پاکستان اور ہندوستان کے بارڈر پر کھڑے سپاہیوں کی ٹانگیں اٹھا اٹھا کر زمین پر پٹخنے کی ویڈیوز تو ہم نے دیکھ رکھی ہیں اور شاید ہی کوئی اس سے متاثر ہوتا ہو بشرطیکہ کہ اس کا کسی دماغ کے ڈاکٹر سے علاج نہ چل رہا ہو…..
اسی طرح WWF کی نورا کشتیاں اس وقت بہت مشہور تھیں کہ جب یہاں دو یا تین ٹی وی چینل ہوتے تھے، رات میں نجی چینل سے ایک گھنٹے کی WWF کی ریسلنگ دکھائی جاتی تھی اور وہ مرد کہ جن کا معاملہ ” گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے” والا تھا بڑے جذباتی ہو کر ان کو دیکھا کرتے اور ساتھ ہی رننگ کمنٹری بھی کرتے تھے "ابے اٹھا کر پٹخ سالے کو” اس کی کمر میں ہاتھ ڈال” وغیرہ وغیرہ…..
ہم لڑکوں میں ایک اصول ہے کہ اگر اپنا کوئی دوست کسی ایسی صورتحال میں پھنس جائے کہ وہاں پبلک سے مار پڑنے کے امکانات واضح ہوں تو دوست ہی سب سے پہلے پٹائی شروع کرتے ہیں اور پبلک کو کہا جاتا ہے کہ "چھڈ دیو اج اینوں اسی مار ای چھڈنا اے” یہ کہتے ہوئے اسے گریباں سے پکڑ کر پبلک کے درمیان سے نکالا جاتا ہے…..
اگر کسی کے پیسے دینے ہوں یا کوئی ایسا آپ کے پاس آ دھمکا ہو کہ جس کے بارے میں شک یا یقین ہو کہ پیسے مانگے گا تو اس کا حل یہ ہے کہ پیسوں کی بات سے پہلے ہی وہ فساد کھڑا کیا جائے کہ اصل بات تو کہیں دب کے رہ جائے اس کے لیے آپ کے پہلو میں ایک "کن ٹٹا” ازحد ضروری ہے کہ جو ضرورت پڑنے پر ہاتھ چھوڑنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو، اس سے پہلے کہ بات پیسوں تک پہنچے وہ کلیش مچایا جائے کہ بات سنبھل ہی نہ سکے اور وہ جو پیسے اور امداد کے لیے آیا تھا اس کو کھانا بھی نہ کھلانا پڑے…..
اگر آپ کسی کو کسی چیز کا آڈر دے بیٹھے ہوں ایڈوانس بھی جمع کروادیا ہو لیکن اب اس چیز کو لینا یا تو مشکل ہو یا ضرورت نہ ہو یا کہیں اور سے سستی مل رہی ہو تو اس کا ایک ہی حل ہے "فساد” اور "فساد بھی وہ کہ جس کی کسی قسم کی کوئی تٌک نہ بن رہی ہو اور وہ اسٌ وقت تک کیا جائے جب تک اس ڈیل کی ماں بہن ایک نہ ہو جائے…..
اگر آپ کسی گھر میں رشتہ بھیج بیٹھے ہوں یا رشتے کی ہاں کر چکے ہوں اور اب آپ نے وہ رشتہ ختم کرنا ہو تو اس کا حل ہے؟؟ "الزامات” لڑکی کی چال سے ماں کی شال تک اس کے چلن سے پھپھو کی جلن تک سب اسی جنگ کے ہتھیار ہیں اور سب استعمال کرنے کے ہیں…..
