بچپن سے لے کر آج تک جب بھی میں پاکستانی سیاست پر نظر ڈالتا ہوں ایک بات ہمیشہ کوفت دیتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم حکمرانِ وقت کو ایماندار، پرہیز گار، عبادت گزار اور غریبوں کا حامی و مددگار ضرور ثابت کرتے ہیں ۔یہ ہمارا اجتماعی قومی رویہ ہے کہ ہم اپنے باس کو خدا بنا کر پیش کرنے کے عادی ہیں شاید ساری دنیا میں خوشامد کی جاتی ہوگی لیکن یہ جس خالص شکل میں ہمارے معاشرے میں دستیاب ہے شاید ہی دنیا میں کہیں اتنی خالص خوشامد اور اتنا کاریگر خوشامدی مل سکے ۔یہاں یہ تک ہوتا رہا ہے کہ نیا باس آیا تو ماتحوں نے اپنی ذات تک بدل دی مثلاً اگر ایک سکول میں پرنسپل راجپوت آ جائے تو بہت سے ٹیچرز نے نام کے ساتھ راؤ صاحب یا رانا صاحب لکھنا شروع کر دیا، لیکن جو خوشامد ملکی سطح کے لیڈروں کے حصے میں آتی ہے اسکا جواب نہیں اور ایک رجحان جو سب سے زیادہ دیکھا گیا وہ اپنے آپ کو ایک نہایت اچھا مسلمان ثابت کرنے کا رہا ہے اور یہ وہ حمام ہے جس میں سب ننگے ہیں ۔میں نے بچپن میں سنا تھا کہ صدر پاکستان جنابِ ضیاء الحق جب قرآن مجید کی تلاوت سنتے ہیں تو ان پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے اور آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی ہے اور رقت کا وہ عالم طاری ہوتا ہے کہ پورا ماحول روحانیت میں ڈوب جاتا ہے ایسے ہی تو یہ نعرے نہیں بنے تھے کہ "مردِ مومن مردِ حق ضیاء الحق ضیاء الحق” ۔ حضرت کبھی سادگی کی اعلی ترین مثال بن جایا کرتے تھے اور سائیکل پر دفتر جاتے ہوئے کی تصاویر اخبارات میں شائع ہوتی تھیں اور سب سے زیادہ ہمارے لوگ اس بات پر خوش تھے کہ مردِ مومن نے بھٹو جیسے زانی، شرابی اور پاکستان دشمن سے ہماری جان چھڑائی تھی جس نے پاکستان توڑا، بچپن میں یہ بات سنتے تھے بھٹو اتنا بڑا عیاش تھا کہ سن ستر میں اس کا ایک سگار پانچ ہزار روپے کا ہوا کرتا تھا اور ضیاء الحق اتنے سادہ طبیعت ہیں کہ نوکروں کے کھانا کھانے بعد کھانا کھاتے ہیں، اسکے بعد ہماری بدقسمتی کہ A Case of Exploding Mangos ہوا اور ضیاء صاحب شہادت کے منصب پر فائز ہو گئے اور حکومت آئی بھٹو کی بیٹی بینظیر بھٹو کی جس کے بارے میں قوم یہ مانتی تھی کہ یہ بھٹو کی لیگیسی کی امین ہے۔ حکومت قائم ہوئی تو جو لڑکی برآمد ہوئی چادر میں ملفوف تھی اور مولانا فضل الرحمن کو بھائی بنا رہی تھی جیسے ہی مولانا نے اس کو بہن بنا دوپٹہ اوڑھایا تو اس کے ہاتھ میں تسبیح آگئی ایک بار اسی حالت میں کہ سر پر دوپٹہ تھا اور انگلیاں تسبیح کے دانوں پر چل رہی تھیں کہ بی بی مشہور انقلابی شاعر حبیب جالب جوکہ ان دنوں ہسپتال میں زیر علاج تھے سے ملنے گئیں جب حبیب جالب نے بھٹو کی بیٹی کو اس حلیے میں دیکھا تو کہا ” اب داڑھی بھی رکھ لو” یہ کہہ کر کروٹ بدلی اور سوگئے ۔ اسحاق خان نے بی بی کی حکومت کو چلتا کیا ہمارے پیارے میاں نواز شریف کی حکومت آئی اخبارات میں میاں نواز شریف کی احرام میں ملبوس کبھی وضو کرتے ہوئے اور نماز پڑھتے ہوئے کی تصاویر شائع ہونی شروع ہو گئیں ساتھ ہی ساتھ یہ افواہیں بھی پھیلیں کہ میاں صاحب اپنے آپ کو امیرالمومنین ڈکلئیر کرانا چاہتے تھے دو دو بار ہم نے ان پارٹیوں کی حکومت دیکھی گو کہ کوئی اپنی مدت پوری نہیں کر سکا لیکن یہ دونوں لیڈرز اپنے اپنے دور میں انتہائی