جب سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے حکم دیا کہ چھ مہینے تک صرف مثبت باتیں کی جائیں اس وقت سے سوچ رہا تھا کہ کیا بات کی جائے ؟ لہذا اس نتیجے پر پہنچا کہ کیوں نہ ان لوگوں کا ذکر کریں کہ جن کے بارے میں کم ہی لوگ اچھی بات کرتے یا سوچتے ہیں۔
اگر آپ ایک سروے کریں اور پاکستانی عوام و خواص سے یہ پوچھیں کہ پاکستان کا سب سے کرپٹ سیاستدان کون ہے تو ممکنا طور پر دو جواب آپ کو سننے کو ملیں گے ایک آصف علی زرداری اور دوسرا نواز شریف ۔ میں نے کئی بار میاں صاحب کی بات کی ہے اور موجودہ حالات میں مجھے ان سے ہمدردی بھی ہے لیکن آج دل کر رہا ہے کہ آصف زرداری پر بات کی جائے..
18 دسمبر 1987 کو آصف زرداری اور بینظیر بھٹو کی شادی ہوئی حالانکہ مردِ مومن کی حکومت تھی اسکے باوجود یہ شادی پوری طرح سے سیلیبریٹ کی گئی لیکن ساتھ ہی ساتھ نا جانے کس کس کو کہاں کہاں اور کیسے کیسے تکلیف پہنچی کہ اسی دن سے زرداری صاحب کے خلاف وہ پروپگینڈہ شروع ہوا کہ جو آج سات دن کم تیس سال گزرنے کے باوجود ختم نہیں ہوا بلکہ ہر روز کوئی نہ کوئی سکینڈل سننے کو مل ہی جاتا ہے جس میں تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ بس اب تو زرداری نہیں بچ پائے گا. بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے زمانے میں ہم سنا کرتے تھے کہ زرداری نے پرائم منسٹر ہاوس میں ائیر کنڈیشنڈ اصطبل بنا رکھا ہے جہاں اسکے گھوڑے گاجروں اور سیبوں کی مربعے کھاتے ہیں، پھر سنا کہ مائیکرو سافٹ کا مالک بل گیٹس پاکستان میں سلیکون ویلی کی طرز پر ایک ٹیکنالوجی سٹی بنانا چاہتا تھا لیکن زرداری نے اس سے اپنا کٹ مانگ لیا جس کی وجہ سے بل گیٹس نے وہ سرمایہ کاری انڈیا کے شہر بنگلور میں کر دی، یہ بھی سنا کرتے تھے کہ زرداری نے بینظیر کو بلیک میل کر کے اس سے شادی کی ہے ورنہ خود سوچو کہاں بینظیر اور کہاں آصف علی زرداری؟ پھر سنا کہ آصف زرداری کے بینظیر سے ازدواجی تعلقات نہیں ہیں بلکہ وہ تو ہر وقت شراب کے نشے میں چور رہتا ہے اور کوئی اداکارہ ایسی نہیں ہے جو اس کی حیوانیت سے بچ سکی ہو (بینظیر کی دونوں حکومتوں کے زمانے کے اخبارات اٹھا کر دیکھے جا سکتے ہیں اس طرح کی خبریں اداکاراؤں کے ناموں کے ساتھ چھاپی جاتیں تھیں) ہم سنا کرتے تھے کہ زرداری بینظیر کو مارتا ہے اور بینظیر اس سے الگ ہونا چاہتی ہے لیکن اس کے پاس کچھ ایسی تصاویر اور راز ہیں کہ جن کے افشا ہوجانے کے ڈر سے وہ اسکو نہیں چھوڑتی یہ وہ تمام باتیں ہیں جو ہم اپنے بچپن میں اپنے اردگرد سے متواتر سنا کرتے تھے اور کسی حد تک اس پر یقین بھی کیا کرتے تھے.. زرداری کے جنسی تعلقات کے قصے پڑھ پڑھ حظ بھی اٹھایا کرتے تھے، بی بی کی پہلی حکومت اس وقت کی صدر جنابِ اسحاق خان نے اپنا صدارتی اختیار استعمال کرتے ہوئے