آج کے کراچی میں آج سے بیس برس پہلے کے کراچی کو ڈھونڈنا خواب تو ہو سکتا ہے حقیقت کی تلاش نہیں۔بڑھتی آبادی کے اژدھام میں آسمان کو چھوتی بلند و بالا عمارتوں نے کراچی کا منظر کچھ ایسا بدلا کہ یہاں برسوں سے آباد لوگوں کے لیے اپنے گھر کا راستہ یاد رکھنا بھی ممکن نہیں رہا۔ زمین ایسی نایاب ہوئی کہ لوگ ڈوب کر مرنے میں عافیت سمجھنے لگے۔آبادی میں بلا روک ٹوک اضافہ ہوا تو صاف پانی کی فراہمی سے لے کر امن و امان قائم کرنے تک مقامی حکومتوں کے لیے مسائل کا ایک انبار جمع ہوگیا۔ ایسے میں جرائم پیشہ عناصر کو بھی کھل کھیلنے کا موقعہ مل گیا۔موبائل فون چھیننے سے لے کر اغوا برائے تاوان تک کی وارداتیں معمول کا حصہ بن گئیں۔زمینوں پر قبضے اور اجرت پر قتل کے لیے باقاعدہ گروہ تشکیل پاگئے۔ایسے میں مختلف سیاسی جماعتوں کا نام استعمال کرنے والے بھتہ خور گروہوں کی بھی ایک نئی فصل نے جنم لے لیا۔پولیس اپنے کم وسائل اور کم تعداد کے باعث ایسے فتنہ گروں کی سرکوبی میں اتنی کامیاب نہیں ہوسکی جتنا کہ اسے ہونا چاہیے تھا۔ اس ساری صورت حال کا فائدہ ان قوتوں نے بھی بھر پور انداز میں اٹھانے کی کوشش کی جو کراچی کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتی تھیں۔ بہانے بہانے سے کراچی میں کبھی لسانی تو کبھی نسلی اور کبھی فرقہ وارانہ اختلافات کو فسادات کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ ایک فطری عمل کے طور پر کچھ سرکاری افسران اور پولیس ملازمین نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی کوشش کی۔لیکن اللہ کا کرم کہ کراچی ڈوبا نہیں ، لوگ محبتوں کے ساتھ بغلگیر ہوتے رہے، سندھی، پنجابی، پٹھان، اردو سپیکنگ، بلوچی، سرائیکی سب ہی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چلتے رہے۔مگر یہ منظر بدخواہوں کو کچھ زیادہ اچھا نہیں لگا۔نقیب اللہ محسود اور راﺅ انوار کے معاملے کو ایک نسلی اور لسانی رنگ میں رنگنے کی کوشش شروع کردی گئی۔ شہید نقیب اللہ کے ساتھ ظلم ہوا۔ظالم جو بھی ہو اسے سزا مل کر رہے گی۔ عدالتیں باخبر بھی ہیں اور مستعد بھی، تحقیقاتی ایجنسیاں حکومتی ہدایات کی روشنی میں معاملہ سلجھانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں، کل نہیں تو پرسوں، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا لیکن اس سارے معاملے کا لسانی اور نسلی اختلافات سے کوئی تعلق نہیں۔ مقام افسوس یہ کہ شہید نقیب اللہ محسود کے معاملے کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پشتونوں میں دیگر پاکستانیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔حال ہی میں منظور پشتین نام کے ایک صاحب اچانک سے منظر عام پر آئے ہیں اور انہوں نے اسلام آباد میں شہید نقیب اللہ محسود کے حوالے سے ہونے والے کسی احتجاجی اجلاس میں الزام لگایا کہ جنوبی وزیرستان میں عوامی فلاح و بہبود کے وہ تمام منصوبے جن کی تکمیل کا فوج اور دیگر ادارے دعوی کرتے ہیں وہ سب غلط بیانی پر مشتمل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں بسنے والوں کے ساتھ بہت ظلم کیا جارہا ہے۔ کچھ اسی طرح کا پراپگینڈہ پشتون علاقوں میں مشال اور دیوا نام کے نام سے چلنے والے ایف ایم ریڈیوز پر بھی تواتر سے کیا جارہا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ماضی میں سوات اور آس پاس کے دیگر علاقوں میں افواج پاکستان، حکومت پاکستان اور پاکستانی عوام کے خلاف نفرت پھیلانے میں اسی طرح کے ایف ایم ریڈیوز بہت متحرک کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس صورت حال پر ہماری حکومت اور عسکری ادارے کس طرح اور کتنی دیر میں قابو پاسکیں گے۔