عزیزی علی میر کو ہم سب ایک بے مثال نقالی (Mimic) اور فنکار کے حوالے سے جانتے ہیں اور میری ذاتی رائے میں معین اختر اور بشریٰ انصاری کے بعد وہ اور سہیل احمد ہی دو ایسے فنکار ہیں جنھوں نے اس فن میں غیرمعمولی اور دیرپا شہرت اور ایسی عوامی مقبولیت حاصل کی ہے جو اپنی جگہ پر ایک سنگ میل ہے۔
جناب علیؓ کا قول ہے کہ غیر معمولی شہرت دولت یا طاقت ملنے والوں کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ اس کی وجہ سے بدل گئے ہیں لیکن یہ بات نہیں ہے وہ بدلتے نہیں صرف ظاہر ہو جاتے ہیں اور ان کے اندر کا ’’چھوٹا پن‘‘ سامنے آ جاتا ہے۔ بہت کم لوگ ہیں جو اس کڑی منزل سے کامیابی کے ساتھ گزرتے ہیں۔ میری دانست میں میر علی کا شمار بھی ایسے ہی خوش بخت اور نیک فعال لوگوں میں ہوتا ہے جو پھلدار درختوں کی طرح ہر آنیوالے بار آور موسم میں مزید جھکتے چلے جاتے ہیں۔
ہم سب کے محترم حکیم محمد سعید شہید کا تعلق بھی اسی محدود گروہ سے تھا چنانچہ جب ان کی صاحبزادی اور ہمدرد فاؤنڈیشن کی سربراہ سعیدیہ راشد بہن کی طرف سے یہ اطلاع ملی کہ وہ اس نوجوان کی صلاحیتوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک خصوصی تقریب اور عشائیے کا اہتمام کر رہی ہیں تو حیرت کے بجائے دلی خوشی ہوئی کہ وہ اپنے عظیم والد کی اس خوبصورت روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں کہ ’’جوہر‘‘ جہاں بھی ہو اس کی پہچان اور عزت کی جائے اور ہنرمند لوگوں کو ان کے فن کا خراج ان کی زندگی میں بھی پیش کیا جائے کہ اس سے ’’خیر‘‘ کی تشہیر ہوتی ہے۔
میر علی کی عمر ابھی صرف 36 برس ہے مگر اس نے گزشتہ دس برس میں پانچ سو سے زیادہ مشہور افراد کی آواز اور گٹ اپ کی کامیاب اور انتہائی دلچسپ نقالی کرکے ایک ایسا ریکارڈ قائم کیا جسے توڑنا اگر ناممکن نہیں تو بیحد مشکل ضرور ہو گا اور مجھے خوشی ہے کہ اس کی تحسین کے اس عمل میں میرا نام بھی شامل تھا۔ یہاں پھر احمد مشتاق کا زندہ جاوید شعر یاد آ رہا ہے کہ
نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے، ویرانے میں
اس سے ہونے والی ہر ملاقات میں میں نے محسوس کیا کہ رب کریم نے اسے انکسار اور محنت کے ساتھ ساتھ سینئرز کی تکریم کی نعمت سے بھی سرفراز کیا ہے اور یہ کہ وہ خیر کے کاموں میں حصہ ڈالنے کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال اگلے ہی روز دیکھنے میں آئی جب اس نے فون پر مجھے بتایا کہ نابینا نوجوانوں کی کرکٹ ٹیم کی ایک تقریب تقسیم انعامات میں وہ نہ صرف خود شامل ہو رہا ہے بلکہ اس کی خواہش ہے کہ میں بھی اس محفل میں شرکت کر کے ان بچوں کا حوصلہ بڑھائوں۔
