علی سخن ورکالملکھاری
سپر پاور.. علی سخن ور

انسان چاہے جتنا بھی سست الوجود ہوجائے ، ناقص کارگی ، بے زاری اور کام کاج میں عدم دلچسپی، چاہے جتنی بھی بڑھ جائے، معمولات زندگی میں تبدیلی کا عمل خود بخود ایک غیر محسوس طریقے سے جاری رہتا ہے۔بعض دفعہ یہ تبدیلی ہمارے نکتہ نظر سے مثبت ہوتی ہے اور بعض دفعہ منفی لیکن چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں اس تبدیلی کا حصہ بننا پڑتا ہے۔تاہم طاقت ور لوگ وہ ہوتے ہیں جو ہر طرح کی تبدیلی کو کھلے دل اور کھلی آنکھوں سے قبول بھی کرلیتے ہیں اور تبدیلی کے نتیجے میں آنے والے اثرات کو اپنے حق میں ڈھالنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔تبدیلی کا عمل نہ ہو تو زندگی اور کھڑے پانی کے تالاب میں کوئی فرق نہیں رہتا۔تبدیلی انفرادی سطح پر بھی ہوتی ہے اور اجتماعی سطح پر بھی لیکن اس حوالے سے ایک صورت حال بہرحال باعث تکلیف ہوتی ہے جب لوگ اپنے اندر معمولی سی بھی تبدیلی لانے کو تیار نہیں ہوتے لیکن ارد گرد کی دنیا کو اپنے حساب سے tune-upکرنے کا خواب دیکھتے رہتے ہیں۔موقعہ ملے تو کبھی کسی ماہر فوٹوگرافر کو تصویر کھینچتے ہوئے غور سے دیکھیں، بہتر منظر کشی کے لیے فوٹو گرافر ضرورت کے مطابق اپنی جگہ بھی بدلتا رہتا ہے اور اپنے کیمرے کی پوزیشن بھی۔منظر کو مکمل قوت کے ساتھ دیکھنے کے لیے، زاویہ نگاہ کو بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے تاہم منظر کو بہتر بنانے کا عمل بھی ساتھ ساتھ جاری رہنا چاہیے بالکل اسی طرح جیسے ہندوستان میں بسنے والے لاکھوں سکھ اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم کا شکار کشمیری باشندے اپنی آئیندہ نسلوں کی خاطر منظر کو بہتر بنانے کے لیے کر رہے ہیں۔ایسی ہی جدو جہد ہمیں فلسطین میں بھی دکھائی دیتی ہے اور عراق اور شام جیسے جنگ زدہ علاقوں میں بھی۔کسی حد تک افغانستان کو بھی اس فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے۔یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ دنیا بھر میں اکثر جنگیں اور احتجاجی تحر یکیں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے رد عمل کے طور پر شروع ہوتی ہیں۔ ہندوستان میں برسوں سے جاری خالصتان تحریک کو ہی دیکھ لیں، بظاہر کئی دہائیوں سے جاری اس تحریک کو ابھی تک کوئی واضح کامیابی نہیں ملی لیکن یہ تحریک آج بھی پوری قوت سے جاری ہے۔سکھوں کو آزاد اور خود مختار ریاست کی ضرورت کا احساس کیوں ہوا، یہ سوال اپنی جگہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔1947میں تشکیل پاکستان کا مرحلہ کامیابی سے طے ہونے کے بعدسکھ راہنماؤں کو اس بات کا شدت سے احساس ہونے لگا کہ اگر مسلمان اپنے لیے ایک الگ ملک حاصل کر سکتے ہیں تو پھر سکھوں کے لیے ایسا کرنا ممکن کیوں نہیں۔ سکھ نہ تو کبھی کمزور رہے نہ ہی بزدل اور بے ہمت، ہندو انتہا پسندوں کی زیادتیوں اور نا انصافیوں نے بھی اس احساس کو تقویت دینے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔صورت حال جون 1984 میں اور زیادہ سنجیدہ ہوگئی جب بھارتی حکومت نے سکھوں کی عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل پر بھارتی فوج کے ذریعے ایک خوفناک آپریشن کا منصوبہ بنایا تاکہ ان نوجوان سکھوں کو سبق سکھایا جاسکے جو گولڈن ٹیمپل کو مبینہ طور پر خالصتان تحریک کے عسکری اور سیاسی ہیڈکوارٹر کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ حکومتی کاپردازان کا خیال تھا کہ سکھ کمانڈر سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ سکھوں کی آزاد ر یاست کی مہم کے کرتا دھرتا ہیں، اگر ان کو ختم کردیا جائے تو یہ تحریک بھی دم توڑ دے گی۔اسی خیال خام کے پیش نظر یکم جون سے 8جون1984تک آپریشن بلیو سٹار کے نام سے گولڈن ٹیمپل پر ہلا بولا گیا۔ گولڈن ٹیمپل کو گوردوارہ ہرمیندر صاحب امرتسر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔اس گوردوارے کی تاریخ بھی بڑی عجیب ہے، سنہ 1578میں سکھ کہاوتوں کے مطابق گرو رام داس نے ایک بڑے سے تالاب کی کھدائی کی جسے اس کے چاہنے والوں نے ایسے پانی کا تالاب قرار دیا جس میں نہانے والا امر ہو جاتا ہے۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس تالاب کے ارد گرد کے علاقے کو امرت سر کے نام سے جانے جانا لگا۔ بعد میں اسی تالاب کے وسط میں گوردوارہ ہرمیندر صاحب تعمیر کیا گیا جسے گولڈن ٹیمپل بھی کہا جاتا ہے۔ تب سے یہ گوردوارہ سکھ مذہب پر چلنے والوں کے لیے ایک مذہبی مرکز تصور کیا جاتا ہے۔ آپریشن بلیو سٹار کے نتیجے میںسکھوں کے اس مرکزی گوردوارے کو شدید بے حرمتی کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سا خون خرابہ بھی ہوا ۔یہی نہیں کہ یہ خون خرابہ اسی گوردوارے تک محروم رہا، سکھوں کے خلاف انتقامی آگ دور دور تک پھیل گئی۔سینکڑوں کی تعداد میں سکھ مارے گئے، فسادات میں ہندوﺅں کا بھی جانی نقصان ہوا اور اسی آپریشن کے بعد سکھوں میں پھیلنے والی بے چینی نے آخر کار اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی جان بھی لے لی۔سکھوں کے اس انتہائی اقدام نے بھارتی حکومت کو سکھوں کے حوالے سے بہت محتاط اور چوکس کر دیا۔ سیکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں نے سکھ راہنماؤں کی ہر موومنٹ پر خصوصی نظر رکھنا شروع کردی۔ ایک عرصے تک یہ پراپیگنڈہ بھی کیا جاتا رہا کہ سکھوں کو پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کی آشیرباد حاصل ہے لیکن اس حوالے سے کوئی ثبوت کبھی سامنے نہیں آیا۔اب ایک بار پھر سکھ اپنے لیے ایک آزاد ریاست کے حصول کے لیے متحد اور متحرک دکھائی دیتے ہیں۔اس حوالے سے آجکل میں مجوزہ سکھ ریفرنڈم دنیا بھر کی توجہ کا مرکز ہے۔ 150سے زائد ملکوں میں آباد 25ملین سے زائد سکھوں نے اس برس لند ن ڈیکلیریشن کے نام سے ایک متفقہ قرارداد پیش کی تھی جس کے تحت بھارتی صوبہ پنجاب کو ایک آزاد اور خود مختار سکھ ریاست کے طور پرتسلیم کیے جانے کا مطالبہ کیا گیا۔سکھ راہنماﺅں کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں سکھ کمیونٹی بدترین استحصال کا شکار ہورہی ہے۔ سکھوں کو ہر جگہ مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے، حتی کہ ہندوستانی فلموں میں بھی سکھوں کو عموما ایک مسخرے کردار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ سکھ آزادی چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی مرضی اور اپنی مذہبی روایات کے مطابق زندگی گذار سکیں۔ بی جے پی کی حکومت کے لیے اس وقت سکھوں کی طرف سے کیا جانے والا آزاد ریاست کا مطالبہ کسی آتش فشاں سے کم نہیں۔اگر سکھوں کے اس مطالبے پر ذرا سی بھی توجہ دے دی گئی تو پھر کشمیریوں کا آزادی کا مطالبہ اور بھی زور پکڑ جائے گا۔ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت سرکار کے لیے بدترین زمانے کا آغاز ہوچکا ہے کیونکہ ایک طرف ماؤیسٹ تحریک تو دوسری طرف سکھوں کا آزاد ریاست کا مطالبہ اور ان سب سے بڑھ کر مقبوضہ کشمیر میں برسوں سے جاری تحریک آزادی، بھارت سرکار کے لیے ایک وقت میں اتنے محاذوں پر لڑنا آسان نہیں ہوگا۔ویسے بھی ہر ملک پاکستان نہیں ہوتا، پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو کئی دہائیوں سے ایک وقت میں بہت سے دشمنوں کا ایک ساتھ مقابلہ کر رہا ہے، یہ دشمن بھی کوئی چھوٹے چھوٹے انفرادی گروہ نہیں، بڑے بڑے ملک ہیں، ایسے ملک جنہیں دنیا سپر پاور قرار دیتی ہے، لیکن پاکستان نے کبھی بھی کسی بھی محاذ پر ہار نہیں مانی، پاکستان کے لیے ایک ہی سپر پاور ہے، وہی سپر پاور جو ہماری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔یہی سپر پاور ہماری محافظ بھی ہے مددگار بھی اور ہماری بقا اور سلامتی کی ضامن بھی۔باقی نام اللہ کا۔
(بشکریہ: روزنامہ خبریں)