برطرف کردی اور حکومت آئی ہمارے پیارے میاں نواز شریف کی وہ بھی رخصت ہوئی اور ایک بار پھر بی بی بر سرِ اقتدار آئیں اس حکومت میں ہونے والا سب سے اہم واقعہ مرتضیٰ بھٹو کی شہادت تھی جو ہماری تاریخ میں ہونے والے باقی قتلوں کی طرح آج تک ایک معمہ ہے بھٹو خاندان کی قسمت عجیب ہے انکے قاتلوں کا کبھی تعین نہیں کیا جا سکا لیکن 1988 کے بعد ہونے والے قتل بڑی آسانی سے زرداری صاحب کے کھاتے ڈال دیے گئے پر ثابت نہ ہو سکے لیکن پھر بھی لوگوں نے آنکھیں بند کر کے یقین کر لیا.. کچھ اسی طرح کا مرتضیٰ بھٹو قتل کیس میں بھی ہوا، پہلے مرتضیٰ بھٹو کے قتل کو مشکوک بنایا گیا اور اسکے بعد بڑی کامیابی سے اسکو زرداری کے کھاتے میں ڈال دیا گیا اور آج بھی دنیا یقین کرتی ہے کہ مرتضیٰ بھٹو کو آصف زرداری نے قتل کرایا تھا کیونکہ وہ اسکی اصلیت جان چکا تھا اور بینظیر وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی اس لیے کچھ نہ کر سکی کیونکہ زرداری کے پاس کچھ ایسی باتیں اور تصاویر تھیں کہ جو افشا ہوجاتیں تو قیامت برپا ہو جاتی. اللہ کی کرنی کچھ ایسی ہوئی کہ بینظیر کی دوسری حکومت انہی کی پارٹی کے صدر فاروق لغاری نے بر طرف کر دی یہ بینظیر کے لیے ایک بڑی اور برُی خبر تھی کہ کیا کسی پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا اپنی ہی پارٹی کے بندے نے اپنی ہی پارٹی کی حکومت گرا دی…. اسی زمانے میں زرداری صاحب کو کرپشن اور پتہ نہیں کس کس کیس میں گرفتار کر لیا گیا یہ وہ زمانہ تھا کہ جب میاں نواز شریف کو ہیوی مینڈیٹ دلا کر لایا جا رہا تھا اور ایک تہائی اکثریت سے میاں صاحب کامیاب ہوئے تھے جس کے نتیجے میں 1997 میں انکی حکومت قائم ہوئی تھی..
زرداری جیل چلے گئے ہم بڑوں سے سنتے تھے کہ بینظیر کی جان چھوٹ گئی اب زرداری کبھی باہر نہیں آ سکے گا لیکن یہ دیکھا گیا کہ بینظیر بھٹو جو کہنے کو تو بھٹو کی بیٹی تھی لیکن اس میں عقل شاید بہت ان سے بھی زیادہ تھی کہ وہ اسی زرداری کے خلاف بننے والے کیسز کی پیروی کرنے کے چکروں میں ایک ہی دن میں تین تین شہروں کی عدالتوں میں گود میں بچے لے کر چکر کاٹتی رہی نہ اسکو یہ یاد آیا کہ یہ وہی آدمی ہے جس نے ساری زندگی مجھے بلیک میل کیا ہے، یہ وہی آدمی ہے کہ جس نے میری حکومتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کرپشن کی ایک تاریخ رقم کی ہے، یہ وہی ہے جس نے میرے شیر جیسے بھائی کا قتل کیا ہے وہ اتنی بھی با خبر نہیں تھی کہ جتنا اس ملک کا ایک مزدور تھا ہر آدمی ایک ہی بات کر رہا تھا کہ زرداری مسٹر ٹین پرسنٹ ہے ہر آدمی جانتا تھا کہ زرداری مرتضیٰ کا قاتل ہے لیکن اگر یہ سیدھی سی بات سمجھ میں نہیں آ سکی تھی تو وہ بینظیر کی سمجھ میں نہیں آئی تھی باقی تو پورا ملک جانتا تھا اور چیخ چیخ کر کہہ بھی رہا تھا.
