جیسے جیسے شام گہری ہو رہی تھی اس کی اداسی بھی بڑھتی جا رہی تھی۔اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے پھر اچانک جیسے کچھ سوچ آئی ہو وہ اٹھی اور تیز تیز قدموں کے ساتھ بے ربط چلنے لگی ۔چلتے ہوئے وہ مسلسل سوچ بھی رہی تھی کی آخر کب تک ایسے چلتی رہے گی اس کی منزل کہاں ہے کس جگہ وہ رکے گی۔۔مگر اسے یاد آیا اس کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا جہاں جا کر وہ سکون کی نیند سو جاتی۔وہ صبح سے ایسے ہی بس چل رہی تھی۔شام کا اندھیرا جیسے گہرا ہو رہا تھا اس کی پریشانی بھی ویسے ہی بڑھتی جا رہی تھی۔اس نے جذبات میں آکر یا حالات سے گھبرا کر گھر تو چھوڑ دیان مگر اب اسے رہنے کے لیے مناسب جگہ نہیں مل رہی تھی اور اس کے اردگرد سوالیہ نگاہیں اس کے حوصلے مزید پست کر رہی تھیں وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پا رہی تھی وہ ایسی جگہ جانا چاہتی تھی جہاں کوئی بشر اسے نظر نہ آئے سوائے اس کے کہ اسے اپنی ماں کا چہرہ نظر آجائے ۔
ایسے ہی چلتے ہوئے وہ دور کسی ویرانے میں آ گئی ہر طرف اندھیرا تھا بہت دور سے کسی جانور کی آواز سنائی دے رہی تھی وہ ایک دم خوفزدہ ہوئی پیچھے قدم پلٹنے لگی کہ مشرق کی طرف سے ہلکی سے روشنی نظر آئی ۔وہ روشنی اس کے لیے ایک امید کی کرن تھی پھر وہ اس جانب چل دی۔قریب پہنچنے پر معلوم ہوا وہاں ایک چھوٹی سی چھونڑی سے روشنی آ رہی تھی جو کسی کے ہونے کا احساس دلا رہی تھی۔کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے اندر دیکھا تو حیران رہ گئی کیونکہ رات کے اس ویرانے میں اس جگہ ایک بزرگ اور لاغر سی عورت ایک چارپائی پہ آنکھیں موندے پڑی تھی جیسے کسی کے آنے کا انتظار ہو ۔
جب بزرگ کی نظر اس پہ پڑی تو وہ نہایت ہی محبت سے بولی بیٹا اندر آ جاو ۔ایک دم اسے ایسا لگا جیسے اس کی ماں نے اسے پکارا ہو وہ آہستہ سے چلتی ان کے پاس بیٹھی تو وہ بزرگ اٹھ کر بیٹھ گئی ۔اس میں اسے اپنے ماں کا عکس نظر آرہا تھا وہ ڈری سہمی ان سے لپٹ کر زارو قطار رونے لگی۔بزرگ اماں کچھ بھی نہ بولی بس اسے رونے دیا او ر محبت سے اس کو تھپکی دیتی رہی وہ خود بھی یہی چاہتی تھی کہ بس کوئی سوال اس سے نہ کیا جائے اور وہ اپنی باقی کی ساری زندگی اسی ایک گوشے مجں گزار دے ۔اس وقت اسے ایسے لگ رہا تھاجیسے اسے زندگی کا مقصد مل گیا ہو۔اور اس کی زندگی کا مقصد بھی بس یہی تھا ۔
فیس بک کمینٹ