ماضی کی فلموں میں کمبھ میلہ اور اسی طرزکے کچھ میلوں ٹھیلوں کے مناطرعموماً دکھائی
دیتے یہ میلے بھی عجیب ہوتے تھےپہلے تو انہی میلوں ٹھیلوں کی وجہ سے کچھ لوگ بچھڑتے ہیں اور پھربہت سے مصائب اور مشکلات جھیلنے کے باعث میلوں میں ہی بچھڑے ہوؤں کا ملاپ ہو جاتا ۔ گزشتہ اتوار کو افطار ڈنر کے موقع پر کچھ اسی قسم کے مناظر دیکھنے کو ملے۔ کمبھ میلہ برصغیر کا سب سے مشہور میلہ ہے۔ یہ میلہ الہ آباد کے مقام پر لگتا ہے اس میں جانے والے گنگا دریا میں اشنان کر کے اپنے گناہ دھو ڈالتے ہیں۔دیکھا جائے تو ہمارے ہاں بھی گزشتہ چالیس برسوں سے کمبھ کا سیاسی پلس کرپشن میلہ ہی لگا ہوا ہے۔ کم وبیش ہر پانچ سال کے بعد انتخابات کا دریا بہتا ہے ایک پارٹی کرپشن کے الزامات کے باوجود اس دریا سے نہا کر پاک پوتر ہو کر نکلتی ہے گزشتہ انتخابات سے قبل دو پارٹی سسٹم تھا ایک پر کرپشن کا داغ لگتا تو دوسرا انتخابات میں پاک پوتر ہو کر نکل جاتا اسی طرح دونوں کی باریاں اور اقتدار سے یاریاں لگی ہوئی تھیں۔پھر کیا ہواکہ ان دونوں کی کرپشن کو نمایاں کرنے کے لیے عمران میدان میں کود پڑا۔ گزشتہ انتخابات میں پی پی پی اور ن لیگ نے ایک دوسرے کے وہ لتے لیے کہ خدا کی پناہ دونوں نے انتخابی میلے میں کرپشن کے راگ الاپ الاپ کر کرپشن کا کمبھ میلہ ہی سجا دیا تھا دونوں پارٹیاں ایک دوسرے پر الزامات لگا لگا کر خود کو پاک صاف ثابت کرتی رہیں۔ انتخابات میں ایک طرف بلاول اُونچے سروں میں راگ درباری گا رہا تھا تو دوسری طرف مریم نواز دیپک راگ الاپ کر آگ لگا رہی تھیں جبکہ اس بار عوام ان کی باتوں میں نہیں آئے۔ دونوں کی آپسی سر پھٹول میں عمران بازی لے گیا اور دونوں پارٹیاں ہاتھ ملتی رہ گئیں اور اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ عمران حکومت کے نو ماہ میں دونوں کو سمجھ آ گئی کہ ان کی گیم اُلٹی ہو گئی ہے اور اب بھی کچھ نہ کیا تو گیم بالکل ہی چینج ہو جائے گی۔ ایک طرف مریم کے ابا جان سلاخوں کے پیچھے تو دوسری طرف بلاول کے بابا جانی سلاخوں کے پار جانے کو تیار۔ ایک تو یہ کہ دونوں پارٹیاں اقتدار سے باہرا ور دوسرا یہ کہ دونوں کے ابا جان مصائب میں مزید گھرتے ہی چلے جارہے ہیں۔آنے والا وقت پہلے سے بُرا دکھائی دے رہاہے۔اس پر دونوں سیاسی جانشینوں نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ دونوں ہم فغاں ہوں اور یہ کہتے پھریں
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
ایسے میں دونوں سیاسی گدی نشینوں نے ہاتھ ملانے کا عندیہ ظاہر کیا اور گزشتہ اتوار کو افطار کے موقع پردیگر ہم خیال رہنماؤں کے ہمراہ مل بیٹھے۔ اپوزیشن کو اکٹھا کرنے اورحکومت مخالف تحریک چلانے کا ڈول ڈالا۔پنجابی میں کہتے ہیں ”روندی یاراں نوں، ناں لے لے کے بھراواں
فیس بک کمینٹ