کسی کا گھر ہو اس نے کرایہ دار کو نکالنا ہو یا کسی اور کو دینا ہو تو اسکا کیا حل ہے؟؟ اہل محلہ تم سے بہت تنگ ہیں، گلی کے گٹر تمہاری وجہ سے بند ہیں، تم اتنے گندے ہو کہ میونسپلٹی نے تمہاری وجہ سے گلی میں آنا بند کر دیا ہے،
یہ تو میں ہوں کہ جس نے تمہیں یہاں رہنے دیا ورنہ تمہیں تو کوئی دو ہفتے نہ رکھے، لیکن اگر کرایہ دار یہ طعنہ بھی صرف اس لیے برداشت کر لے کہ اس وقت کہاں مکان ڈھونڈتا پھروں گا تو اس کے حال حلیے پر اتر آنا گھٹیا ترین ٹوٹکوں کی دنیا میں اپنا الگ ہی مقام رکھتا ہے کہ تمہیں تو کپڑے پہننے کی تمیز بھی نہیں ہے… یہاں سے سامنے والے کے دماغ میں بے عزتی کی وہ نفسیاتی حد کراس ہو جاتی ہے جو اسکے اعتماد کی دھجیاں بکھیر دینے کو بہت ہے…..
یہ سارے مناظر اگر آپ نے ایک جگہ دیکھنے ہوں تو دس منٹ کی ایک ویڈیو ہے جو امریکہ کے وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ایک میٹنگ جو کے امریکی صدر ٹرمپ، یوکرین کے صدر زیلینسکی اور امریکی نائب صدر وینس کے درمیان ہوئی میں پوری شدت سے دیکھے جا سکتے ہیں کیا محلے کی عورتیں، بازار کے مرد، موت کے کنویں کے خواجہ سرا، سکول مدرسے کے بچے، ہیرا منڈی کے بروکر، بسوں کے کنڈکٹر، پاکستان کے ووٹر آپس میں لڑتے ہونگے جو یہ صدرو آپس میں لڑے…..
معاملہ کٌل ملا کر یہ ہے کہ امریکہ اور روس نے نوے کی دہائی کے شروع میں ختم ہونے والی کولڈ وار کو ایک ٹائم پاس افیئر میں بدلنے کی ٹھان لی ہے فارمولہ سمپل ہے "یوکرائن روس کا” اور "عزہ امریکہ کا” رہ گئی "ریئر ارتھ منرلز ڈیل” تو وہ زیلینسکی سے کیوں کریں وہ ہم پوٹن سے کر لیں گے؟؟
سب سے بڑا لطیفہ تو یہ تھا کہ جب ٹرمپ نے زیلینسکی کو کہا کہ تم "ورلڈ وار تھری” کرانا چاہتے ہو مطلب وہ ملک کہ جس کے ایما و آسرے پر یوکرائن جنگ شروع ہوئی جس کے سہارے اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں ابھی ستر ہزار لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا، وہ امریکہ کہ جو دنیا کے کرائم ویل کا ایکسل ہے، اس کا ایک نیم انسان نما صدر ایک شدید مار کھائے ملک کے صدر کی نقلیں اتار اتار کر کہہ رہا تھا کہ تم سیز فائر نہیں چاہتے،
تم تیسری جنگِ عظیم کا جوا کھیل رہے ہو،
اگر ہم نہ ہوتے تو تم یہ جنگ دو ہفتے میں ہار جاتے،
تمہارے پاس کھیلنے کو کارڈ نہیں ہیں،
صرف ہم ہیں کہ جو تمہیں ایک ٹھیک ٹھاک ایگزٹ پلان دے سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ اس سب کے دوران اس بد مست مخبوط الحواس کا ایک نائب ہے جو بے سروپا باتیں صرف اس لیے کیے جا رہا ہے کہ اس کو اپنی نوکری پکی کرنی ہے…..
