تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، گھٹتے ہوئے وسائل اور بگڑتے ہوئے مسائل نے مدت سے بالخصوص تیسری دنیا کے ممالک میں ایک عجیب سی اضطرابی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔صحت، خوراک، تعلیم، لباس، رہائش اور پتہ نہیں کیا کیا، عوام کی ضرورتوں کی فہرست بہت لمبی ہے۔ایسے میں صرف حکومتی سطح پر ان تمام مسائل کا حل کسی طور بھی ممکن نہیں ہوتا۔ چنانچہ غیر سرکاری فلاحی تنظیموں کو آگے بڑھ کر مشکل میں گھرے لوگوں کا سہارا بننا پڑتا ہے۔ایسی تنظیموں کو دنیا بھر میں این جی اوز کہا جاتا ہے۔بہت سی این جی اوز مقامی سطح پر صاحبان ثروت کے تعاون سے لوگوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور کچھ ایسی بھی ہیں جو امداد اور تعاون کے لیے عالمی اداروں سے رجوع کرتی ہیں۔ کچھ این جی اوز ایسی بھی ہوتی ہیں جو فلاحی خدمات کے حوالے سے کسی ایک علاقے یا ملک تک محدود نہیں رہتیں، ایسی این جی اوز کو انٹرنیشنل این جی اوز کہا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے اس وقت دنیا میں بھر میں اقوام متحدہ سے زیادہ بڑی این جی او اور کوئی بھی نہیں۔یہ وہ تنظیم ہے جو بیک وقت مشرق‘ مغرب‘ شمال ‘جنوب ہر سمت میں امدادی سرگرمیاں جاری رکھتی ہے ، یہ اور بات کہ اپنے قیام کے بعد سے آج تک اس تنظیم پر امریکی مفادات کے تحفظ کی چھاپ نہایت نمایاں دکھائی دیتی ہے۔
عوامی فلاحی تنظیموں کی بات کی جائے تو سچ تو یہ ہے کہ ہمارے دینی مدارس سے بڑی اور کوئی این جی او کبھی دیکھنے میں نہیں آسکی۔ ہزاروں طلباءکو لباس ،خوراک، تعلیم،علاج اور تربیت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو حصول روزگار کے قابل بنانا یقینا کوئی آسان کام نہیں لیکن ہمارے دینی مدارس برس ہا برس سے یہ کام نہایت ذمے داری سے ادا کرنے میں مصروف ہیں۔اگر انٹرنیشنل این جی اوز کی بات کی جائے تو ان تنظیموں کے حوالے سے ایک شکایت کثرت سے سننے میں آتی ہے کہ ان میں سے بہت سی این جی اوز دشمن ممالک کے ایجنٹ کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔ دوسرے ملکوں کے ایجنڈے کو قابل عمل بنانے اور دوسرے ملکوں کی مرضی کے نظریات پھیلانے میں بعض انٹرنیشنل این جی اوز کافی بدنامی سمیٹ چکی ہیں۔ دشمن ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی انٹر نیشنل این جی اوز کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔تاہم جن ممالک نے این جی اوز کی نیٹ ورکنگ پر نظر رکھنے کے لیے کوئی باقاعدہ قانون سازی کر رکھی ہے، وہاں مسائل پیچیدہ ہونے سے پہلے ہی پکڑ میں آجاتے ہیں۔ ابھی چند برس پہلے کی بات ہے کہ روس نے واشنگٹن سے کنٹرول ہونے والی The National Endowment for Democracy نامی ایک ایسی این جی او پر ہمیشہ کے لیے پابندی لگا دی جس کے بارے میں خیال تھا کہ وہ روس میں امریکی مفادات کے لیے کام کر رہی ہے۔ روسی حکومت نے مذکورہ این جی او کو ناپسندیدہ قرار دیتے ہو ئے اس کے تمام اراکین کو فوری طور پر اپنا سارا بوریا بستر سمیٹ کر روس چھوڑنے کا حکم دے دیا تھا۔ سنا ہے مذکورہ این جی او پر پابندی لگنے کے بعد روس میں کام کرنے والی غیر ملکی این جی اوز بہت محتاط ہوگئی ہیں۔
