آج ستائیس اکتوبر ہے اور مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ متحرک ہونا ہے لیکن شطرنج کی بساط پر مہروں کی پوزیشن بہت دلچسپ ہے، جس دن سے دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں نے مولانا کی حمایت کا اعلان کیا ہے تب سے تحریک انصاف کے لوگ ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ یہ ان دونو پارٹیوں کی "ابو بچاؤ مہم” ہے مریم اور بلاول دونوں اپنے اپنے والد کو بچانے کے لیے اس مارچ کی حمایت کر رہے ہیں جبکہ دونوں پارٹیوں کا موقف یہ ہے کہ ہم اس حکومت کو سلیکٹڈ مانتے ہیں اور یہ نا اہل بھی ہیں تو ہم ان کو نہیں چلنے دیں گے
ایک بات تو واضح ہے کہ مولانا کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہے اور انکا کچھ بھی داؤ پر نہیں لگا ہوا کہ جس کے جانے کا ان کو ڈر ہو جبکہ یہ دونوں پارٹیاں گورنمنٹ ان لائن ہیں کہ کسی بھی وقت ان میں سے کسی کی بھی حکومت قائم ہو سکتی ہے لہذا ان کے پاس نقصان کرنے کو بہت کچھ ہے میاں نواز شریف اور آصف زرداری دونوں کی طبیعت خراب ہے اور رپورٹس کے مطابق بیماری سنجیدہ نوعیت کی ہے اور اسلام آباد اور لندن کے حلقے میاں نواز شریف کے لندن جانے کی باتیں کر رہے ہیں، اطلاع یہ بھی ہے کہ خان صاحب خود یہی چاہتے ہیں کہ یہ دونوں لوگ باہر چلے جائیں تاکہ انکی حکومت پر سے انکے علاج کی ذمہ داری ختم ہو لیکن سوال یہ ہے کہ وہ میاں نواز شریف کہ جن کا موقف آزادی مارچ کو لے کہ یہ تھا کہ اس میں بھرپور شرکت کرنی ہے اب بھی اسُی موقف پر قائم رہیں گے یا اس میں لچک پیدا ہو گی؟ اور اگر میاں نواز شریف کے باہر جانے سے پہلے مولانا مارچ شروع کر دیتے ہیں تو کیا میاں شہباز شریف اور دوسرے رہنما میاں نواز شریف کی تیمارداری کے ساتھ ساتھ مارچ کو موثر بنا سکیں گے کہ نہیں؟
کل رات اے آر وائی کے صابر شاکر نے ایک اطلاع کے مطابق نو اور ایک کے مطابق سات ارب ڈالر کی ڈیل کا انکشاف کیا ہے کہ جس میں انکا دعویٰ ہے کہ میاں نواز شریف نو یا سات ارب ڈالر دینے پر راضی ہو گئے ہیں.. یہ ایک ایسا دعویٰ ہے کہ جس سے ہر دو صورتوں میں صرف تحریک انصاف کی حکومت کی مشکلات بڑھیں گی کیونکہ اگر یہ جھوٹ ہے تو یہ صابر شاکر صاحب کی اپنی ساکھ کے لیے بہت نقصان دہ ہے چلو اگر ہم یہ بھی مان لیں کہ ساکھ تو انکی پہلے سے ہی ایکسیڈنٹڈ ہے تو بھی یہ بات تو انکے لیے قانونی کارروائی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ کل ہی عدالت نے پانچ صحافیوں جن میں حامد میر، سمیع ابراہیم، محمد مالک، عامر متین اور کاشف عباسی کے نام ہیں کو طلب کیا اور ان سے سخت پوچھ پرتیت کی گئی کہ کس طرح آپ لوگوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ڈیل ہو چکی ہے، عدلیہ نے اس پر چیئرمین پیمرا سمیت دیگر پانچ اینکر پرسنز کو عدالت طلب کرکے یہ پوچھا کہ ڈیل کہاں ہوئی ہے؟
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر میاں نواز شریف نے سات ارب ڈالر ہی دینے تھے تو اتنے دن اندر رہ کر طبیعت خراب کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اب جبکہ میاں صاحب قوم کی ہمدردی کے بھی حقدار ٹھہر رہے ہیں تو اب کیا ضرورت باقی بچی ہے کہ وہ پیسوں کی ڈیل کریں، بقول زرداری کے کہ بھائی میں تو سات ڈالر کسی کو نہ دوں آپ سات ارب ڈالر کی بات کر رہے ہیں اتنا تو IMF نہیں دے رہا اور بالفرض ہم یہ مان لیں کہ میاں صاحب یہ پیسے دے رہے ہیں تو پھر تو قوم تک اسکا فوری ثمر پہنچنا چاہیے اور مہنگائی فوری طور پر کم ہونی چاہیے کیونکہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو حکومت پر خوب سب و شتم ہوگا اور ن لیگ اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو پوائنٹ سکورنگ کا بھو پور موقع ملے گا.
