بچپن میں نقش ہوئی چیزیں ساری عمر دماغ پر سوار رہتی ہیں بچپن سے میں جب بھی لفظ چئیرمین سنتا ہوں تو دماغ میں دو شخصیات ابھرتی ہیں ایک چئیرمین ماؤ اور دوسرے آپ کے نانا ۔۔ اور اب اگر کسی کو چئیرمین کہنے کو دل کرتا ہے تو وہ آپ ہیں۔۔
آپ ایک عظیم ورثے کے وارث ہیں ایک عظیم سیاسی ورثہ لیکن چئیرمین عظمت ذمہ داری کا تقاضا کرتی ہے ۔جہاں ایک طرف لوگ آپ سے آپ کے عظیم الشان بزرگوں کی وجہ سے والہانہ محبت و عقیدت کا اظہار کرتے ہیں وہیں دوسری طرف لوگ آپ کے اندر کہیں ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو بھی تلاش کر رہے ہوتے ہیں کہ بی بی کا بیٹا اور بھٹو کا نواسہ ہمارے حقوق کی جنگ اسی طرح لڑے گا جس طرح اس کے نانا اور اسکی ماں لڑتے تھے۔
چئیرمین میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ جس پارٹی کے چیئرمین ہیں وہ پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے۔۔ میرا ماننا ہے کہ پاکستان میں پیپلز پارٹی کے علاوہ اور کوئی سیاسی جماعت وجود نہیں رکھتی ۔پاکستان میں دو جماعتیں ہیں ایک پیپلزپارٹی اور باقی ساری اینٹی پیپلزپارٹی باقی ہر جماعت کو کسی نہ کسی زمانے میں کسی نہ کسی نے صرف اس لیے لانچ کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کو قابو کیا جاسکے ،چاہے وہ نواز شریف ہوں، الطاف حسین ہوں یا عمران خان ۔جہاں ایک طرف ان احباب میں کئی مماثلتیں ہیں وہیں ان میں ایک بات اور مشترک ہے کہ ان سب کی سیاسی پیدائش کسی نہ کسی غیر سیاسی و غیر جمہوری قوت کی مرہونِ منت ہے ، ان میں سے کوئی بھی فطری سیاست دان نہیں ہے۔ (شاید لوگ عمران خان کے نام پر اعتراض کریں تو ان دوستوں کو ایدھی صاحب کا وہ انٹرویو سننا چاہیے جس میں وہ بتا رہے ہیں کہ کس طرح ایک بار ان سے جنرل حمید گل مرحوم اور عمران خان نے رابطہ کیا اور بینظیر بھٹو کی حکومت کو گرانے کے لیے انکی حمایت مانگی گئی اور جب انہوں نے انکار کیا تو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں)
چیئرمین میں یہاں ایک بات کا اقرار کرنا چاہتا ہوں کہ میں 2013 کے انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی کا سپورٹر تھا مجھے عمران خان ایک چینج ایجنٹ محسوس ہوتے تھے مجھے لگتا تھا کہ یہ آدمی میری بات کر رہا ہے مجھے ان گالیوں، اور دھمکیوں میں جو وہ دیا کرتے تھے اپنا وہ غصہ نظر آتا تھا جو میرے دل میں آج کہیں زیادہ شدت سے کھول رہا ہے، لیکن میرے ساتھ ایک بار پھر دھوکہ ہوا وہ عمران خان جو مجھے چینج ایجنٹ لگتا تھا اس وقت ایک بونا لگا جب وہ امپائر کے اشارے کا منتظر تھا، میں نے اس کو کنٹینر پر کھڑے بجلی کے بل جلاتے دیکھا، میں نے سنا کہ وہ کہہ رہا تھا کہ ٹول ٹیکس نہ دو، بینکوں سے لین دین نہ کرو، پیسہ ہنڈی کے ذریعہ سے منگاؤ جب یہ سب سنا تو سوچا کہ کیا ایک جمہوریت پر یقین رکھنے والا لیڈر انارکی پھیلانے کی دعوت بھی دے سکتا ہے؟ کیا کوئی پاکستان کا ہمدرد پاکستانی سماج کو مفلوج کرنے کا بھی سوچ سکتا ہے؟ ایک ایسا شخص کہ جس کو یہ سمجھ نہ ہو کہ واپڈا کو نقصان پہنچانا ایک ادارے کا نقصان ہے نہ کہ نواز شریف کا، وہ کیسے نجات دہندہ ہو سکتا ہے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تم مطالبہ کیا لے کر اٹھے ہو کہ اگر یہ چار حلقے نہ کھولے گئے تو ہم نظام نہیں چلنے دیں گے؟ سوال تو یہ ہے کہ اگر وہ چار حلقے عمران خان جیت بھی لیتے تو کیا نظام پر کوئی فرق پڑتا؟ کیا حکومت گر جاتی؟ کیا پاکستان کا ایلیکٹورل سسٹم ٹھیک ہو جاتا؟ کیا عمران خان کا مطالبہ ان لوگوں کی نشاندہی کرسکتا تھا کہ جو انتخابات کی دھاندلی کے اصل محرکات تھے یا ہیں؟ (جن کی نشاندہی خود عمران خان ماضی میں کئی بار کر چکے ہیں) میں اُس وقت بھی اپنے دوستوں سے یہ پوچھا کرتا تھا کہ کیا ہمارا سب سے بڑا مسئلہ دھاندلی ہے؟ کیوں کوئی سیاسی لیڈر اس لیے دھرنا نہیں دیتا کہ بجلی، گیس کی قیمتوں میں کمی کی جائے۔ مہنگائی کم کی جائے، صحت اور تعلیم مفت کی جائے، پینے کے صاف پانی اور خوراک تک لوگوں کی رسائی کو آسان بنایا جائے۔ لیکن شاید یہ مسائل عوام کے ہیں لیڈروں کے نہیں اس لیے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے وہ کبھی کوئی زحمت گوارا نہیں کرتے۔
میں اکثر یہ سوچ کر حیران ہوا کرتا ہوں کہ کس طرح لوگوں کو راتوں رات لیڈر بنا دیا جاتا ہے اور اس ملک کے ہزاروں لوگ انکو نجات دہندہ مان لیتے ہیں اور پھر کس طرح ان لوگوں کو غدار منوا لیا جاتا ہے؟ مجھے وہ وقت بھی یاد ہے کہ میں اپنے بہنوئی کے ساتھ کراچی کے علاقے گلستان جوہر کے ایک چائے کے ڈھابے پر بیٹھا چائے پی رہا تھا کہ اچانک میرے منہ سے الطاف بھائی کی شان میں چھوٹی سی گستاخی سرزد ہوئی تو میرے بہنوئی کے چہرے پر ابھرے پریشانی اور گھبراہٹ کے تاثرات نے مجھے یہ سمجھا دیا کہ دوبارہ یہ حرکت بہت مہنگی پڑ سکتی ہے، لیکن میں آج دیکھتا ہوں کہ الطاف بھائی ایک غدار ہیں اور لوگ مانتے بھی ہیں..
چئیرمین میں تو نہیں پوچھ سکتا لیکن کیا آپ کے دماغ میں یہ سوال نہیں ابھرتا کہ جو آج غدار ثابت ہوا ہے کل تک اتنا اختیار اس کو کن قوتوں نے دیا ہوا تھا؟ مجھے یقین ہے کہ آپ کو معلوم ہوگا کہ پاکستان کی تقدیر کےفیصلے کون کرتا ہے ۔کیا آپ نے ان سے کبھی نہیں پوچھا کہ لیڈر بنانے کا آپ کا معیار کیا ہے؟ کوئی پڑھا لکھا کاریگر آدمی آپ لوگوں کو کیوں پسند نہیں آتا؟ آپکی پالیسیاں اتنی گھٹیا کیوں ہیں کہ انکو نافذ کرانے کے لئے آپکو ہر بار ایک بونا ہی چاہیے ہوتا ہے؟ کیوں ہر فیصلہ آپ مذہبی بنیادوں پر کرتے ہیں؟ کیوں آپ ایک ماہرِ معاشیات کے مذہبی عقائد کو ہی ٹٹولتے رہ جاتے ہیں؟ کیوں آپ اس ملک کے لوگوں کو ہر وقت نان ایشوز میں الجھائے رکھتے ہیں؟ کیوں آپ نے تعلیم کے نام پر اس ملک کے لوگوں کو گھٹیا پراپیگنڈہ پڑھایا ہے؟ آپ آج اس ملک کے بچوں کو یہ تو بتاتے ہیں کہ بنگلہ دیش ہمارا ایک ہمسایہ ملک ہے لیکن آپ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ کبھی وہ مشرقی پاکستان تھا اور کیوں الگ ہوا؟