تاہم یہ بات طے شدہ ہے کہ پاکستان دشمن قوتوں کی طرف سے اس طرح کے حملے نہ تو اچانک ہیں نہ ہی کوئی نئے۔ پہلے اسی طرح کی کوشش بلوچستان میں آگ لگانے کے لیے کی جاتی رہی۔ مقامی سرداروں ، سیاستدانوں اور بلوچستان کے وطن دوست لوگوں کی مدد سے حکومت اور عسکری اداروں نے ایسے دشمن عناصر کی ہر چال کو مات دے دی۔ بلوچستان کے بہادر اور محب وطن باسیوں کے لیے ترقی اور خوش حالی کے نئے امکانات کو روشن کیا گیا، سڑکیں تعمیر ہوئیں، سکول کالج اور ہسپتال بنائے گئے، بلوچ نوجوانوں کو روزگار کے نئے مواقع فراہم کرنے کے لیے ان کی فوج میں بھرتی کے لیے قوانین میں ردو بدل کیا گیا۔ مختصر یہ کہ غیر ملکی اشاروں پر آزادیء بلوچستان کی تحریک چلانے والوں کے پاس جھوٹا سچا کوئی بھی جواز باقی نہیں رہا۔ بلکہ بلوچستان کے مقامی لوگوں نے حکومت اور عسکری اداروں کے تعاون سے ایسے تمام عناصر کو سرحد سے اتنی دور پھینک دیا کہ وہ آئندہ بلوچستان کی طرف نظر اٹھانے کی ہمت ہی نہ کر سکیں۔اب صورت حال یہ ہے کہ بلوچستان کو پاکستان سے جدا کرنے کا خواب دیکھنے والے مکمل طور پر مایوس ہو چکے ہیں اور اسی مایوسی کی حالت میں انہوں نے اب ایک نئی سمت میں کام کرنے کی نیت باندھ لی ہے۔اب ان کا نشانہ پشتون آبادی والے علاقے ہیں۔پاکستان کے لیے اس طرح کی ’ وار گیمز‘ سے نمٹنا کوئی مشکل یا نیا کام نہیں۔ایک دوسرے سے مختلف سیاسی نظریات، بہت سی الگ الگ لسانی وعلاقائی شناختوں اور مسلکی نکتہ نظر میں کئی حوالوں سے واضح علمی فرق کے باوجود پاکستانی قوم کے پاس دشمن سے نمٹنے کا سب سے مؤ ثر ہتھیار آپس کا اتحاد ہے۔ ذرا سا مڑ کر دیکھیے، پاکستان کے بدخواہوں نے پاکستان کے لیے کیسی کیسی رکاوٹیں کھڑی کیں، کبھی ہمارے بچوں کو دہشت گردی کی آڑ میں ذبح کیا گیا تو کبھی ہماری پولیس ، ہماری فوج اور ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کے افسروں اور جوانوں کے گلے کاٹ کر ان کے ساتھیوں کو یہ سبق دینے کی کوشش کی گئی کہ دہشت گردوں کے راستے میں آﺅ گے تو یوں ہی مٹا دیے جاﺅگے لیکن ہمارے بہادر بیٹوں کے حوصلوں میں رتی برابر بھی کمی نہیں آئی۔تاہم ہم سب کے لیے یہ بات باعث تکلیف ضرور ہے کہ عالمی امن کی ہر کوشش میں خلوص نیت کے ساتھ شامل ہونے کے باوجود امریکا جیسے ہمارے ہمدم دیرینہ ہم پر دہشت گردوں کی سرپرستی کا الزام لگاتے ہیں اور بھارت جیسے انسانی حقوق کو کچلنے والے ممالک کو امن کا داعی اور ضامن قرار دیتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عنوان سے امریکا کی جلائی ہوئی نام نہاد آگ میں سب کچھ جھونکنے کے بعد بھی ہمارے ہی ملک کو دہشت گردوں کی محفوظ ترین پناہ گاہ قرار دیا جاتا ہے اور ہمیں دھمکایا جاتا ہے کہ اگر ہم نے دہشت گردوں کی مدد سے ہاتھ نہ اٹھایا تو پاکستان کو ہر قسم کے فوجی اور اقتصادی تعاون سے محروم کردیا جائے گا ۔ہمیں ان زمینی دیوتاﺅں کو یہ بات سمجھانا پڑے گی تم نہ تو ہماری امداد کرنے کی پوزیشن میں ہو نہ ہی ہم تمہارے کسی تعاون کے منتظر۔تم اگر ہم پر مہربان ہو تو ہماری کسی کمزوری، لاچاری اور بے بسی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے کہ ہم تمہاری ضرورت ہیں۔ہمارے کرم فرماﺅں کو یہ بات بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم دیوتاﺅں کو آقا مان کرخود کو ان کا غلام کرنے والی قوم نہیں، ہم پاکستانی ہیں،رات کا چاند اور دن کا سورج۔
فیس بک کمینٹ