بعض دفعہ یوں بھی ہوتا ہے کہ انتہائی پر امن احتجاجی مظاہرے دیکھتے ہی دیکھتے خوفناک بلوے میں بدل جاتے ہیں۔لاکھوں کروڑوں کی املاک برباد ہوجاتی ہیں، لوگ مارے بھی جاتے ہیں اور زخمی بھی ہوتے ہیں۔ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا سب کچھ تب ہوتا ہے جب کرائسز مینجمنٹ کے لیے وسائل کے ساتھ ساتھ صلاحیتوں کا بھی فقدان ہو۔ پھر یہ بھی ہے کہ بہت سی صورتوں میںاحتجاج کا آغاز کرنے والوں کو ابتدا میں احساس ہی نہیں ہوتا کہ کچھ انجانے لوگ ان کی صفوں میں شامل ہوکر توڑ پھوڑ اور املاک کی تباہی کا ایک ایسا سلسلہ شروع کریں گے کہ جس کی انتہا کا تخمینہ لگانا بھی ممکن نہیں ہوگا۔
علاقائی مزاج بھی مظاہروں کوپر تشدد بنانے میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔احتجاج اور اظہار یکجہتی کا جو مہذب ترین انداز ہمیں مغربی ممالک میں نظر آتا ہے، ایشیائی ممالک بالخصوص جنوب ایشیائی ممالک میں اس کی جھلک ذرا کم کم دکھائی دیتی ہے۔آپ کو امریکا کے درو دیوار ہلا دینے والا سانحہ 9/11یقینا بہت اچھی طرح یاد ہوگا،بے شمار لوگ مارے گئے، بڑی بڑی عمارتوں کا نقصان ہوا لیکن امریکیوں نے احتجاج کا وہ راستہ بالکل بھی اختیار نہیں کیا کہ جس سے ان کی اپنی ملکی اور قومی املاک کو نقصان پہنچے، وہاں کے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ریسکیو سروسز کا بھی کمال تھا کہ انہوں نے بد ترین حالت غم کا شکار قوم کو ہمت بھی دی اور آسانیاں بھی۔ اور سب سے بڑھ کر ان کے میڈیا نے جو کردار ادا کیا وہ بھی قابل رشک ہے۔محض اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے لوگوں کو نہ تو اشتعال دلایا نہ ہی جائے حادثہ کے خوفناک مناظر دکھا کر لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کی۔ تاہم حادثے کا شکار ہونے والوں اور ان کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کے لیے جائے حادثہ پرپھول رکھنے اور شمعیں روشن کرنے کا سلسلہ بہت دن تک جاری رہا۔ وہاں کا سوشل میڈیا بھی عموماً حکومت کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔چند ہی گھنٹوں میں سنجیدہ سے سنجیدہ صورت حال بھی نارمل ہوجاتی ہے۔ہمارے خطے میں صورت حال بڑی حد تک اس کے برعکس ہوتی ہے۔ اس ماہ رواں کی دو تاریخ کو احتجاج کی ایک انتہائی خوفناک صورت بھارتی ریاست بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں دیکھنے کو ملی جہاں پانچ سو سے زائد پولیس کانسٹبلز نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک وسیع و عریض علاقے کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔بہت سی پولیس گاڑیاں نذر آتش کردی گئیں، تھانے جلادیے اور پولیس کے سینئر افسران پر حملے بھی کیے گئے۔ مظاہرین پٹنہ پولیس لائینز کے احاطے میں داخل ہوگئے اور وہاں ہر چیز کو تہس نہس کردیا۔تفصیلات کے مطابق یہ مظاہرین اپنی ایک ساتھی لیڈی کانسٹیبل کی موت پر مشتعل ہوئے تھے۔ مذکورہ لیڈی کانسٹیبل کافی عرصے سے بیمار تھی اور اپنے افسروں سے میڈیکل رخصت کے لیے درخواست کر رہی تھی لیکن اس کی اس درخواست کو محض ایک بہانہ سمجھا گیا اور اسے چھٹی نہیں دی گئی۔ اسی دوران اس کی طبیعت زیادہ بگڑ گئی اور بالآخر اس کی موت واقع ہوگئی۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ ایک تو انہیں محکمانہ سطح پر کسی بھی قسم کی کوئی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں، اس پر ظلم یہ کہ اگر بیماری کی صورت میں انہیں کبھی کوئی چھٹی درکار ہو تو اعلیٰ افسران ان کے راستے میں ہر ممکن رکاوٹیں پیدا کر دیتے ہیں۔