اختر علی سید کی یہ غیر معمولی کتاب ان کے 71 بلند آہنگ مضامین ہیں جو ہم سب اور مکالمہ میں شائع ہوئے اور جنہیں ریڈنگز لاہور کے ادارے القا پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے عام طور پر فلسفے اور نفسیات سے متعلق مباحث کو ادق اصطلاحوں کے ساتھ ناہموار عبارت میں بیان کیا جاتا ہے مگر چھ سات باتوں میں وہ نہ استعمار محسوس ہوتا ہے نہ استعمار گرد بلکہ ہم جیسے محکوموں کے قریب بیٹھ کر پہلے خود کو پھر اپنے معاشرے کو اور پھر اس دنیا کو سمجھنے کے آسان نسخے تجویز کرتے ہیں ۔
1۔پہلی بات یہ ہے کہ وہ ہمارے پیارے خالد سعید کے شاگرد ہیں ۔ فرائیڈ ، رائخ ، ایرک فرام اور اوریانہ فلاسی سے متعلق اس کی کتابوں کو اور آسان بناتے ہیں اور ساتھ ہی یاد رکھتے ہیں کہ خالد سعید کی کلاس میں 7 باقاعدہ طالب علم تھے مگر جب وہ تین سگریٹ سلگا کے لیکچر دینا شروع کرتا تھا تو کلاس روم میں تل دھرنے کی جگہ نہ ہوتی ۔
2۔ اختر علی سید کے والد ایک روشن خیال وکیل تھے اس لئے آئی اے رحمان ، عاصمہ جہانگیر ، وجاہت مسعود اور بنیادی انسانی حقوق کے لئے جدو جہد کرکے فرقہ ملامتیہ میں شامل ہونے والوں کی سرشاری کو محسوس کر سکتے ہیں ۔
3۔ اردو شعر و ادب سے ان کا لگاو ان میں ابلاغ کی غیر معمولی قوت پیدا کرتا ہے ۔
4۔بھٹو کی شخصی کمزوریوں سے قطع نظر وہ اس نکتے پر توجہ دیتا ہے کہ ضیاءالحق کے ہاتھوں پھانسی چڑھنے والے نے ان پڑھ لوگوں تک یہ پیغام پہنچا دیا ہے اپنی غربت اور پامالی سے نکلنے کے لئے انہیں خود ہی کچھ کرنا ہے
5۔آئر لینڈ میں وہ رہ کر متعدد بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ کام کرتے ہوئے بعض نفسیاتی پیچیدگیوں کے اسباب کے مطالعے کے لئے اہم رپورٹیں تیار کر چکا ہے
6۔ وہ کسی خان کی تیاری کے مراحل کی نشاندہی کرتا ہے اور استعمار گردوں کے شراکت کاروں کی پہچان میں مدد دیتا ہے
7۔وہ ایسے دانش وروں اور استادوں یا معلموں سے بھی خبردار رہنے کو کہتا ہے جو خود کو ہمیشہ حق پر خیال کرتے ہیں ۔
اصولی طور پر یہ کتاب آپ کو پڑھنی چاہیئے اس لئے میں صرف چار اقتباسات پر اکتفا کر رہا ہوں
الف )”یوگیوں کا اپنے چیلوں سے بھیک منگوانا ، نماز کا سجدہ کافر ہمسائے کی مہمان داری ، ریاکاری کی مذمت نرگسیت کی نفی ہے ”
2۔ ملک کے پاور سنٹر نے اب جن گروہوں پر سرمایہ کاری کی ہے وہ ” توہین ” کا نعرہ لگانے والے ہجوم ہیں ”
3۔ "خالد سعید ساری زندگی مردانہ اوصاف کے خلاف رہے انہوں نے اپنے جنازے میں شامل ‘ مردوں ‘ کو عورتوں کی طرح رلا دیا ”
4۔” کوفے والے پہلے جبر کے سامنے ڈھے گئے پھر چار ہزار کا لشکر لے کر نکلے اور بے نام مزاحمت کرتے ہوئے مارے گئے اس سے تو بہتر تھا وہ کربلا کے میدان میں پانی کی سبیل لگا لیتے اور ہر آتے جاتے کو امام عالی مقام کے نام پر پانی پلاتے ”
فیس بک کمینٹ