” ہمیں ایک دن میں بعض دفعہ دو شو بھی کرنا پڑتے ہیں مگر ہمیں ادائیگی ایک ہی شو کی ہوتی ہے،“ملتان سٹیج کے ایک نہایت معروف اداکار نے مجھے بڑی ہی رازداری سے اندر کی بات بتاتے ہوئے کہا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ بڑے اداکاروں کو سٹیج ڈرامے میں کام کرنے کے کتنے پیسے ملتے ہیں، کہنے لگے،’ آٹھ سو سے ہزار روپے تک فی شو کے حساب سے، چند ایک کو اس سے چند سو زیادہ بھی مل جاتے ہیں اور کچھ کو اس سے کم بھی۔لاہور کراچی میں شاید معاوضہ اس سے کچھ زیادہ ہو۔ لیکن یہ بات پیش نظر رہے کہ مہینے کے تیس دن ہر روز ڈرامہ نہیں ہوتا اور اگر ہوتا بھی ہو تو لازم نہیں کہ کسی بھی اداکار کو ہر ڈرامے میں کام مل جائے، تاہم اداکاراؤں کے معاملات بڑی حد تک بہتر ہوتے ہیں۔‘ میرے خیال میں سٹیج پر کام کرنے والے اداکاروں کے معاوضے کے حوالے سے جو معلومات مجھ سے شیئر کی گئیں وہ یقینا حقائق پر مبنی ہوں گی لیکن میں ذاتی طور پر چند ایسے سٹیج اداکاروں کو جانتا ہوں جن کے نام کسی بھی ڈرامے کی کامیابی کی ضمانت ہوتے ہیں، ایسے اداکاروں کا معاوضہ بھی دوسروں سے بہت زیادہ ہوتا ہے اور عموما ً ان کے پاس فراغت بھی کم ہوتی ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ ان کا نام بکتا ہے ۔دنیا کا اصول ہی یہی ہے،کام کو سلام۔نام ہمیشہ غیر معمولی Quality of Work کی بنیاد پر بکتے ہیں۔ فلم سٹیج اور ٹی وی کی دنیا اب بڑی حد تک کمرشل ہو چکی ہے۔لوگ تفریح کے لیے پیسے خرچ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انہیں تفریح کا بہترین معیار میسر آئے۔بڑے شہروں میں تھیٹرز کی بھی بہتات ہے، لوگوں کے پاس ڈرامے کے چناؤ کی بہت سی چوائسز اور آپشنز ہوتی ہیں، ایسے میں شائقین ڈرامہ ان تھیٹرز کا رخ کرتے ہیں جہاں کاسٹ میں ان کی پسند کے یا پھر ان کے معیار کے اداکار شامل ہوں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر سٹیج ڈرامہ فیملی کے ساتھ دیکھنے کے قابل نہیں ہوتا۔تاہم ماضی میں لاہور میںگورنمنٹ کالج اور این سی اے سے تربیت یافتہ کچھ نوجوانوں نے اپنے اساتذہ کی سرپرستی میں الحمرا آرٹس کونسل اور دیگر سٹیج ہالز میں ایسے ڈراموں کا انعقاد کیا جس میں کچھ بھی قابل اعتراض نہیں ہوتا تھا۔لوگ ان ڈراموں کو دیکھنے کے لیے فیملیز کے ساتھ جایا کرتے تھے ۔پھر ہوا یوں کہ کچھ حالات کی سختی اور کچھ معاملات کے الجھاؤکا شکار ہوکر،یہ روایت کمزور پڑتی گئی، صاف ستھرے موضوعاتی ڈرامے منظر سے غائب ہوتے چلے گئے اور با لآخر وہ وقت بھی آگیا جب مایوس تماشائیوں کی تیزی سے گھٹتی تعداد کے باعث پروڈیوسرز کے لیے ہال کا کرایہ بھرنا بھی ممکن نہیں رہا۔کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہماری فلموں کو بھی کرنا پڑا۔اچھے کہانی نویس، اچھے شاعر، اچھے موسیقار اور اچھے اداکار آہستہ آہستہ منظر سے غائب ہوتے رہے اور ان کی جگہ نان ٹیکنیکل، نان پروفیشنل لوگوں نے لے لی۔صورت حال بگڑنے کی ایک بڑی وجہ سنی پلکس قسم کے جدید سنیما گھروں کا بننا اور ان سینما گھروں میں بھارتی فلموں کی بلا روک ٹوک نمائش کو بھی قرار دیا جاتا ہے۔
باعث تکلیف امر یہ بھی ہے کہ جن بھارتی فلموں کی نمائش کی پاکستان میں اجازت دی جاتی رہی ان میں سے اکثر فلموں میں پاکستان کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔بظاہر ہمسایوں سے اچھے تعلقات اور پاکستان سے دوستانہ مراسم کا پیغام دینے والی ان فلموں میں پاکستان کو دہشت گردوں کا سرپرست بھی ٹھہرایا جاتا تھا اور دنیا بھر میں ہر خرابی کا ذمے دار بھی۔ایسی بے شمار فلمیں ہمارے کیبل چینلز اور سینما گھروں میں دکھائی جاتی رہی ہیں جن میں مقبوضہ کشمیر کے بے گناہ اور مجبور لوگوں کو’ آتنک وادی‘ اور قابض بھارتی فوجیوں کو نیک پارسا بناکر پیش کیا گیا۔بھارت میں ممبئی دھماکوں کے موضوع پر بھی فلمیں بنائی گئیں جن میں دہشت گردوں کو پاکستانی انٹیلی جنس اداروں سے وابستہ لوگوں کو دھماکوں کی منصوبہ بندی کرتے دکھایا گیا۔