وقت امریکہ اور اس کے حلیف ممالک میں پاکستان کو افغانستان میں اپنے کردار ہی کی وجہ سے سفارتی اہمیت و وقعت حاصل ہے۔ اس کے اظہار میں بخل سے کام بھی نہیں لیا جاتا۔ وزیر اعظم ، وزیر خارجہ اورقومی سلامتی کے مشیر سب ہی یہ کریڈٹ لیتے ہیں کہ طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات اور امن معاہدہ پر پاکستان نے آمادہ کیا تھا۔ پاکستان کی سہولت کاری کے بغیر یہ کام ممکن نہیں تھا۔ امریکہ بھی اس کردار کو اہم سمجھتا ہے اور مختلف مواقع پر اس کااظہار بھی کیا جاچکا ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ پاکستان اب اسی کردار سے گریز کا راستہ تلاش کررہا ہے جس کی بنیاد پر وہ خود کو دنیا کے سامنے سرخرو بھی کرتا ہے۔
یہ سوچنا اہم ہے کہ اس پس منظر میں وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے پاکستان اور امریکہ افغانستان کے عملی حل کے حوالے سے فاصلے پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ امریکہ کی پوزیشن اس حد تک تو واضح ہے کہ وہ افغانستان میں کوئی ایسا سیاسی انتظام چاہتا ہے جس میں بھلے طالبان کو اقتدار میں مناسب حصہ حاصل ہو لیکن کسی حد تک انسانی حقوق اور خواتین کے سماجی و سیاسی کردار کے بارے میں ضمانت فراہم کی جائے۔ اس کے علاوہ وہ کسی صورت یہ برداشت نہیں کرے گا کہ افغان سرزمین کو ایک بار پھر ایسے گروہوں کی آماجگاہ بنایا دیا جائے جہاں سے وہ امریکہ یا اس کے دوست ملکوں پر حملوں میں ملوث ہوں۔ امریکی وزیر خارجہ کے دورہ بھارت کے دوران اسی تشویش پر بات چیت کی گئی ہے۔ حالانکہ بھارت نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران افغانستان میں پاکستان دشمن عناصر کو آلہ کار بنا کر پاکستان میں انتشار و بدامنی میں کردار ادا کیا ہے۔ یہ بھی واضح ہورہا ہے کہ طالبان اگرچہ سیاسی اقتدار ملنے کے بعد القاعدہ اور مشرقی ترکستان اسلامی تحریک جیسے گروہوں سے قطع تعلق کرنے کا اشارہ دے رہے ہیں لیکن ممکنہ عسکری تصادم کے اندیشے کی بنا پر وہ فی الوقت ان روابط کو مکمل طور سے ختم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ یہی رویہ واشنگٹن کی تشویش میں اضافہ کرتا ہے۔
اس کے برعکس پاکستان کی افغان پالیسی کو ایک طرف عالمی سفارتی قبولیت کے لئے استعمال کیا جارہا ہے لیکن دوسری طرف اس کی خارجہ و سیکورٹی حکمت عملی افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ کے گرد گھومتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے پارلیمنٹ میں خطاب کے علاوہ متعدد انٹرویوز میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ بھارت سے تحفظ کے لئے 90 کی دہائی میں ضرور ’تزویراتی گہرائی‘ کی پالیسی اختیار کی گئی تھی لیکن اب اسے ترک کیا جاچکا ہے۔ تزویراتی گہرائی نامی اصطلاح کی کبھی تشریح نہیں کی گئی کیوں کہ اسے رد کرنے کا اعلان کرنے سے پہلے پاکستان نے کبھی یہ قبول نہیں کیا کہ اس قسم کی کسی پالیسی پر عمل درآمد ہورہا ہے۔ البتہ اس سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی یہ خواہش رہی ہےکہ افغانستان میں کوئی ایسی حکومت قائم ہو جو اسلام آباد نواز ہو اور بھارتی اثر و رسوخ کو افغان سرزمین اور حکومتی پالیسیوں سے زائل کرے۔ طالبان پاکستان کا یہ مقصد پورا کرنے کا باعث بنے تھے۔ سوال یہ ہے کہ تزویراتی گہرائی نامی پالیسی کو سرکاری طور سے ترک کرنے کے بعد کیا پاکستان اس خواہش سے بھی دست بردار ہوگیا ہے کہ بھارت کو افغانستان میں رسوخ اور سیاسی سہولت حاصل نہ ہو جسے وہ اپنے معاشی مفاد کے لئے استعمال کرسکے؟ اس کا جواب تلاش کرنا مشکل ہے لیکن اسی جواب سے افغانستان کے بارے میں پاکستان کی تشویش کی اصل وجہ کا سراغ لگایا جاسکتا ہے۔
بظاہر امریکہ پاکستان کو ایسی ضمانت دینے پر تیار نہیں ہے یا وہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ مابعد جنگ کے افغانستان میں بھارت کو سفارتی رسوخ حاصل نہیں ہوگا بلکہ نئی دہلی کے حالیہ دورہ کے دوران امریکی وزیر خارجہ نے بھارتی حکام کو یقین دلایا ہے کہ امریکہ کابل میں بھارتی مفادات کا محافظ ہوگا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی قسم کی مفاہمت ہی اس مشکل مسئلہ کا حل ہوسکتا ہے لیکن امریکہ اس حوالے سے بھی کوئی کردار ادا کرنے سے گریز کررہا ہے۔ اسی لئے اسلام آباد کے ساتھ واشنگٹن کی دوری میں اضافہ ہورہا ہے۔ کیا اس تعطل میں طالبان پاکستان کی امیدوں کا محور ہیں۔ پاکستانی لیڈروں کی غیر واضح باتوں سے یہ اندازہ قائم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ایک مبہم قیاس کی بنیاد پر امریکہ سے ٹکراؤ کی طرف لے جانے والی پالیسی پاکستان کو مہنگی پڑ سکتی ہے۔اس وقت یہ بھی واضح نہیں ہے کہ طالبان کیسے اور کیوں کر افغانستان میں کوئی ایسی حکومت قائم کرسکتے ہیں جو ایک طرف اپنے مفادات کا تحفظ کرے اور دوسری طرف پاکستانی توقعات پر پوری اتر سکے۔ اس غیر یقینی صورت حال میں پاکستان کو عملی طور سے بھی وہی کرنا چاہئے جس کا وہ اعلان کررہا ہے۔ یعنی ہمارا افغانستان میں کوئی ’فیورٹ‘ نہیں ہے۔ اگرچہ امریکہ سمیت باقی ماندہ دنیا ابھی تک اس پاکستانی مؤقف کو درست تسلیم نہیں کرتی۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )