نوید زکی کا تعلق ملتان سے ہے، ایک عرصے سے امریکی ریاست نیو جرسی میں مقیم ہیں، وہاں ان کا شمار انتہائی قابل اور باصلاحیت انجینئرزمیں ہوتا ہے۔ ان کی شریک حیات بھی وہاں طب کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ چند ہفتے قبل وہ خاتون کچھ ضروری امور نمٹانے کے لیے پاکستان آئیں تو فضائی سفر میں پرواز کے شیڈول کے دوران انہیں راستے کے کسی ملک میں کچھ دیر کوعارضی قیام کرنا پڑا۔اس طرح کے قیام کو ٹرانزٹ کہا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے اس قیام کے دوران ان پر کرونا وائیرس کا حملہ ہوگیا۔ پاکستان پہنچنے کے کچھ ہی دن بعد ان کی حالت بہت خراب ہوگئی۔ پاکستانی ڈاکٹرز نے ایک سرکاری ہسپتال میں ان کی جان بچانے کی سرتوڑ کوشش کی، کبھی حالت سنبھلنے لگی تو کبھی یوں محسوس ہوا کہ معاملہ بس گھڑی دو گھڑی کا رہ گیا ہے۔ لیکن ہمارے ڈاکٹرز نے ہمت نہیں ہاری اور بالآخر وہ خاتون مکمل طور پر صحت یاب ہوکر اپنے دیس روانہ ہوگئیں۔
اس دوران امریکی ڈاکٹرز بھی اس مریضہ کے علاج معالجے کے تمام معاملات کی مکمل خبر گیری کرتے رہے۔ امریکا میں اس ظالم وائرس کا شکار ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے یقینا ان امریکی ڈاکٹرز کو یہ خیال ہوگا کہ جب اپنے بے پناہ وسائل اور بہت سی سائینسی ترقی کے باوجود بھی ہم اپنے مریضوں کی زندگی بچانے میں ناکام ہورہے ہیں تو ایسے میں اپنے انتہائی محدود وسائل میں پاکستانی ڈاکٹرز کسی بھی کرونا پیشنٹ کے لیے کچھ زیادہ کچھ خاص نہیں کرسکیں گے لیکن خاتون کے زندہ سلامت امریکا پہنچنے پر ان امریکی ڈاکٹرز کے تمام اندیشے اور وسوسے دم توڑ گئے۔ انجینئر نوید زکی نے دوستوں کے ایک واٹس ایپ گروپ میں اپنی اہلیہ کی صحت یابی کے حوالے سے اپنا ایک پیغام شیئر کیا۔ میں اس پیغام کا آسان اردو میں ترجمہ اپنے پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
”مجھے پاکستان پر فخر ہے اور اپنے پاکستانی ہونے پر بھی۔سچ پوچھیں تو پاکستان میں کرونا وائرس کے مریضوں کو اتنے اچھے انداز میں ٹریٹ کیا جارہا ہے جس انداز میں ہم نیو جرسی میں بھی نہیں کر پارہے۔میری اہلیہ خود بھی طب کے شعبے سے وابستہ ہیں، انہیں چند ہفتے قبل پاکستان جانا پڑا، راستے میں ان پر کرونا وائرس کا حملہ ہوگیا۔پاکستانی ڈاکٹروں نے اس مہارت اور جانفشانی کے ساتھ ان کا علاج کیا جس کا ہم یہاں امریکا میں تصور بھی نہیں کر سکتے۔میں تو یہ کہوں گا کہ پاکستانی ڈاکٹر کرونا وائرس کا مقابلہ جنگی جذبے کے ساتھ کر رہے ہیں۔ میری اہلیہ کو نئی زندگی ملی تو اس کا سارا کریڈٹ پاکستانی ڈاکٹروں کو جاتا ہے۔ اللہ ان کے ہاتھوں کو شفاء کی اور بھی قوت سے نوازے۔ پاکستان زندہ باد۔“
پاکستانی ڈاکٹر ہوں یا انجینئر، گلوکار ہوں یا قلمکار، کوہ پیما ہوں یا کھلاڑی دنیا بھر میں ان کی صلاحیتوں کا لوہا مانا جاتا ہے، امریکا جیسے انتہائی ترقی یافتہ ملک میں بھی ہر مریض کی خواہش ہوتی ہے کہ پاکستانی ڈاکٹر اس کا علاج کریں، یہی سبب ہے کہ آج امریکا میں بیس ہزار کے لگ بھگ پاکستانی ڈاکٹر خدمت خلق میں مٖصروف دکھائی دیتے ہیں لیکن ان تمام حقائق کے باوجود یہ بات بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ بطور قوم ہم پاکستانیوں کا تاثر کچھ زیادہ مثبت اور خوشگوار نہیں ہوتا۔ہمیں انتہا پسند، دہشت گرد اور بدعنوان سمجھا جاتا ہے۔ دنیا کے سامنے ہمیں ایک منفی انداز میں متعارف کرانے کے ذمے دار کوئی اور لوگ نہیں ہماری اپنی صفوں میں خاموشی سے کھڑے ہوئے مٹھی بھر بدخواہ ہیں جنہیں پاکستان میں کبھی کچھ بھی اچھا نظر نہیں آتا۔یہ وہ لوگ ہیں جو نوزائدہ پاکستانی معاشرے کا مقابلہ اور موازنہ امریکا اور برطانیہ جیسے قدیم معاشروں سے کرتے ہیں۔
4جولائی1776کو اعلان آزادی کرنے والی متحدہ ریاست امریکا اور مدتوں دنیا کے ایک بڑے حصے کو اپنی غلامی میں رکھنے والی متحدہ ریاست برطانیہ کی اقتصادی خوشحالی اور سیاسی استحکام کا مقابلہ ستر بہتر سال پہلے جنم لینے والے معاشرے سے کرنا ہی نا انصافی ہے۔ تہذیبوں کو مثال کا روپ دھارنے کے لیے طویل عرصوں اور لمبے زمانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔اقتصادی ترقی اور سیاسی استحکام کے حوالے سے ہمارا پاکستانی معاشرہ آج جس بہتر نہج پر ہے، آج سے تیس سال پہلے نہیں تھا۔وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یقینا معاملات مزید بہتری کی طرف جائیں گے۔
دنیا بھر میں اپنے ملک کا ایک مثبت اور سافٹ امیج پیش کرنا دراصل میڈیا کی ذمے داری ہوتی ہے۔ میڈیا کی تین اقسام آج کل عوام پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں، پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا۔ماضی میں اخبارات ابلاغ کا سب سے مؤ ثر اور طاقت ور ترین ذریعہ ہوتے تھے، اگرچہ اخبارات کی عوام میں اثر پذیری پہلے سے کچھ زیادہ کم نہیں ہوئی لیکن بدلتی اقتصادی صورت حال نے بہر حال خرید کر اخبار پڑھنے والوں کی تعداد کو متاثر ضرور کیا ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ خود کو نئی دنیا سے ہمقدم رکھنے اور شانہ بشانہ چلانے کے لیے اخبارات اپنے انٹرنیٹ ایڈیشن متعارف کرانے پر مجبور ہوگئے، صبح سویرے چائے کی پیالی کے ساتھ اخبار پڑھنے والوں کے ہاتھ میں چائے کی پیالی کے ساتھ اینڈرائیڈ فون آگیا، اخبار کی قوت ختم تو نہ ہوسکی، کم ضرور ہوگئی۔
رہی بات الیکٹرانک میڈیا کی تو الیکٹرانک میڈیا تو کہنی کی چوٹ کی طرح ہوتا ہے۔ایک بلٹن میں نشر ہونے والی خبر آپ کو بہت سی دفعہ اگلے بلٹن میں نہیں ملتی۔اخبار کے صفحات کو تو بار بار پلٹ کر جتنی دیر چاہیں خبر اور اس کی تفصیلات پڑھتے رہیں، الیکٹرانک میڈیا پر ایسا نہیں ہوتا، پھر یہ بھی ہے کہ چینل پر معاملات سے باخبر رہنے کے لیے بجلی، انٹرنیٹ یا کیبل کنکشن اور ایک عدد ٹی وی یا ایل ای ڈی کے ساتھ ساتھ ماحول اور فرصت کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو یقینا ہر ایک کے لیے ممکن نہیں۔تیسرا نمبر سوشل میڈیا کا ہے۔کسی تام جھام کی ضرورت نہیں ہوتی، کوئی بھی سستا سا موبائل قسطوں پر مل جاتا ہے، پانچ دس روپے روز کا انٹرنیٹ پیکج بھی دستیاب ہوجاتا ہے۔فیس بک، ٹوئیٹر،انسٹاگرام اور سب سے بڑھ کر واٹس ایپ، سوشل میڈیاصارفین کے لیے بہت کچھ آسانی سے دستیاب ہوتا ہے۔سوشل میڈیا کے حوالے سے کوئی سخت پالیسی نہ ہونے کے باعث، بالخصوص واٹس ایپ بے شمار گمراہ کن خبروں کو پھیلانے کا باعث بن رہا ہے۔کسی سے ذاتی رنجش ہو، سیاسی اختلاف ہو، دفتری جھگڑا ہو یا پھر کچھ بھی، واٹس ایپ پر جو چاہیں اپ لوڈ کر دیں، خود بخود آگے سے آگے شیئر ہوتا چلا جائے گا۔ابھی دو دن پہلے میرے چھوٹے بیٹے نے نہایت خوشی کے ساتھ مجھے خبر دی کہ سکول جون کے بعد کھلیں گے۔ وہ ساتویں جماعت کا طالب علم ہے۔میں نے حیران ہوکر پوچھا تمہیں کہاں سے معلوم ہوا تو کہنے لگا واٹس ایپ پر کسی نیوز چینل کا کلپ شیئر ہوا ہے۔ میں نے بھی وہ کلپ دیکھا تو معلوم ہوا وہ کسی یو ٹیوب نیوز چینل کی خبر تھی۔ اور خبر کی سرخی کچھ یوں تھی ’کرونا کے باعث سکول جون تک بند رکھے جائیں گے؟؟‘۔ صرف سکول کالجوں کا معاملہ نہیں، عدالت عالیہ، حساس ادارے، صدر، وزیر اعظم، اپوزیشن کے نمایاں لوگ، دینی راہنما، کوئی بھی سوشل میڈیا کی اس طرح کی شر انگیزیوں سے محفوظ نہیں۔اگر صورت حال کو سختی سے کنٹرول نہ کیا گیا تو یقین کریں ہمارے معاشرے میں بے یقینی اور بدگمانی اتنی بڑھ جائے گی کہ بھائی بھائی سے خوف کھانے لگے گا۔اپنے معاشرے سے، اپنے ملک سے محبت کیجیے، اس کی قدر و قیمت کو جانیئے، دنیا کو بتائیے کہ ہمارے پاس بہت کچھ اچھا بھی ہے، ہماری بہت سی اعلیٰ روایات بھی ہیں،ہمارے ہاں زخمیوں کو خون کی ضرورت پڑ جائے تو خون کا عطیہ دینے والوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔کہیں آگ لگ جائے تو ہمسائے آگ میں گھر جانے والوں کو بچانے کے لیے فائر فائیٹرز کی طرح آگ میں کود پڑتے ہیں۔
ہم بہت اچھے لوگ ہیں لیکن ہماری اچھائی کی خبر دنیا تک پہنچانے والوں کی قلت ہمارے لیے مشکلات میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ ہمیں ایسے لوگوں کی ایک بھرپور کھیپ کی ضرورت ہے جو جنگی بنیادوں پر دنیا کو پاکستان کے سافٹ امیج سے روشناس کروا سکیں۔ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ سوشل میڈیا کی منہ زور آزادی کو قواعد و ضوابط کا پابند بنانے کے ساتھ سا تھ دنیا کو یہ بات بھی باور کرائی جائے کہ پودا لگاتے ہی نہ تو درخت بن جاتا ہے نہ ہی اس میں پھل لگنا شروع ہوجاتا ہے۔صدیوں پرانی اس وسیع و عریض دنیا میں پاکستان ایک نئے پودے کی طرح ہے جسے ایک تناور پھل دار درخت بننے میں ابھی بہت سا وقت درکار ہے۔پاکستان سے بہترین رویوں کی توقع ضرور کریں مگر تھوڑی مہلت بھی ضرور دیں کیونکہ سدھار اور نکھار جیسے پراسیس وقت مانگتے ہیں۔
فیس بک کمینٹ