چئیرمین مجھے یہ لگتا ہے کہ شاید آپ بھی اتنے ہی مجبور ہیں جتنا کہ میں اور شاید زیادہ ہی مجبور کیوں کہ آپکی زندگی کو خطرہ بھی تو زیادہ ہے
چئیرمین آپ اور آپ کی بہنیں میرے لیے آنے والے اچھے کل کی امید ہیں میں کسی سڑسٹھ سال کے بڈھے کو یوتھ کا لیڈر نہیں مان سکتا اسٹیبلشمنٹ کے کسی پراجیکٹ میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن جب میں آپ کو دیکھتا ہوں تو مجھے یہ لگتا ہے کہ آپ بھی شاید میرے یعنی آج 2018 کے نوجوان کے مسائل سے اس طرح کی آگہی نہیں رکھتے کہ جس کی ضرورت ہے ۔مجھے کوفت ہوتی ہے کہ جب میں آپ کو کسی جلسے میں روٹی اور نان کی قیمتوں پر شور مچاتے دیکھتا ہوں چئیرمین میں آپکو بتانا چاہتا ہوں کہ معاملات روٹی، کپڑا اور مکان سے بہت آگے جا چکے ہیں۔ 4 اپریل 2019 میں آپ کے نانا کو دنیا سے گئے چالیس سال ہوجائیں گے آج کی دنیا Artificial Intelligence کی باتیں کر رہی ہے deep learning, big data, string theory ڈسکس ہو رہی ہے Mars Mission کی تیاری عروج پر ہے برائلر مرغی ایجاد ہو کر پرانی ہوگئی ہے۔ مصنوعی انڈے اور سبزیاں اور پھل روٹین کی باتیں ہیں، مواصلات کا عالم یہ ہے کہ ہر کسی کے پاس اخبار چھاپنے اور لائیو جانے کے ذرائع اس کے فون میں موجود ہیں اس زمانے میں کہ جب آپ کے ہاتھ پر بندھی گھڑی آپ کو آپ کا بلڈ پریشر، ہارٹ بیٹ اور نہ جانے کیا کیا بتاتی ہو ایسے وقت میں اگر ایک نوجوان جو کہ آکسفورڈ گریجویٹ ہو یہ کہتے سنتا ہوں کہ دس کی روٹی پندرہ کا نان تو مجھے کوفت ہوتی ہے ۔میں سوچتا ہوں کہ ہماری قیادت کا اجتماعی فہم کہاں پھنس کر رہ گیا ہے کیونکہ اسی قسم کی سطحی باتیں میاں نواز شریف اور عمران خان بھی کیا کرتے ہیں۔
چئیرمین یہ 1970 کی دہائی نہیں ہے یہ وہ زمانہ ہے کہ جس کی سمت ایک سٹیوجوبز اور ایک بل گیٹس نے تبدیل کردی ہے یہ وہ زمانہ ہے کہ ایک مارک زوگر برگ کچھ نہ بیچ کر بھی دس سالوں میں دنیا کے پہلے دس امیر لوگوں میں شامل ہوگیا ہے ایسے وقت میں چالیس سال پرانے نعرے آپ کو کہیں نہیں پہنچا پائیں گے۔
چیئرمین اجتہاد کی ضرورت پرانی حساسیت نئے مسائل کا حل نہیں ہے آج کسی کو یہ بات یاد نہیں ہے کہ بھٹو صاحب نے نوے ہزار فوجی رہا کرائے تھے، ہاں لوگ یہ مانتے ہیں کہ بھٹو نے پاکستان توڑا، لوگوں کو شاید یہ معلوم بھی نہیں کہ 1973 کا آئین کس نے بنایا ۔ہاں یہ معلوم ہے کہ بھٹو کا ایک سگار پانچ ہزار کا ہوتا تھا، چئیرمین ایک کڑوا سچ یہ بھی ہے کہ اگر بھٹو صاحب کی موت اس طرح نہ ہوئی ہوتی جیسے ہوئی تو شاید آج وہ پاکستان کے سب سے بڑے غدار مانے جاتے ۔یہ تو اس انجام نے ان کو اس لیبل سے بچا لیا ورنہ بارہ مصالحے تیار تھے۔۔