خواتین کے لیے صورت حال اور بھی پریشان کن اس لیے ہوجاتی ہے کہ انہیں ان کے افسران ایسی صورت حال میں جنسی استحصال کا نشانہ بنانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔یہاں یہ واضح رہے کہ اس طرح کی صورت حال محض پٹنہ میں ہی نہیں، سارے بھارت میں معاملات اسی ڈگر پر رواں دواں دکھائی دیتے ہیں۔مذکورہ احتجاجی منظر اس وقت اور بھی خوفناک ہوگیا جب چند مظاہرین نے پولیس لائینز کے مرکزی دروازے کے ساتھ واقع مندر کو بھی اپنے قہر کا نشانہ بناتے ہوئے نذر آتش کردیا۔مندر کو آگ لگتے ہی یوں سمجھیں کہ پورے پٹنہ میں آگ لگ گئی۔عوام بھی اس احتجاجی جنگ میں شریک ہوگئے لیکن ان کا احتجاج حکومت کے خلاف نہیں تھا بلکہ ان پولیس کانسٹیبلز کے خلاف تھا جنہوں نے مندر کو آگ لگائی۔ بتایا جاتا ہے کہ کچھ شرپسندوں نے صورت حال کو مزید خوفناک بنانے کے لیے افواہ اڑا دی کہ مندر کو آگ لگانے والے مسلمان تھے۔ اس افواہ کے پھیلتے ہی ایک نئے طوفان نے سارے منظر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
اسی برس 29جولائی کو بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کی ایک سڑک پر پہلے سواریاں اٹھانے کے چکر میں ریس لگاتی ایک بس کی زد میں آکر دو کمسن طالب علم کچلے گئے۔ ڈھاکہ کی سڑکوں پر اس طرح کے ٹریفک حادثات میں انسانی جانوں کا ضائع ہونا معمول کی بات ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سال 2017میں ساڑھے سات ہزار کے قریب لوگ ڈھاکہ کی سڑکوں پر ٹریفک حادثات میں اپنی جان سے گئے یعنی روزانہ کے تقریبا اکیس افراد۔ لیکن مذکورہ واقعے کے بعد عوام نے اس بڑے پیمانے پر احتجاج شروع کردیا کہ حکومت کے لیے حالات کنٹرول کرنا ممکن نہیں رہا۔سیکیورٹی اداروں کو مداخلت کرنا پڑی، یہ احتجاج نہایت تیزی کے ساتھ حسینہ واجد حکومت کے خلاف مظاہروں میں تبدیل ہوگیا۔ڈیڑھ سو سے زائد نوجوان شدید زخمی ہوگئے، حکومت کے حامیوں اور مخالفین نے سڑکوں کو میدان جنگ بنادیا، کچھ عرصہ قبل شیخ حسینہ حکومت نے میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک کالا قانون متعارف کرایا تھا جسے دنیا ڈیجیٹل سیکیورٹی ایکٹ DSA-2018 کے نام سے جانتی ہے۔ مذکورہ قانون کو صحافتی حلقوں نے آزاد میڈیا کے لیے آہنی زنجیر قرار دیا تھا۔ حکومت خلاف مظاہروں میں اس ایکٹ کی مخالف بہت سی صحافی تنظیمیں بھی شامل ہوگئیں۔ اطلاعات کے مطابق حکومت کے حمایتی نوجوانوں نے مظاہروں میں شامل بیس سے زائد نامی گرامی صحافیوں کو اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا کہ ان میں سے کئی ایک کے معذور ہونے کا خدشہ ہے۔ مختصر یہ کہ سڑک پر ہونے والے ایک ٹریفک حادثے نے قومی سطح پر سارے بنگلہ دیش کو صرف اس لیے لرزا کر رکھ دیا کہ وہاں ذمے داران کے پاس کرائسز مینجمنٹ کی صلاحیت نہیں تھی۔
کچھ بات پاکستان کی بھی کر لیں۔ ابھی گزشتہ دنوں معروف عالم دین اور پاکستان دوست شخصیت مولانا سمیع الحق کو نامعلوم افراد نے بے رحمانہ انداز میں موت کے گھاٹ اتاردیا۔ مولانا مرحوم کے پاکستان اور افغانستان میں لاکھوں جانثار شاگرد موجود ہیں۔ اندیشہ تھا کہ ان کے جنازے کے موقع پر ان کے بہیمانہ قتل کے خلاف اگر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا تو اسے روکنا بہت مشکل ہوجائے گا لیکن مولانا مرحوم کے شاگردوں نے نظم و ضبط اور امن پسندی کی ایک ایسی مثال قائم کی جسے مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ایک تنکے کا بھی نقصان نہیں دیکھنے میں آیا۔اختلاف اور احتجاج ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن ہمیں ایسے احتجاج سے بچنا چاہیے جو کسی نہ کسی طرح ہمارے اپنے ہی نقصان کا سبب بن جائے۔بنانے میں نسلیں بیت جاتی ہیں مگر بگاڑنے کے لیے ایک لمحہ بھی بہت ہوتا ہے۔زندہ رہنا ہے تو ہمیں بگاڑ کے اسی ایک لمحے سے محتاط رہنا ہوگا۔باقی نام اللہ کا!!!!!
(بشکریہ: روزنامہ خبریں)
فیس بک کمینٹ