پھر یہ بات بھی ہے کہ ایسی ساری بھارتی فلموں میں مسلمانوں کو فسادی اور جھگڑالو قوم کے طور پر متعارف کرایا جاتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ ان کی فلموں میں ہر منفی کردار عموماً مسلمان ہوتا ہے۔رہی سہی کثر وہاں کا پرنٹ میڈیا پوری کردیتا ہے۔لیکن سچی بات یہ کہ بھارت کو حق حاصل ہے وہ اپنی جغرافیائی حدوں میں رہتے ہوئے جو چاہے کرے، ہمارا اعتراض کرنے کا نہ کوئی اختیار ہے نہ حق لیکن پاکستان اور مسلمانوں سے نفرت پر مبنی فلموں کو ہم اپنے ملک میں نمائش کی اجازت دیں تو اس میں قصور سراسر ہمارا اپنا ہے۔جس ملک میں ہمارے گلوکاروں اور اداکاروں کے داخلے پر پابندی لگا دی جائے، جہاں انتہا پسندی کا یہ عالم ہو کہ جس شو میں کوئی پاکستانی فنکار پرفارم کرنے جارہا ہو اس کے منتظمین کو جان کے لالے پڑ جائیں، ہم اس ملک کی بنی ہوئی پراپیگنڈہ فلمیں اپنے ملک میں نمائش کے لیے کیوں منگوائیں۔ہمیں دشمن ممالک کی فلمیں درآمد کرنے کی بجائے اپنے ملک کی فلم انڈسٹری کو سہارا دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں آج بھی ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔ سرکاری سطح پر تھوڑی سی سرپرستی مل جائے تو ہمارے فنکار بہترین تخلیقات سامنے لا سکتے ہیں۔ابھی کچھ عرصہ قبل جب سعودی حکومت نے اپنے ہاں سینما گھروں میں فلموں کی نمائش کی اجازت دی تو وہاں کے فلم بورڈ نے پاکستانی فلم ’پرواز ہے جنوں‘ کو نمائش کے لیے منتخب کیا۔یہ چناؤ یقینا ساری پاکستانی قوم کے لیے فخر کا باعث ہے۔
حال ہی میں پاکستان فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن PFPAکی طرف سے پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر مکمل پابندی کا مطالبہ کیا گیا۔ایسوسی ایشن کے راہنماؤں کا کہناتھا کہ جس طرح بھارت نے پاکستانی اداکاروں اور گلوکاروں کے ساتھ ساتھ پاکستانی تکنیک کاروں پر بھارت کی سرزمین شجر ممنوعہ قرار دے رکھی ہے اور جس طرح کسی بھی پاکستانی فلم کی بھارت میں نمائش پر مکمل پابندی ہے اسی طرح پاکستان میں بھی بھارتی فلموں اور ڈراموں پر مکمل پابندی ہونی چاہیے۔ ابھی میری تحریر مکمل نہیں ہوئی کہ خبر ملی ہے کہ سپریم کورٹ نے پاکستان میں بھارتی ڈراموں اور فلموں کی نمائش پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ ایک خوش آئند امر ہے ۔بین الاقوامی منظر پرسفارت کاری کی دنیا میں ہر جگہ ایک ہی جیسا اصول اپنایا جاتا ہے کہ تعلقات اور مراسم برابری کی سطح پر روا رکھے جاتے ہیں۔ اگر بھارت ہماری فلموں اور ڈراموں کو اپنے ہاں بلیک لسٹ کیا ہوا ہے ہمیں بھی اسی طرح کرنا چاہیے۔ جناب عمران خان کی قیادت میں ملک اس وقت انتہائی انقلابی قسم کی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے۔ سرکاری زمینوں پر قبضے، لوگوں کی ذاتی جائیدادوں کا استحصال، سرکاری دفاتر میں کرپشن، رشوت خوری،جھوٹے سٹامپ پیپر، جھوٹی گواہیاں، میرٹ سے ہٹ کر نوازشات، غرض وہ تمام برائیاں جو ہمارے معاشرے کو عرصے سے گھن کی طرح چاٹ رہی ہیں بہت جلد ہمارے معاشرے کے لیے قصہ پارینہ بن جائیں گی۔ ایک مضبوط عدلیہ اور سرفروش سیکیورٹی اداروں کی معاونت سے ہمارا سارا معاشرتی منظر نامہ تھوڑے ہی عرصے میں ایک ایسی صورت اختیار کر جائے گا جو دوسروں کے لیے قابل تقلید مثال ہوگا۔اپنے نظام کو مزید بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ملک میں دیگر ممالک خاص طور پر اپنے بدخواہ ممالک کی مداخلت کو بالکل ختم کردیں۔ بھارت جیسے ملکوں کے لیے ہمارے دل میں سافٹ کارنر نہ تو پہلے کبھی ہمارے لیے بہتری کا باعث ہوا نہ ہی آئندہ کبھی ہونے کا کوئی امکان ہے۔ کاٹھ کباڑ جمع کرنے سے دل اور دماغ تنگ ہوجاتے ہیں۔کام کی چیزوں کے لیے جگہ باقی نہیں رہتی۔ باقی نام اللہ کا!!!!
(بشکریہ: روزنامہ خبریں)
فیس بک کمینٹ