اس وقت تک میر علی کو یہ علم نہیں تھا کہ شاعر اور ڈرامہ نگار بننے سے پہلے میں بھی دن رات کرکٹر بننے کے خواب ہی دیکھا کرتا تھا سو جب عظیم لیگ اسپنر عبدالقادر کے ساتھ ہم تینوں جوہر ٹائون میں واقع علیم ڈار کرکٹ اکیڈمی کی طرف روانہ ہوئے تو سارا راستہ کرکٹ ہی کی باتوں میں کٹ گیا۔ گرائونڈ میں نابینا افراد کے اس ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والی چاروں ٹیموں کے کھلاڑیوں اور منتظمین کے علاوہ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے جانے پہچانے احباب بھی موجود تھے جب کہ کچھ لوگوں سے بالمشافہ پہلی بار ملاقات ہوئی۔ یہ سب لوگ بھی ان کھلاڑیوں کی تحسین اور حوصلہ افزائی کے لیے وہاں پہنچے تھے۔
معلوم ہوا کہ جسٹس ریٹائرڈ قیوم کی بیگم صاحبہ اس کی پیٹرن اور روح رواں ہیں اور گزشتہ بیس برس سے یعنی عالمی سطح پر نابینا کھلاڑیوں کو پہلی پاکستانی ٹیم کے قیام سے لے کر اب تک وہ اپنے چند رفقاء کے ساتھ ان کی سرپرستی کے اس عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اب تک کے ہونے والے نابنیا افراد کے ورلڈ کپ مقابلوں میں کل چار فائنل کھیلے گئے ہیں جن میں سے دو پاکستان نے جیتے اور دو بار اس کی ٹیم رنر اپ رہی۔ ٹیم کے پہلے کپتان ساجد اور ان کے ساتھ دو ورلڈ کپ کے فاتح عبدالرزاق اور عامر اشفاق بھی موجود تھے۔
دیگر مہمانوں میں جو نام اور چہرے یاد رہ گئے ہیں ان میں کرکٹ اور ہاکی کے قومی کھلاڑیوں کے علاوہ جسٹس شیخ ریاض، ان کی بیگم اور ادیبہ بلقیس ریاض، ملک غلام جیلانی، پرویز ملک بھائی کا ایم این اے صاحبزادہ، ملک ریاض کی بیٹی، زیدی اسپورٹس کے دوست اور قومی ٹیم کے سابقہ منیجر زیدی بھائی نمایاں تھے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ نابینا کھلاڑیوں کی قوت بصارت کے تین درجے ہوتے ہیں، مکمل نابینا، تین میٹر تک دیکھ سکنے والے اور سات میٹر تک دیکھنے والے مگر اصل بات بینائی سے زیادہ ان کے اس ’’دیدۂ بینا‘‘ کی ہے جس کے ان کے اندر اپنی محرومی کو قبول کرنے اور اس سے لڑنے کا حوصلہ پیدا کیا اور انھوں نے وہ کام کردکھائے جو بظاہر سکس بائی سکس کی قوت بصارت رکھنے والوں سے بھی آگے کے تھے۔
جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے اور پھر ان کو تعبیر دینے کا حوصلہ رکھنے والوں کو ایک جگہ پر اتنی بڑی تعداد میں دیکھنا اور ملنا اپنی جگہ پر شاندار تجربہ تھا اور تعریف اور مبارکباد کے حقدار ہیں وہ لوگ جو ان کی فلاح، دیکھ بھال اور ترقی کے لیے جی جان سے اور محض انسانی خدمت کے جذبے کے تحت اپنا وقت اور حسب توفیق سرمایا بھی استعمال کرتے ہیں۔
میر علی اور ان دوستوں کی محبت کے طفیل بہت دنوں بعد مجھے کسی کرکٹ گرائونڈ میں قدم رکھنے اور چلنے پھرنے کا موقع ملا۔ امید کی جانی چاہیے کہ اب حکومت پاکستان اور سپووٹس منسٹری سے تعلق رکھنے والے احباب بھی ان کی تحسین اور حوصلہ افزائی کے لیے پہلے سے زیادہ کام کریں گے کہ ان کی پرفارمنس کسی بھی اعتبار سے ہماری قومی ٹیم سے اگر زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