اکتوبر 1999 میں میاں نواز شریف کی حکومت کا بستر پرویز مشرف نے گول کیا اور اس طرح ملک پھر سے مضبوط ہاتھوں میں چلا گیا میاں نواز شریف اور بینظیر دونوں ملک چھوڑ کر باہر جانے پر مجبور ہوئے لیکن آصف زرداری جیل میں بند رہے ایک بار میں نے جاوید ہاشمی صاحب سے سنا تھا وہ کہہ رہے تھے کہ "ہمیں چھوڑیے چھوٹے چھوٹے کارکنوں کو ہر روز جیل میں یہ آفرز کی جاتیں تھیں کہ پارٹی چھوڑ دو رہائی بھی مل جائے گی اور نظرِ کرم بھی کی جائے گی تو آپ سوچیں کہ جو اہم لیڈرز جیل میں تھے کیا انکو کوئی آفر نہیں آتی ہوگی” ذرا ایک منٹ کے لیے تصور کیجئے کہ پرویز مشرف کا زمانہ ہو اور آپ ایک خبر ٹی وی پر سنیں کہ آصف علی زرداری نے بینظیر بھٹو کو طلاق دے دی اور ساتھ ہی ق لیگ میں شمولیت کا اعلان کر دیا تو یہ خبر بینظیر کے لیے کیا قیامت لاتی، جبکہ وہ جانتی تھی کہ آصف زرداری کے پاس اس کے کیسے کیسے راز ہیں؟ لیکن ہم نے یہ دیکھا کہ بینظیر نے جلاوطنی کے زمانے میں ہر انٹرنیشنل فورم پر زرداری کا دفاع کیا اور کبھی کسی بھی جگہ نہ اس نے زرداری کی برائی کی نہ ہی کبھی یہ تاثر دیا کہ وہ اسکی عزت نہیں کرتی۔۔ وقت گزرتا رہا ہم بڑے ہوتے رہے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی پتہ چلتا رہا کہ زرداری کو جیل میں اداکارائیں فراہم کی جاتی ہیں زرداری جیل سے بیٹھ کر پاکستان میں انڈر ورلڈ کا نیٹ ورک چلاتا ہے ۔۔ ہوتے ہوتے گیارہ سال بیت گئے (یہاں ایک بات پاکستان میں عمر قید کی سزا چودہ سال ہے جس میں دن اور راتوں کو الگ گنا جاتا ہے تو اس طرح یہ قید سات سال رہ جاتی ہے یعنی اگر کسی کو عمر قید کی سزا ہو جائے تو وہ سات سال جیل میں گزارتا ہے) زرداری گیارہ سال جیل میں رہے پرانے کیسز اور پروپیگنڈے تو چل ہی رہے تھے، نئے بھی بنتے رہے.
گیارہ سال بعد زرداری اور مختلف پارٹیوں کے سیاسی قائدین کی جانیں معاہدے کر کے چھوڑ دی گئیں لندن میں سیاسی جماعتوں نے چارٹر آف ڈیموکریسی سائن کیا اور ملک میں انتخابات کی تیاری شروع ہوئی بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو واپس آ کر الیکشن لڑنے کی اجازت ملی اکتوبر 2007 میں بینظیر واپس پاکستان آئیں اور کراچی اتریں لوگوں کا ایک جم غفیر انکے استقبال کو کراچی میں جمع ہوا کئی کلومیٹرز پر مشتمل ریلیاں پورے پاکستان سے کراچی پہنچیں کہ اسی روز کارساز کے علاقے میں بینظیر کے ٹرک کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اور ایک بلاسٹ کیا گیا جو کہ انکے ٹرک کے بلکل ساتھ ہوا بہت سی شہادتیں ہوئیں لیکن خوش قسمتی سے بینظیر محفوظ رہیں کیونکہ وہ اس وقت ٹرک کے اندر والے محفوظ کمرے میں کچھ دیر کے لیے آرام کر رہی تھیں اس واقعے پر تاریخ بالکل خاموش ہے اور یہ واحد واقعہ ہے کہ جس میں زرداری کے ملوث ہونے کی کوئی خبر ہم تک