مجھے اس سب پر کچھ نہیں کہنا کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ جن جنونیوں کی مدد سے ٹرمپ اقتدار میں آئے ہیں وہاں سے آج تک کوئی خیر برآمد نہیں ہوئی مریخ پر بستیاں آباد کرنے والے اس سیارے سے کسی بھی قسم کا معاہدہ نہیں کرنے لگے، ایلون مسک جین کی پینٹ اور ٹی شرٹ پہن کر اوول آفس میں بیٹھا رہے، اسکا بیٹا وہاں بیٹھ کر فرنیچر خراب کرتا رہے، لیکن اگر کوئی طعنہ ہے تو وہ یوکرین کے سربراہ کے لیے ہے کہ تم سوٹ پہن کر کیوں نہیں آئے؟؟ یہی رائٹ کی اینٹی لبرل پالیسی ہی تو ہمارے تحریک انصاف کے بھائیوں کے لیے تشفی کا باعث تھی کہ ٹرمپ آ کر عمران خان کی رہائی کے لیے اقدام کرے گا (جو بعید از قیاس بھی نہیں ہے) اور ویسے بھی اگر گریٹر اسرائیل بنانے کے لیے یورپ اور روس کے درمیان ایک بفر اسٹیٹ کے کچھ علاقوں کی قربانی دینی بھی پڑے تو کیا حرج ہے….
ٹرمپ کے تیور یہ بتا رہے ہیں کہ امریکہ اب جمہوری کی بجائے ایک ایسی ریاست کا روپ لے گا جس میں صرف ایک چیز مقدم ہو گی اور وہ ہے ان فنانشل جائنٹس کا مفاد جنہوں نے ٹرمپ کے الیکشن پر سرمایہ کاری کی ہے….
نٌو دولتیوں کا ایک ہجوم ہے جو امریکہ کی گردن پر پشٌت سے مسلط ہو گیا ہے جو ہر روز رات کو کسی غریب کی بیوی، بیٹی، بہن اٹھا کر لے جاتے ہیں اور تمام رات اسکو سگریٹوں سے جلا جلا کر اس سے شوق پورا کرتے ہیں اور صبح اسکی لاش کھیت سے برآمد ہوتی ہے….
چشم فلک نے وہ نظارہ بھی دیکھ لیا کہ جب زخمیوں سے بھرے ہسپتالوں اور برباد گھروں سے بھاگے ہوئے مکینوں پر مشتمل شیلٹر ہومز پر بمباری کرنے والے اسرائیل کا گارڈیئن ملک امریکہ اسٌ یوکرائن کے صدر کو جنگ عظیم سوئم شروع کرانے کا طعنہ دے رہا تھا کہ جس کے ملک پر اس وقت بم برسنا شروع ہو گئے تھے کہ جب ابھی دنیا کووڈ کے بعد مکمل طور پر بحال بھی نہیں ہوئی تھی….
مجھے بہت خوشی ہے کہ امریکہ میں ٹرمپ اور ہندوستان میں مودی کی حکومت ہے کیونکہ میں تاریخ کا ایک سبق جانتا ہوں کہ بد مست ریاستوں کو اندر سے ہی توڑا جا سکتا ہے ایک وقت آتا ہے کہ طاقت اپنے ہی زور سے پھٹ جاتی ہے تاریخ کی بدترین سفارت کاری کا مظاہرہ ہم نے وائٹ ہاؤس میں دیکھ لیا شاید ہی اس سے نچلی سطح کی گراوٹ کی مثال آج کی ماڈرن دنیا میں موجود ہو، یہ اسٌ سے بھی نیچے کی سطح تھی کہ جس کا مظاہرہ ہمارے اور ہندوستانی فوجی واہگہ بارڈر پر کیا کرتے ہیں لیکن ایک بہت بڑا فرق ہے سارا دن یہ فوجی ایک دوسرے کے ساتھ گپیں لگاتے ہیں، کھانے ایکسچینج کرتے ہیں، لیکن شام ہوتے ہی جب دونوں ملکوں کے لوگ بارڈرز کا رخ کرتے ہیں تو یہ آپس میں نورا کشتی شروع کر دیتے ہیں، کاش ٹرمپ اور زیلینسکی یہی کر پاتے؟؟
کاش وہ دونوں محلے کی انٌ دو عورتوں جیسے ہی ہوتے جو سارا دن اپنے اپنے کوٹھوں سے برسرِ پیکار رہتی ہیں لیکن کسی بھی افتاد کے پڑنے پر سب سے پہلے دوسرے کے یہاں پہنچ جاتی ہیں،
کاش اس دنیا کے حکمران موت کے کنویں پر ناچنے والے خواجہ سرا ہی ہوتے کہ جو ایک دوسرے پر ہر گندگی اچھالتے تو ہیں لیکن مرگ پر یک جان ہو جاتے ہیں،
کاش یہ گلیوں کے آوارہ کتے ہوتے کہ جو ساری رات بھوکنے کے بعد صبح کی نماز پڑھنے جانے والے سے کم از کم اپنا منہ تو چھپا لیتے ہیں،
کاش یہ آسمان پر اڑٌتے گدھ ہوتے کہ جو ان گھروں میں تو نہیں اترتے جہاں گند کا ڈھیر نہ ہو،
کاش یہ وہ ریچھ ہوتے کہ جس کی کہانی ہم نے بچپن میں سنی تھی کہ جو نومولود کی حفاظت کرتا تھا،
کاش یہ وہ خوں خوار درندہ ہوتے کہ جو پیٹ کے بھر جانے کے بعد مذید شکار نہیں کرتا،
کاش وہ بھیڑئیے ہی ہوتے کہ جو وار تو خاموشی سے کرتے ہیں لیکن یہ ان سب سے کہیں بدتر ہیں….