پارسا، نیک، اور خدا کا خوف رکھنے والے لیڈرز کے طور پر جانے جاتے رہے، بارہ اکتوبر ننانوے کو (سید پرویز مشرف) نے ملک کے وسیع تر مفاد میں آئین معطل کر دیا اور معلوم ہوا کہ وہ جو کہ امیر المومنین بننے جارہے تھے اصل میں غدار تھے اور ملک کے ساتھ ایک بہت بڑا کھلواڑ کرنے جارہے تھے اور اگر بہادر افواج کے سربراہ بر وقت فیصلہ نہ لیتے تو ملکی سالمیت کو شدید نقصان پہنچنا تھا یہ تو اللہ نے غیبی امداد کی کہ سید پرویز مشرف جیسا ایماندار، نیک، اور خوفِ خدا رکھنے والا شخص اس ملک کی فوج کا سربراہ مقرر ہو گیا ورنہ ہم کہیں کے نہ رہتے، جہاں ایک طرف سید پرویز مشرف نے Enlighten Moderation کا نعرہ دیا وہیں قوم کو یہ بھی بتاتے رہتے تھے کہ میں سید ہوں اللہ نے مجھ پر جو کرم کیا ہے وہ اللہ قسمت والوں پر ہی کرتا ہے جو اس کے مخصوص اور چنیدہ ہوتے ہیں مثلاً میں نے اللہ کا گھر اندر سے دیکھا ہے اور دنیا کی سب سے بڑی شیطانی قوت انڈیا کے خلاف کئی جنگوں میں دشمن کے دانت کھٹے کیے ہیں اور ہر بار غازی لوٹا ہوں (شہید شاید اس لیے نہیں ہوئے کہ اللہ نے ان کے ہاتھ سے پاکستان کی تقدیر بدلوانی تھی) آٹھ سال ہم اس سید کی حکمرانی میں رہے، ضیاء صاحب نے ہمیں یہ بتایا تھا کہ جو مجاہدین افغانستان میں روس جیسے ناسور کے خلاف لڑ رہے ہیں وہ اصل مسلمان ہیں اور وہ عالم اسلام پر احسان کر رہے ہیں آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن وہ اتنے اعلیٰ پائے کے مسلمان تھے کہ امریکہ تک انکو مجاہدین مانتا تھا لیکن ٹھیک بارہ سال بعد جب نائن الیون ہوا تو یہ لوگ بقولِ سید پرویز مشرف کے دہشت گرد اور شدت پسند ہوگئے اور انکے خلاف امریکہ کی مدد اسلام کی مدد بن گئی اور ہم اس کام میں جُت گئے۔
جنابِ سید پرویز مشرف رخصت ہوئے تو دو انتہائی غدار قسم کی حکومتیں آئیں ایک آصف زرداری کی اور دوسری نواز شریف کی اور ہم نے دیکھا کہ ان لوگوں نے نہ تو زیادہ نمازیں پڑھیں اور نہ زیادہ عبادات کیں ہاں یہ الگ بات ہے کہ جب بھی کسی وزیر پر مذہبی حوالے سے کوئی الزام لگا تو اس نے مکہ مکرمہ جاکر احرام میں ملبوس ہوکر قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل کرائیں جس سے معلوم ہوا کہ یہ مسلمان ہے، قوم کب تک اس طرح کی حکومت برداشت کرتی وقت آگیا تھا کہ ایک ایسا لیڈر لایا جائے جو نہ صرف ایمانداری میں اپنی مثال آپ ہو بلکہ روحانیت سے بھی لبریز ہو لہذا اس بار قوم نے جنابِ عمران خان کو چنا اور وزیراعظم کی کرسی پر متمکن کرایا۔
یہ وہی عمران خان ہے کہ جو ایک عظیم کرکٹر کے طور پر جانا جاتا تھا جس نے وسیم اکرم کو نہ صرف بولنگ سکھائی بلکہ وسیم اکرم کے بقول انہوں نے پارٹی کرنا بھی عمران خان سے سیکھا، یہ وہی عمران خان ہے کہ جس کا نام کبھی زینت امان سے ساتھ لیا گیا تو کبھی ایما سارجنٹ کے ساتھ کبھی لولو بلیکر کے ساتھ تو کبھی گولڈی ہارن کے ساتھ کبھی سوسن کے ساتھ آپ خبروں میں رہے تو کبھی میری ہلکن کے ساتھ کبھی ٹی وی سٹار اناتیسیا کک کا نام آپکے ساتھ جوڑا گیا تو کبھی لینڈا کیمبل کا اور کبھی ایم ٹی وی سٹار کرسٹین بیکر کے ساتھ آپکا افئیر بنایا گیا لیکن جب آپ نے سر گولڈ سمتھ کی بیٹی جمائما گولڈ سمتھ سے شادی کی تو تمام منہ بند ہوگئے اور کئی دل ٹوٹ گئے لیکن بد نظروں کی بدنظری اس شادی کو کھا گئی۔۔