نہیں پہنچی لیکن چند لوگوں کا خیال تھا کہ یہ دھماکہ پیپلزپارٹی نے خود کرایا ہے تاکہ ہمدردیاں سمیٹی جاسکیں اس واقعے کے بعد بینظیر نے ایک پریس کانفرنس کی اور اس میں پرویز مشرف، پرویز الٰہی اور بیت اللہ محسود کو نامزد کیا کہ میری جان کو ان لوگوں سے خطرہ ہے یہ اکتوبر میں ہوا اور 27 دسمبر 2007 کو بینظیر کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا جب وہ ایک جلسے سے خطاب کر کے واپس جارہی تھیں تو انہیں سر پر گولی مار دی گئی جسکے نتیجے میں وہ موقع پر ہی چل بسیں انتخابات ہوئے اور 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے اور کچھ ہی عرصے بعد زرداری صدرِ مملکت بن گئے بینظیر کا قتل زیرِ بحث تھا اور قاتل کے تعین کے لیے لوگوں کی نظرِ انتخاب ایک بار پھر زرداری صاحب پر ٹھہری ایک بات جو ہر کوئی کر رہا تھا اور آج بھی کرتا ہے وہ یہ کہ قتل میں سب سے زیادہ شک اس پر کیا جاتا ہے جس کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہو اور بینظیر کے قتل کا سب سے بڑا بینفشری آصف علی زرداری ہے کہ وہ کہ جو کل تک سنیما گھروں کی ٹکٹیں بلیک کیا کرتا تھا آج ملک کا صدر بن گیا آج بھی پورا ملک اسی بیانیے کو سچ مانتا ہے، لیکن اگر یہ سیدھی سادی سی بات کسی کی سمجھ میں نہیں آتی تو وہ بینظیر کی اولاد ہے جو اس کو سچ ماننے کو تیار نہیں ہیں جیسا کہ میں نے اوپر تذکرہ کیا تھا کہ بینظیر کو بھی وہ عام سی باتیں سمجھ نہیں آتی تھیں جو عوام تک سمجھ لیتے ہیں بلکل اسی طرح بلاول، بختاور اور آصفہ کو آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ انکی ماں کا قاتل انکا باپ ہے..
لوگ یہ طعنہ بھی دیتے ہیں اور ٹھیک دیتے ہیں کہ پانچ سال پیپلزپارٹی کی حکومت رہی لیکن وہ بینظیر کے قاتل کو نہیں پکڑ سکے جس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ قاتل زرداری خود ہے. لیکن بینظیر کے بچوں کو یہ سمجھ نہیں آتا..
ہمارے ایک بہت ہی پیارے بھائی ایک بار مجھے عمران خان کے اوصاف کا تعارف کرا رہے تھے لیکن میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اچانک میں نے ان سے سوال کیا کہ بھٹو صاحب کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ تو فرمانے لگے کہ ایک عظیم لیڈر تھا میں نے پوچھا کہ کیا ایسا کارنامہ ہے اس کا جس کی وجہ سے وہ عظیم تھا تو کچھ گھبرائے سر گھجانے لگے اور فرمایا کہ وہ سعودی عرب اور باقی امیر اسلامی ممالک کے ساتھ مل کر ایک کرنسی بنانے لگا تھا جس سے ڈالر کا مقابلہ کیا جانا تھا میں نے کہا کہ، اچھا! لیکن ایسا ہوا نہیں تو پھر عظیم کیسے؟ کچھ جواب نہ بن سکا تو میں نے ایک اور سوال پوچھا کہ بینظیر کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے تو فرمایا عظیم عورت تھی کارنامہ پوچھا تو جواب ندارد….
