غزل : آج ہم اپنے روبرو ہی سہی ۔۔ عمار غضنفر
آج ہم اپنے روبرو ہی سہی
دو گھڑی خود سے گفتگو ہی سہی
ان سے ملنا اگر نہیں ممکن
ان سے ملنے کی آرزو ہی سہی
کچھ نہیں اب تو مشغلہ دل کا
آپ سا کوئی،خوبرو ہی سہی
کچھ بھرم بے خودی کا رہ جائے
سربسجدہ ہوں، بے وضو ہی سہی
دل کو مطلب ہے غل مچانے سے
ایک ہنگامہ ہاؤ ہو ہی سہی
موت جب تک نہ در پہ دے دستک
زندہ رہنے کی جستجو ہی سہی
ہم نہیں اس کے در سے اٹھنے کے
وہ حسیں،شوخ،تندخو ہی سہی
ہے زمانہ خراب ہونے کا
نیک طنیت وہ نیک خو ہی سہی
کچھ تعلق تو چاہیے دل کو
وہ نہیں دوست تو عدو ہی سہی
ہم نے "عمار” اس خرابے میں
کچھ بچایا تو آبرو ہی سہی
*** عمار غضنفر
فیس بک کمینٹ