چئیرمین میں آپ کو ایک متبادل نہیں واحد قیادت کے طور پر دیکھتا ہوں میرے نزدیک آپ اور آپ کی بہنوں کے علاوہ جتنے بھی لوگ ہیں وہ سیاسی قائدین نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے مختلف پراجیکٹس ہیں لیکن آپ سے لگی امیدیں ہی آپ کا اصل امتحان ہیں آپ نے جہاں بہت کچھ اپنے نانا اور والدہ سے ورثے میں لیا ہے وہیں آپ نے اپنے والد سے ورثے میں ایک چیز لی ہے اور وہ ہے آپ کے خلاف ہونے والا وہ پراپیگنڈا جو آپکی والدہ کی شہادت کے دن سے آپ کے خلاف ہو رہا ہے۔ چئیرمین اس ملک کا میڈیا پنجاب سنٹرک طالبانی مائند سیٹ کا حامی اور بینفشری ہے یہ کبھی ان باتوں اور نظریات کی حمایت نہیں کرتا جو پنجاب اور طالبان کے خلاف ہو (پنجاب کی مخالفت سے مراد یہاں کی اپر پنجاب کی اشرافیہ کی مخالفت ہے) نہ کبھی انہوں نے دل سے بھٹو صاحب کو قبول کیا نہ شیخ مجیب کو نہ باچا خان کو نہ ہی اکبر بکٹی کو اسی طرح انہوں نے نہ تو کبھی آصف زرداری کو لیڈر مانا ہے نہ ہی کبھی آپ کو مانیں گے ان کا کام اس دن سے شروع ہوگیا تھا جب آپ سیاسی افق پر نمودار ہوئے تھے وہ قوم جو ہر دوسری بات پر مغرب کی مثالیں دیتی ہے اس کو آپ کے اور آپ کی والدہ کے اردو لہجے پر اعتراض رہا، وہ ملک کہ جس میں دو فیصد لوگ بھی نستعلیق اردو بول، لکھ اور سمجھ نہیں سکتے وہاں اعتراض ہوتا ہے تو آپ کے اردو تلفّظ پر، چیئرمین اگر آپ نے یہاں رہنا اور سیاست کرنی ہے (کہ جہاں ہر کسی کا کُل فوکس تھر میں مرتے ہوئے بچے ہیں) تو آپ کو اپنا لائن آف ایکشن تبدیل کرنا ہوگا۔ میں ایک بات پورے وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ یوتھ جو آج عمران خان پر نہال ہوئی جاتی ہے کل عمران خان کو ایک ایک گز کی گالیاں دے گی ۔میرے اس بات پر وثوق کی دو وجوہات ہیں ایک تو جنابِ وزیراعظم خود ہیں کہ انکو دشمن کی ضرورت ہی نہیں ہے اور دوسری طرف یہ ڈائریکشن لس، شیلو اور اے پولیٹیکل یوتھ ہے کہ ایک بے سروپا ہجوم ہے جو ہر روز دیکھنے کو نیا تماشا اور مداری مانگتا ہے انکا فوکس سپیم بہت کم ہے یہ بھی عمران خان کی طرح جلد ہی کھلونوں سے اکتا جاتے ہیں ۔میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ کل کو جب اسٹیبلشمنٹ عمران کو نشانِ عبرت بنا رہی ہوگی تو میں اور مجھ جیسے اس کی حمایت کر رہے ہوں گے اور ہونے والی زیادتی پر احتجاج بھی لیکن یہ یوتھ اس کو گالیاں دے رہی ہوگی ۔میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ جب یہ مایوس ہوں گے تو ان کے پاس سوائے آپ اور آپ کی بہنوں کے کوئی قیادت میسر نہیں ہونی چاہیے لہذا تیاری کیجئے اور ایک متبادل قیادت کے بجائے ایک واحد قیادت کے طور پر خود کو پیش کیجیے اور ایسا صرف تب ممکن ہے کہ جب نئے مسائل کو آپ نئے زاویے اور نئے بیانیے سے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔
فیس بک کمینٹ