موت نے ہم پر بہت سے وار کیے ، ہمارے بہت سے پیارے ہم سے چھینے ، اور ہم نے اس کے ہر وار کو اپنے سینے پر جھیلا ہی نہیں بلکہ سینے سے لگا کر بھی رکھا ۔لیکن اس مرتبہ تو موت نے ایک بار پھر ہم سے ہمارا پورا عہد اور پورا زمانہ ہی چھین لیا ، جیسے اطہر ناسک کے ساتھ میرا ایک زمانہ ختم ہو گیا جس میں میری لڑکپن کی بہت سی آوارگیاں شامل تھیں اور جس میں میرے لاہور کا ایک پورا عہد تھا ۔ اور اس سے پہلے طفیل ابن گل کے جانے سے میں اپنا ایک زمانہ کھو بیٹھا تھا ، پھر اختر شمار تھا جو طفیل اور اطہر کے بعد میرا لاہور تھا اور میں جب بہت اداس ہو جاتا کوئی کہانی لکھتے ہوئے کچھ کردار حافظے سے اوجھل ہو جاتے تو میں اختر شمار سے رہنمائی حاصل کرتا تھا ۔ کہانی مکمل ہو جاتی تھی اختر شمار مجھے میرا زمانہ لوٹا دیتا تھا ۔ لیکن اجمل سراج تو میرا پورا عہد لے گیا ۔ کوئی عہد وپیمان کیے بغیر میرا وہ زمانہ لے گیا جو صرف اسی کے پاس تھا اور وہ زمانہ کسی اور کے پاس تو تھا ہی نہیں ۔ میرا کراچی تو بس چند شاعروں اور ادیبوں کے دم سے ہی آباد تھا اور ان میں سب سے پرانا تعلق اجمل سراج کے ساتھ تھا ۔ لاہور تو خیر ملتان سے چند گھنٹوں کی مسافت پر ہے لیکن کراچی جانے کے لیے تو باقاعدہ سوچنا پڑتا ہے اور منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے ۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مجھے لاہور کی نسبت کراچی نے ہمیشہ بے پناہ محبتوں سے نوازا ۔ اور میں جب بھی کراچی گیا اجمل سراج کا فون نہ بھی ملتا تو اسے خبر ہو جاتی تھی کہ میں کراچی میں ہوں ۔
بات 1986 سے شروع کرتا ہوں جب میں اپنی بہن سے ملنے پہلی بار کراچی گیا تھا اور شاکر حسین شاکر میرے ساتھ تھے ۔ لیکن اجمل کے ساتھ تو میرا رابطہ1985 سے تھا جب میں لاہور سے انہیں جسارت کے ادبی صفحے کے لیے اپنا کالم ارسال کرتا تھا ۔ اس زمانے میں ڈاکٹر انور سدید جسارت میں ” زود اندیش ” اور مشفق خواجہ ” خامہ بگوش ” کے قلمی نام سے اخبار کے اسی ادبی صفحے میں کالم تحریر کرتے تھے جس کے مدیر اجمل سراج تھے ۔ ڈاکٹر انور سدید نے ” دید شنید ” کے لیے میرا نام ہوتل بابا تجویز کیا تھا ۔ دید شنید کے بعد میں نے ایسا ہی کالم روزنامہ جسارت کراچی کے لیے بھی ملتانی کے نام سے تحریر کرنا شروع کردیا ۔ اجمل سراج کو بس ایک خط لکھا کہ میں ملتانی کے قلمی نام سے آپ کو کالم ارسال کیا کروں گا ۔ اور ساتھ ہی کالم بھیج دیا جو اگلے جمعے شائع بھی ہو گیا ۔ جس دباؤ کا سامنا ان کالموں کی اشاعت پر رفیق ڈوگر صاحب کو کرنا پڑا یقیناً اجمل سراج بھی اسی صورت حال سے گزرے ہوں گے لیکن وہ اس زمانے کے مدیر تھے جو سچ شائع کرنے کا حوصلہ رکھتے تھے اور اپنے قلم کاروں کا دفاع بھی کرتے تھے ۔