میاں جی کو فکر تھی تو صرف اور صرف ان چھ جوان جہان لڑکیوں کی جن کی حفاظت میاں جی کے لیے اپنی زندگی سے بھی کہیں زیادہ اہم تھی۔ سارا شہر آگ کی لپیٹ میں تھا، ہندو انتہا پسند سار ا دن گلیوں میں لمبے لمبے چھرے لہراتے مسلمانوں کی تلاش میں پاگل کتوں کی طرح پھرتے تھے ، بچہ بوڑھاجوان مرد عورت جو کوئی بھی ہاتھ لگتا جانوروں کی طرح ذبح کر دیا جاتا ۔ اوربدقسمتی سے کسی گھر میں جوان لڑکیوں کی موجودگی کی خبر ہو جاتی تو پھر الامان الحفیظ ۔میاں جی کے چھوٹے بھائی کو فسادات شروع ہونے کے ابتدائی دنوں میں ہی گھر آتے ہوئے راستے میں ذبح کردیا گیا تھا۔ اب میاں جی مرحوم بھائی کی دو اور اپنی چار بیٹیوں کے واحد والی وارث اور رکھوالے تھے۔ پاکستان کی طرف مسلمانوں کی ہجرت کاسلسلہ بھی جاری تھا۔لیکن یہ ہجرت بھی ہر ایک کے بس کی بات نہیں تھی۔ گھروں سے چھپتے چھپاتے ٹرین تک پہنچنا اور پھر ٹرین کی آمد روانگی اور پاکستان پہنچنے کے عمل تک موت قدم قدم پر ایک خوفنا ک آسیب کی صورت مندلاتی رہتی تھی۔ میاں جی نے محکمہ ریلوے میں ملازم اپنے ایک دوست سے مشورہ کیا کہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ پاکستان کیسے پہنچا جائے، دوست نے وعدہ کیا کہ موقعہ ملتے ہی وہ کوئی سبیل کرکے گالیکن کئی روز گزر گئے دوست نے دوبارہ رابطہ نہیں کیا۔ میاں جی عصر کی نماز پڑھنے کے بعد گھر کے عقبی حصے میں کھڑے صاف پانی کے کنویں کے پاس نہایت پریشانی اور اضطراب کی کیفیت میں ٹہل رہے تھے۔ اتنے میں میاں جی کی بڑی لڑکی سعیدہ نے دبے قدموں ان کے پاس آخر کہا ، بابا!! آپ فکر مند نہ ہوں ہم بہنوں کو کچھ بھی نہیں ہوگا ، بہت برا وقت بھی آگیا تو ہم وقت ضائع کیے بغیر کنویں میں چھلانگ لگا دیں گے“۔ میاں جی یہ بات سن کر حیرت اور بے بسی کی ساتھ بیٹی کا منہ دیکھنے لگے۔ اس بات کو مشکل سے تین روز ہی گزرے ہوں گے، مغرب کے بعد کا وقت تھا۔ باہر گلی میں ہندو انتہاپسندوں کے خونخوار نعرے گونجنے لگے۔ پھر دروازے پر زور زور سے دھڑ دھڑ ہونے لگی، سب لوگ سہم گئے، چند ہی لمحوں میں دروازہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا شراب کے نشے میں دھت دس بارہ ہندو بلوائی اندر داخل ہوئے ۔ میاں جی نے آگے بڑھ کر انہیں روکنے کی کوشش کی لیکن ایک برچھی اس قوت سے ان کی گردن میں پیوست ہوئی کہ انہیں دوسری سانس تک لینے کی مہلت نہیں ملی۔ ان چھ بہنوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو دیکھا اور کنویں کی طرف دوڑ لگا دی۔ مشکل سے دس سیکنڈ لگے ہوں گے، ان سب نے کنویں میں چھلانگ لگا دی۔ بدمست ہندو فسادی ہاتھ ملتے رہ گئے، لڑکیوں نے میاں جی سے کیا ہوا وعدہ پور ا کر دیا ، جان دے دی مگر عزت پر آنچ نہ آنے دی۔ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے زمانے میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات کی تاریخ کا یہ ایک معمولی سا واقعہ تھا۔ اس سے بھی کہیں خوفناک واقعات اور ظلم وستم کی روح فرسا داستانیں ہمارے آباﺅ اجداد سناتے سناتے اس دنیا سے چلے گئے۔ ہم بعد کے زمانے کے لوگ ان واقعات کو دیومالائی داستانوں کی طرح سنتے رہے اور ہمیشہ اس سچائی سے نظریں چراتے رہے کہ تاریخ کو ایک معمولی سا موقعہ درکار ہوتا ہے، تاریخ اپنے آپ کو دہرا کر زندہ رکھتی ہے۔