اب میں نے سوال کیا کہ زرداری کے بارے میں کیا رائے ہے تو ابلاغ کا سمندر پھوٹا اور انہوں نے وہ تمام قصے جو میں نے اوپر درج کیے ہیں فر فر سنائے اور میرا منہ بند کر دیا…
میں انکی تقریر سنتا رہا اور دل ہی دل میں یہ سوچتا رہا کہ کاش میں آپ کو یہ سمجھا سکتا کہ کیوں ہر مارشل لاء کے بعد حکومت پیپلزپارٹی کو دی جاتی ہے؟ جب جب ملک فریکچر ہوتا ہے مرہم پیپلزپارٹی کے لوگوں سے ہی کیوں ملتا ہے چاہے وہ 1970 کا پاکستان ہو، چاہے 1988 کا یا پھر 2008 کا؟ کاش میں آپ کو سمجھا سکوں کہ اٹھارویں ترمیم کیا ہے؟ میں اکثر سوچتا ہوں کہ ایک ایسی پارٹی کہ جس کو دو بار صدر کی کرسی پر بیٹھے ہوئے شخص نے برطرف کیا ہو اس کا سربراہ صدر بننے کے بعد اپنے سارے اختیارات پارلیمنٹ کو دے دے تو وہ کس سطح کی جمہوریت پر یقین رکھتا ہو گا؟؟ کاش ہمارے لوگوں کو یہ سمجھ آ سکے کہ صوبائی خود مختاری کیا ہوتی ہے اور وہ عوام کے لیے کتنی فائدہ مند ہوتی ہے؟؟ میری رائے میں یہ دو کام زرداری کی حکومت نے ایسے کیے ہیں کہ وہ بھٹو صاحب اور بینظیر کی دونوں حکومتوں میں ہونے والے کُل کاموں سے بڑے ہیں.
ایک ایسا آدمی کہ جس کی زندگی کے گولڈن گیارہ سال جیل کی نظر ان کیسز کو بھگتتے ہوئے برباد ہوگئے جو نہ کبھی ثابت ہوئے نہ ہی ان گیارہ سالوں کی کسی نے اس سے آج تک معافی مانگی، اس آدمی نے اقتدار میں آنے کے بعد نہ تو کسی سے بدلہ لیا اور نہ ہی کسی کے خلاف گندی باتیں کیں.. گیلانی کو مزاحیہ انداز میں برطرف کیا گیا مجال ہے کہ کوئی سڑکوں پر نکلا ہو، کسی نے پوچھا ہو کہ کیوں نکالا؟ گورنر کو مار دیا گیا مجال ہے کہ کوئی سیاسی گرفتاریاں ہوئی ہوں، ایران پاکستان گیس پائپ لائن اور سی پیک کی پیش رفت کیا گنیں یہاں تو میمو گیٹ اور افتخار چوہدری ہی نہیں جینے دیتے تھے، اور رہی سہی کسر میڈیا پوری کرتا رہا کچھ اینکرز ہر روز زرداری کی حکومت ختم کر کے اٹھتے تھے کیا مجال کہ آج کسی کو یاد بھی ہو کہ زرداری ہی تھا کہ جس کی حکومت نے نیٹو فورسز کی سپلائی نو مہینے تک بند رکھی اور اعلانیہ بند رکھی. میں آج بینظیر کو صرف اس لیے بہت مس کرتا ہوں کیونکہ ان کے جانے سے سیاست بلکل بے توقیر ہوگئی ہے آج کے ہمارے وزیراعظم سیاسی منظر نامے پر کہیں بھی نہیں تھے جب تک بی بی زندہ تھیں کہیں عمران خان نامی آدمی کا وجود تک نہیں تھا بینظیر کی موت کی سب سے بڑی بینفشری ہماری اسٹیبلشمنٹ ہے کہ جہاں انہوں نے اس ملک میں موجود واحد سیاسی شعور رکھنے والی آواز کو دبا دیا وہیں دوسری طرف اپنے مہروں کی اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کو ممکن بنایا جو اس عورت کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں تھا آج مجھے عبرت ملتی ہے جب میں اُس کمانڈو کو دیکھتا ہوں کہ جو کبھی مکے لہرایا کرتا تھا آج پارکنسن کی بیماری کا بہانہ بنا کر ملک سے باہر صرف اس لیے بیٹھا ہے کہ کہیں کیسز کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے اور وہ جو کل تک اس کو سو بار وردی میں منتخب کرانے پر تُلے ہوئے تھے آج عمران خان کو پاگل بنا رہے ہیں.
میں جانتا ہوں کہ یہ آرٹیکل بہت سے احباب کو اچھا نہیں لگے گا لیکن میں نے صرف ڈی جی آئی ایس پی آر کے حکم کی تعمیل میں لکھا ہے کسی کی تعریف اور کسی کی دل آزاری قطعاً مقصود نہیں ہے
فیس بک کمینٹ