اب آتے ہیں ایک اور دلچسپ معاملے کی جانب کل ہی پیمرا نے ایک اور نوٹس بھی جاری کیا کہ حافظ حمد اللہ جو کہ مولانا فضل الرحمن کی پارٹی کے ایک سینئر رہنما ہیں کو اب کسی بھی پروگرام یا لائیو شو کا حصہ نہ بنایا جائے کیونکہ وہ پاکستان کے شہری نہیں ہیں وہ غیرملکی ہیں یاد رہے کہ حافظ حمد اللہ سینیٹ کے رکن رہے ہیں اور اب یہ انکشاف ہو رہا ہے کہ وہ ایک غیرملکی ہیں کیا یہ معاملہ بذات خود ایک قابلِ تحقیق مژدہ نہیں ہے کہ جس کی انکوائری ہونی چاہیے؟؟ یہ بات کہ حمد اللہ کی شہریت چیک ہونی چاہیے سب سے پہلے معروف انسانی حقوق کی کارکن ماروی سرمد نے 2016 میں تب کی تھی کہ جب حافظ حمد اللہ نے انکے ساتھ ایک لائیو شو میں بدتمیزی کی تمام حدیں پار کر دی تھیں اسکے بعد ماروی سرمد نے ایک ٹوئیٹ میں یہ کہا تھا کہ ان صاحب کی شہریت کی کھوج ہونی چاہیے انہوں اپنے ٹوئیٹ میں یہ لکھا تھا کہ یہ صاحب اسی کی دہائی میں پاکستان آئے تھے یہ افغان ہیں اور آج یہ سینیٹر کیسے بن گئے ہیں؟ آج یہ سننے میں آرہا ہے کہ نادرا نے انکو جاری کردہ کارڈ بھی منسوخ کر دیا ہے.
یہاں اب دو تین سوال ہیں کہ کیا جو بات تین سال پہلے ماروی جانتی تھیں کیا وہ بات ہماری انٹیلیجنس ایجنسیاں نہیں جانتی؟؟ کیا نادرا اور دوسرے ادارے اتنے سست ہیں کہ ایک معروف سماجی کارکن کے توجہ دلانے پر بھی وہ ذرا سی یہ زحمت نہیں کرتے کہ معاملہ کی تحقیق ہی کر لیں؟ اور اب جبکہ مارچ کے شروع ہونے میں ایک دن رہ گیا ہے تو حافظ صاحب نے ایسا کون سا غیر قانونی کام کر دیا ہے کہ جس کی بنیاد پر یہ سامنے آگیا کہ وہ غیرملکی ہیں؟؟ اسی طرح ایک مبینہ ملاقات مولانا فضل الرحمن اور آرمی چیف کی بھی ہے کہ جس میں اطلاعات کے مطابق دونوں کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی اور مولانا فضل الرحمن نے انکو بھی صاف صاف جوابات دیے ہیں
ان تمام باتوں کے ساتھ جو بات جواب طلب ہے وہ یہ کہ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی رہائی کے بعد مارچ کی کیا صورتحال بنے گی میری رائے میں مارچ کو ان رہائیوں سے نقصان پہنچا ہے اگر عمران خان میاں نواز شریف کی عیادت کرنے چلے جاتے ہیں تو شاید برف مزید پگھل جائے لیکن عمران خان کی روایتی رعونت شاید انکو یہ نہ کرنے دے مجھے یہ لگتا ہے کہ شاید مولانا کا کام یہیں تک تھا کیونکہ عمران خان جیسے شخص کے لہجے میں نرمی کسی انسانی ہمدردی کا پیش خیمہ نہیں ہوسکتی، حکومتی رویے سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ شاید طاقت والے سب کو ایک موقع دے رہے ہیں کہ ہر کوئی اپنی اپنی فیس سیونگ کر لے، میاں صاحب باہر چلے جائیں، عمران انکو اس لیے جانے دے کیونکہ وہ بیمار ہیں، مولانا آئیں اسلام آباد جلسہ کریں اور گھر جائیں اس طرح کہ ہر کسی کی بات بھی پوری ہوجائے اور کسی کا نہ فائدہ ہو نہ نقصان ویسے بھی اردو پڑھنے لکھنے والوں کے لیے تو بات بہت آسان ہو جاتی ہے کہ جب ہم یہ کہہ کہتے ہیں کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں…..