آج ہم سب نے سرزمین پاک کو اپنے اپنے مفادات کے جھنڈے گاڑ کر انسانوں کے لیے تنگ کر دیا ۔ الگ الگ رنگوں کی پگڑیاں ، الگ الگ انداز کی عبائیں، ہم میں سے کوئی بھی اس حقیقت کو ماننے کو تیار نہیں کہ اگر یہ خطہ اراضی ہمارے تسلط میں نہ رہا تو کوئی بھی دوسرا ملک ہمیں خوش آمدید نہیں کہے گا۔ آج جس آزادی اور اختیار کے ساتھ ہم اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں وہ آزادی رہے گی نہ اختیار۔ دوسرے ملک ہمارے لیے اپنی سرحدوں کو بند کر دیں گے۔ اور یاد رکھیے کہ ہر ملک پاکستان نہیں ہوتا کہ جہاں شناختی کارڈ سے لے کر پاسپورٹ تک ، کسی بھی غیر ملکی کے لیے سب کچھ بنوانا انتہائی آسان ہو، جہاں چیچن ،عرب، تاجک،افغان، غرض ہر طرح کے باشندے جب چاہیں سرحدیں پار کرکے، یہاں کی مقامی زندگی کا حصہ بن جائیں۔ ابھی چند روزپہلے کی بات ہے ، میرے کچھ انتہائی خوشحال دوستوں نے ورلڈ ٹور پر نکلنے کا ارادہ کیا، روٹ میں شامل دیگر ممالک کی طرح آسٹریلیا کے ویزے کے لیے بھی درخواست دی، معذرت کی صورت جواب ملا۔ کہا گیا کہ آپ کے ملک کے حالات اتنے خراب ہیں کہ اس وقت ہر شخص اس طوفانی سمندر سے بھاگ نکلنا چاہتا ہے۔ ہماری حکومت کو اندیشہ ہے کہ ان دنوں پاکستان سے جو بھی ہمارے ملک میں آیا، یہاں کی خوشحالی سکون اور ترقی کو دیکھ کر یہیں پاﺅں ٹکانے کی کوشش کرے گا۔ہمارا ملک اس صورت حال کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔لہذا ہم آپ کو یہاں آنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ یہاں اپنے پڑھنے والوں کے لیے یہ بات بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مذکورہ تمام افراد کوئی عام لوگ نہیں تھے، سب کے سب ایسے تھے کہ جو بار ہا دنیا کے مختلف ممالک کی سیر کرچکے ہیں اور ان کے پاسپورٹوں پر دس دس ممالک کے ویزے لگے ہوئے تھے۔
پاکستان ایک گھنے درخت کا نام ہے اس کی چھاؤ ں میں بیٹھ کر اسی درخت کو کاٹنے اور بیچنے کی خواہش رکھنے والے ہمارے کسی طور بھی دوست نہیں۔ ایسے لوگ چاہے سیاست میں ہوں یا میڈیا میں یا پھر کسی بھی دوسرے شعبہ زندگی میں ، دیمک ہیں ، ہمیں اندر ہی اندر سے کھا رہے ہیں ، ہمیں کھوکھلا کر رہے ہیں ۔ اس دن سے ڈریے کہ جس دن ہماری ماﺅں بہنوں اور بیٹیوں کو میاں جی کی لڑکیوں کی طرح عزت بچانے کے لیے کسی گہرے کنویں میں چھلانگ لگانا پڑ جائے۔ ستر اکہتر سال ہمیں پاکستان کی ضرورت تھی، آج پاکستان کو ہماری ضرورت ہے ۔ ہمیں سب کو مل جل کر پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ اور اگر ہم اتنے بے بس اور ناکارہ ہیں کہ حفاظت کا کام نہیں کرسکتے تو کم از کم ان لوگوں کی حوصلہ شکنی کی بجائے حوصلہ افزائی کا کام ضرور کر لیں کہ جو اس ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کو اپناعقیدہ شمار کرتے ہیں۔ اور اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو عزت بچانے کے لیے میاں جی کی لڑکیوں کی طرح کوئی نہ کوئی کنواں پہلے سے نظر میں ضرور رکھیں۔ باقی نام اللہ کا
فیس بک کمینٹ