یہ غالباً 1977 کی بات ہے جب ملتان یونیورسٹی(بہاالدین زکریا یونیورسٹی کا پہلا نام)کے مشاعرے میں نوجوان اختر شمار کو میں نے پہلی مرتبہ دیکھا اور سنا ۔ اس نے اپنے تخلص کو نہایت خوبی سے ردیف کے طور پر استعمال کیا تھا ۔اس کے اس شعر نے خاص طور پر چونکا دیا تھا:
یا مجھ کو اپنے پاؤں پہ گرنے سے روک دے
یا میری لغزشوں کو عباد ت شمار کر
پھر تو تواتر سے اسے سننے کا موقع ملتا رہا ایک دن وہ اپنی ہائیکو لے کر آیا وہ انہیں شائع کرنا اور مجھ سے دیباچہ لکھوانا چاہتا تھا۔میرے لیے یہ خوشی کی بات تھی اگرچہ وہ بڑے رچاؤ سے غزل کہتا تھا لیکن دیوان شائع کرنے سے گریزاں تھا اور پہلے ہائیکو کا مجموعہ شائع کرکے رسپانس دیکھنا چاہتا تھا میں نے بھی اس کے اندر چھپے شاعری کے امکانات کو موضوع بنایا ، پھر اس کے تخلیقی وفور نے پے در پے غزلوں کے مجموعے لکھوائے جو شائع بھی ہوتے رہے اور اس کی پختہ گوئی میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا اس کی کئی غزلیں تو پبلک پراپرٹی بن گئیں جن میں خاص طور پر :
اس کے نزدیک غمِ ترکِ وفا کچھ بھی نہیں
مطمئن ایسا ہے جیسے ہوا کچھ بھی نہیں
کل بچھڑنا ہے توپھر عہدِوفاسوچ کے باندھ
ابھی آغاز ِ محبت ہے گیا کچھ بھی نہیں
میں تواس واسطے چپ ہوں کہ تماشانہ بنے
توسمجھتا ہے مجھے تجھ سے گِلہ کچھ بھی نہیں
1998 میں پاکستان چئیر پر میں جامعہ ازہر جانے کے لیے پا بہ رکاب تھا تو وہ پی ایچ ڈی کا خاکہ لے کر اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور آیا میرے وہاں سے جانے کا سن کر وہ مایوس ہوا حالاں کہ اس کی رجسٹریشن میں کوئی امر مانع نہ تھا مگر وہ میرے ساتھ ہی کام کرنا چاہتا تھا پھر اس نے پنجاب یونیورسٹی سے رجسٹریشن کرائی۔پی ایچ ڈی کرنے کے بعد وہ ایف سی کالج سے وابستہ ہوا اور یہ حسنِ اتفاق تھا کہ میرے مصر سے واپس آنے کے کچھ عرصہ بعد وہ بھی پاکستان چئیر پر منتخب ہو کر مصر چلا گیا تب مجھے احساس ہوا کہ اس سے تعلق کی کوئی نہ کوئی صورت پیدا ہوتی ہی رہتی ہے۔میں نے چھے سال پہلے ایف سی کالج میں ملازمت کے لیے درخواست دی تو اگلے دن اس کا فون آ گیا۔اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں واقعی سنجیدہ ہوں جب میں نے اسے بتایا کہ میری بیٹی فیشن اینڈ ٹیکسٹائل ڈیزائن میں لاہور سے ڈگری کر رہی ہے اور اس کے مستقبل کے لیے میرا لاہور آنے کا ارادہ ہے تو وہ بہت خوش ہوا ۔پھر گذشتہ سے پیوستہ سال اس نے اپنی شاعری کی کلیات مرتب کی تو ایک مرتبہ پھر مُصِر ہوا کہ میں اس کا دیباچہ تحریر کروں تو یوں اس کے پہلے مجموعہ ِ شعر سے کلیات تک(1984 سے 2020 تک) میرا اور اس کی شاعری کا ساتھ استوار ہوا جب کہ اس کا اور میرا ساتھ پینتالیس برس کا تھا مگر آج وہ ایسے ساتھ چھوڑ گیا جیسے
"اس کے نزدیک غمِ ترکِ وفا کچھ بھی نہیں ”
وہ کچھ عرصے سے بیمار تو تھا مگر ایسی تشویش ناک بات نظر نہ آتی تھی۔میرا خیال تھا کہ دن بہ دن اس کے کم ہوتے ہوئے وزن کی وجہ پچھلے دو تین سال سے اس کی بتدریج کم ہوتی ہوئی خوراک تھی۔پچھلے ماہ میں امریکہ آرہا تھا تو اس کا فون آیا وہ ایک ماہ کے لیے مکمل آرام کرنا چاہ رہا تھا مگر مجھے بالکل اندازہ نہ ہو سکا کہ وہ تو کسی اور ہی سفر کی عجلت میں ہے۔ کل اس کے آئی سی یو میں جانے اور آج دائمی رخصت لینے کی خبر سن کر کلیجہ جیسے منہ کو آگیا۔زندگی میں بہت کم میں نے اپنے آپ کو اس قدر بے بس پایا۔پینتالیس سال کا ساتھ آج چھوٹ گیا۔خدا اس کے درجات بلند کرے ، اس کی اگلی منزلیں آسان کرے ،اس کی روح کو آسودہ رکھے۔آمین
فیس بک کمینٹ