یہ وہی عمران خان ہے کہ جو ایک مدت سے قوم کا ہیرو تھا جس کی قیادت میں پاکستان نے ورلڈ کپ جیتا تھا، یہ وہی عمران خان تھا کہ جس کو شوکت خانم کے لیے چندہ دینے والوں کی لائینیں لگ جایا کرتی ہیں ایک انتہائی ماڈرن انسان جس پر مدت سے یہ الزام ہے کہ وہ کوکین کا دلدادہ ہے۔ یہ عمران خان کرپشن فری نئے پاکستان کا نعرہ لگا کر باہر نکلا اور قوم نے اپنی تمام تر محبتیں اس پر نچھاور کر دیں، یہ وہی عمران خان ہے جس کا ہر جلسہ مخالفین کو دہلانے لگا، وہی عمران خان جس نے لوگوں کو یہ یقین دلایا کہ اگر مجھے حکومت میں لاؤ گے تو میں تم سے کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا، تمھارے پیسوں کی حفاظت کروں گا، لوگ پاکستان نوکری ڈھونڈنے کے لیے آئیں گے، گرین پاسپورٹ کی عزت ہوگی لوگوں کو آنے والے کل سے اچھی امیدیں وابستہ ہوگئیں لیکن ہوا یہ کہ نواز شریف نے 2013 کا الیکشن چوری کر کے اپنی حکومت قائم کر لی لیکن ہمارا کپتان ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھا اس نے ایک سو چھبیس دن کا دھرنا دیا لیکن اللہ کو ابھی خان کا مزید امتحان مقصود تھا، مطالبات تو منظور نہیں ہوئے لیکن ہمارے تھکے ہوئے خان نے دوسری شادی کر لی لیکن بات ایک بار پھر نہ بن سکی اور دوسری شادی بھی طلاق پر ختم ہوئی۔اسکے بعد کبھی خان نے انگوٹھی پہنی تو کبھی درگاہ پر سجدہ کیا اور اللہ نے اپنا خاص کرم کیا اور بشریٰ مانیکا نے اپنے پانچ بچوں اور انتہائی نیک سیرت شوہر کو (جو کہ خان کی جماعت میں ہی تھے) چھوڑ کر خان سے شادی کرلی اسکے بعد تو جیسے قسمت ہی بدل گئی اور آج خان کی پاکستان پر حکومت ہے۔کام کی بات یہ ہے کہ بشریٰ بی بی بتاتی ہیں کہ خان صاحب ایک روحانی آدمی ہیں وہ جب گھر آتے ہیں تو پہلے دو رکعت نماز شکرانے کی پڑھتے ہیں، اسکے بعد نمازِ مغرب و عشا پڑھتے ہیں اور اسکے بعد نوافل ادا کرکے باقی تسبیحات کرتے ہیں اور پھر کھانا کھاتے ہیں، یہ بات صرف بشریٰ بی بی ہی نہیں کرتیں ہمارے ملک کے پابلو نرودا، نیلسن منڈیلا، چی گویرا، سچائی کے ماونٹ ایورسٹ جنابِ حسن نثار (جن کے منہ سے پھول جھڑتے ابھی ہر کسی نے دیکھے) بھی اسی بات کی گواہی دیتے ہیں کہ عمران خان ایک روحانی آدمی ہے آج عالم یہ ہے کہ کبھی خان کی تصاویر مسجد نبوی میں قوم کے لئے رو رو کر دعائیں مانگتے ہوئے آتی ہیں تو کبھی کسی ویڈیو میں یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خان کو سعودی عرب میں کس قدر عزت سے نوازا، ابھی ایک تصویر آئی جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ خان صاحب نے جو کوٹ پہنا ہوا ہے اس پر استری کے واضح نشان نظر آ رہے ہیں، بشریٰ بی بی کے بقول خان صاحب کے پاس صرف تین جوڑے ہیں اور انہی کو وہ بار بار پہنتے رہتے ہیں، اس میں کیا شک ہے کہ اگر پاکستان میں ضیاء الحق کے بعد کسی مردِ حق نے ظہور کیا ہے تو وہ خان صاحب ہیں آخر میں ہم قوم سے یہ اپیل کرنا چاہتے ہیں کہ جس طرح قوم ڈیم کی تعمیر کے لیے چندہ دے رہی ہے کیونکہ ڈیم پاکستان کی سلامتی کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے بالکل اسی طرح خان صاحب کے کپڑوں کے لیے بھی چندہ دے کیونکہ خان صاحب بھی پاکستان کی سلامتی اور ترقی کے لئے ناگزیر ہیں ورنہ سخت عذاب سے قوم کو کوئی نہیں بچا سکتا…
فیس بک کمینٹ