پاکستان میں2015ئسے پہلے انٹرنیشنل این جی اوز کے حوالے سے صورت حال بہت خراب تھی، افغان پناہ گزینوں کی امداد اور دہشت گردی سے متاثرہ لوگوں کی مدد کے علاوہ شدت پسندی اور انتہا پسندی جیسے معاملات کو بنیاد بنا کر دنیا جہان کی این جی اوز نے پاکستان میں ڈیرے ڈال لیے تھے۔ 2008کے زلزلے سے متاثرہ افراد کی آباد کاری کو بھی بہت سی این جی اوز نے پاکستان میں اپنی موجودگی کا جواز بنالیا۔ ان این جی اوز کے غیر ملکی نمائیندے پاکستان کو اپنے آباو اجداد کی جاگیر سمجھتے ہوئے ہر شہر اور ہر قصبے میں دندناتے پھرتے تھے۔ان نام نہاد فلاحی تنظیموں کی آڑ میں را، موساد، سی آئی اے اور اسی طرح کی دیگرغیرملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ہرکارے بھی ہمارے نظام میں گھستے چلے گئے۔ بلوچستان اور خصوصاً کراچی میں ان غیر ملکی ایجنٹوں نے وہ بربادی مچائی کہ الامان الحفیظ۔ 2015میں صورت حال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے این جی اوز اور خصوصا ًانٹرنیشنل این جی اوز کے لیے کچھ نئے قوانین و ضوابط تشکیل دیے۔ وزارت داخلہ نے ملک میں موجود تمام این جی اوز کو اپنی رجسٹریشن کرانے کی تاکید کی۔حکومت پاکستان کی اس ہدایت پر عمل کرتے ہوئے 140کے لگ بھگ انٹرنیشنل این جی اوز نے رجسٹریشن کے لیے آن لائین درخواستیں جمع کروائیں۔ انٹیلی جنس اداروں نے کڑی چھان بین کے بعد 66کے قریب این جی اوز کو پاکستان میں کام کرنے کے اجازت دے دی جبکہ 60سے زا ئدغیر سرکاری فلاحی تنظیموں کو پاکستان دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی بنا پر رجسٹریشن کے لیے نااہل قرار دے دیا۔حکومت پاکستان نے مزید تحقیقات کے بعد 49انٹرنیشنل این جی اوز کو پاکستان چھوڑنے کی وارننگ جاری کر دی۔ اٹھارہ تنظیموں نے حکومت پاکستان کے احکامات پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کردی۔ حکومت پاکستان نے معاملے کی مزید چھان بین کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی۔ اس کمیٹی نے بھی حال ہی میں تحقیقاتی اداروں کی فراہم کردہ رپورٹوں کی بنیاد پر حکومت پاکستان کے فیصلے کی تائید کردی اور ان انٹرنیشنل این جی اوز کو فوری طور پر پاکستان سے نکل جانے کے احکامات جاری کردیے۔
اب اسے ہمارے نظام کی کمزوری کہیے یا پھر ان این جی اوز کے آقاﺅں کی منہ زوری کہ پاکستان میں رہ کر انہوں نے اس فیصلے کی بنیاد پردنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرنا شروع کردیا۔بالخصوص بھارتی میڈیا نے سب کام چھوڑ کر پاکستان میں این جی اوز کے حوالے سے لگائی جانے والی پابندیوں کو اپنا موضوع گفتگو بنالیا۔ہر طرف ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل این جی اوز کو کام کرنے سے روک رہا ہے۔اس ڈھنڈورے کا پس منظر یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت جب بین الاقوامی مبصرین کو وادی کشمیر کا تحقیقاتی دورہ کرنے سے روکتی ہے تو پاکستان اس زیادتی کے خلاف کشمیریوں کی آواز میں آواز ملانے کے جرم کا مرتکب ہوتا ہے۔اسی جرم کی سزا دینے کے لیے پاکستان میں انٹرنیشنل این جی اوز کے نام نہاد استحصال کا پراپیگنڈہ جارہا ہے۔حکومت پاکستان جس انداز میں ہمارے معاشرے کی برسوں پرانی اخلاقی، مالی اور انتظامی بے ضابطگیوںکی اصلاح میں مصروف ہے وہاں اس اچھی بات کو بھی ایک قانون کا درجہ دینے کی کوشش لازم ہے کہ پاکستان میں رہنے والے یا پھریہاں کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ اپنی پہچان کے لیے استعمال کرنے والے کسی شخص کو بھی اس پاک سر زمین کو کسی بھی حوالے سے بدنام کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان کو اپنی شناخت کے طور پر استعمال کرنے والے کسی بھی شخص کی کوئی بھی تحریر یا کوئی بھی تقریر جو عالمی سطح پر پاکستان کا امیج خراب کرنے کا باعث بنے ،اس زمین سے بے وفائی کے زمرے میں آتی ہے۔ہمیں بحیثیت قوم، مفاد پرستوں اور بے وفاﺅں کی بجائے بے لوث وفاداروں اور بے غرض جانثاروں کی قدردانی سیکھنا ہوگی ۔
فیس بک کمینٹ