ہوتل بابا کے کالم جب منظر عام پر آئے تو سب کو حیرت ہوئی کہ میں روزنامہ جسارت کے ساتھ بطور قلم کار کیسے منسلک رہا کہ میں تو اس جماعت کا ہمیشہ سے مخالف رہا ہوں ۔ لیکن میں ترقی پسند ہونے کے باوجود رفیق ڈوگر ، ڈاکٹر انور سدید اور اجمل سراج کے حلقے میں شامل رہا ۔ حیرت کا اظہار کرنے والے یہ نہیں جانتے کہ اس زمانے میں سیاسی نظریات باہمی تعلقات پر اثر انداز نہیں ہوتے تھے ۔ باہمی احترام کے رشتے تو بعد کے زمانوں میں ختم ہوئے جب الزام اور دشنام معاشرے کی ریت بنے ۔ دوستو وہ بہت اچھا زمانہ تھا ۔ اسی لیے تو کہتا ہوں اجمل سراج کے ساتھ میرا پورا زمانہ ختم ہوا ہے ۔
واپس1986 کی طرف آتا ہوں جب میں شاکر کے ساتھ پہلی بار اجمل سراج سے ملنے جسارت کے دفتر گیا تھا ۔ ایک دھان پان سا لڑکا سر جھکائے کام میں مگن تھا ۔ ہم بہت دیر تک قہقہے لگاتے اور دوستوں کا ذکر کرتے رہے ۔ پھر اجمل کے ساتھ بہت سی ملاقاتیں ہوئیں اس مشاعرے میں بھی جو کراچی آرٹس کونسل نے کرایا اور جس نیں میں مجھ سمیت اس وقت کی نئی نسل کے بہت سے شعراء نے شرکت کی اور اس کے بعد اس تقریب میں بھی جو کراچی آرٹس کونسل نے میرے پہلے شعری مجموعے کے تعارف کے لیے سجائی تھی ۔
اس وقت جب میں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں میرے لڑکپن کے اس عہد کو کراچی میں سپرد خاک کیا جا رہا ہو گا ۔ میرا زمانہ منوں مٹی کے نیچے بھی مسکرا رہا ہو گا کہ اس کے چہرے کی مسکراہٹ تو کوئی نہیں چھین سکا تھا موت نے بھلا کب چھینی ہو گی ۔ اجمل جب بھی ملتان آتے ان کا ممتاز اطہر کے ہاں قیام ہوتا تھا لیکن جانے سے پہلے وہ مجھے اور شاکر کو تلاش کر ہی لیتے تھے ۔ وہ دو مرتبہ ہمیں اطلاع دیئے بغیر لالہ صحرائی کی یاد میں منعقد ہونے والی تقریبات میں چلے آئے اور ہم انہیں دیکھ کر حیران رہ گئے ایک شام میں نے اور شاکر نے ملتان ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم پر ان کے ساتھ گزاری تھی اور انہیں زکریا ایکسپریس سے کراچی روانہ کیا تھا ۔ آخری ملاقات 4 مئی 2015 کو ہوئی تھی جب میں اہل قلم کانفرنس میں شرکت کے لیے کراچی گیا تھا ۔ برادرم اقبال خاور نے اپنی رہائش گاہ پر میرے اعزاز میں عشائیے اور شعری نشست کا اہتمام کیا تھا ۔ لیاقت علی عاصم بھائی نے اس نشست کی صدارت کی اور اس کی نظامت خود اجمل سراج نے سنبھالی ۔ کیا انداز تھا نظامت کا ۔ ہنستے مسکراتے ، چٹکلے سناتے ایسی محفل جمائی کہ آج بھی ان کی آواز ذہن میں نقش ہے ۔سلیم فوز ، رمزی آثم ، سیمان نوید ، سلمان عزمی ، اور عمران شمشاد بھی وہاں موجود تھے ۔ آج اقبال خاور اور رمزی کو پرسہ دیا لیکن اصل دکھ تو سیمان کا ہے جسے فون کرنے کا مجھ میں ابھی حوصلہ نہیں ۔ اور حوصلہ کیسے ہو اس کا بھی تو پورا زمانہ چلا گیا ۔ اس کے اجمل بھائی چلے گئے ۔ یار اجمل کیا تم کبھی نہیں آو گے ؟ اور کیا اب تم سے ملنے کے لیے ہمیں ہی تمہارے پاس آنا پڑے گا ؟
فیس بک کمینٹ