آج میں امریکہ کی الٹرا ماڈرن، پڑھی لکھی، اپ رائٹ، ٹیکنالوجی فریک عوام سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ کے ووٹ کی قیمت میرا سانس ہے؟؟ میری زندگی ہے؟؟ میری ناموس و توقیر ہے؟؟ نہیں! ہمیں آپ کے ووٹ کے بدلے یہ سب نہیں دینا ایلون مسک جیسے نیم پاگلوں کی ڈیزائن کردہ دنیا مجھے قبول نہیں ہے، انسانیت کی اس سے زیادہ بدقسمتی اور نہیں ہو سکتی کہ اس دنیا کا بیانیہ ایلون مسک بنائے اور ٹرمپ اسکو نافذ کرے….
گزشتہ برس ملتان شہر کا درجہ حرارت 53 سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا اور رئیل فیل 56 تھی جو اس سال نہیں تو اگلے ورنہ زیادہ سے زیادہ اس سے اگلے سال 60 کو چھو جائے گا ایک اندازے کے مطابق پاکستان اور ہندوستان کے میدانی علاقے سن 2040 تک انسانوں کے لیے نا قابلِ رہائش ہو جائیں گے یہ سب ٹرمپ اور ایلون مسک جیسوں کی وجہ سے ہوا ہے، کیونکہ ہم جتنے بھی نااہل سہی لیکن گلوبل وارمنگ اور کلائمیٹ چینج میں ہمارا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، یہ امریکی عوام کا ووٹ ہے جس نے اس سیارے پر کہیں انسان کا سانس لینا محال کر دیا ہے، تو کہیں زندہ رہنا، انکی فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں اور ان میں بننے والا اسحلہ ایک جتنے مہلک ہیں،
ہسپتالوں، سکولوں اور پناہ گاہوں پر حملہ کرنے والے یہ مہذب وہی ہیں کہ جو ہولوکاسٹ کے ذکر پر رنجیدہ و سیخ پا دونوں ہو جاتے ہیں…
لیکن مایوسی کی کوئی بات نہیں شدت پسندی کے خلاف یہی ہمارا ٹرمپ کارڈ ہے کیونکہ روشنی ہمیشہ اندھیرے میں سے پھوٹتی ہے ایک وقت آئے گا کہ جب WWF اور کرکٹ کے جوکروں کی چکا چوند شہرت سے عام انسانوں کی آنکھیں چندھیا کر بند ہونے کے قریب ہونگی تو کسی بدھا جیسے یا کسی بکریاں چرانے والے ولی کی مسکراہٹ لوگوں کے لیے دلی سکون کا باعث بنے گی کسی ایسے کا ظہور ہو گا کہ جو جانوروں اور درختوں سے مکالمے کی صلاحیت رکھتا ہو گا تو انسانوں کو اپنے مسائل کے حل کھوجنے کی راہ ملے گی اس وقت تک آپ نے گھبرانا نہیں ہے….
فیس بک کمینٹ