ممکن ہے یہ دونوں نام آپ کے لیے اجنبی اور غیر مانوس ہوں، بیرگن کی حد تک خود میرے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا کہ اس نام کا کوئی شہر اس سے پہلے نہ کبھی دیکھا اور نہ سنا تھا، ستوانگر البتہ دوبار جانا ہوچکا تھا اور اس کے بارے میں یہ بھی پتہ تھا کہ ہے تو یہ بھی بیرگن کی طرح ناروے کا ایک ساحلی حصہ نما شہر مگر اس کی وجہ شہرت وہاں کی آئل انڈسٹری ہے کہ اس علاقے سے سمندر سے تیل نکلنے کی وجہ سے ہی ناروے کی قسمت بدلی تھی اور گزشتہ تیس چالیس برسوں میں وہ فی کس آمدنی کے اعتبار سے دنیا کے پہلے چند ممالک کی صف میں شامل ہوا تھا، جب کہ اس سے قبل اسے ہی نہیں بلکہ پورے سکینڈے نیویا کو یورپ والے ایک پسماندہ گاؤں تصور کیا کرتے تھے۔
معلوم ہوا کہ بیرگن بھی ایک ساحلی شہر ہے اور آبادی کے اعتبار سے اوسلو کے بعد اس ملک کا دوسرا بڑا شہر شمار کیا جاتا ہے اب جہاں تک اوسلو کی آبادی کا تعلق ہے تو شائد اب وہ نو یا دس لاکھ ہو، اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ دوسرا بڑا شہر زیادہ سے زیادہ کتنا بڑا ہو گا، سو ہم سب کا یہی خیال تھا کہ ہم کسی چھوٹے سے غیر آباد قسم کے ہوائی اڈے پر اتریں گے مگر جب لینڈنگ کے بعد جہاز نے جیٹی کی طرف سفر شروع کیا تو پچیسویں نمبر پر جا کر رُکا۔ جب کہ ہمارے تقریبا ایک کروڑ آبادی والے لاہور شہر کے نئے ائیرپوٹ پر بھی غالباً یہ سہولت بارہ یا سولہ جیٹیوں تک محدود ہے۔
کم و بیش بھی فرق ائیرپورٹ کے اندر کا بھی تھا کہ اس کا رقبہ بھی کراچی ائیرپورٹ سے کہیں زیادہ تھا، اسی ششدریت کے عالم میں سامان لے کر باہر نکلے تو یہاں طیب اپنی مخصوص خوشگوار مسکراہٹ کے ساتھ چشم براہ تھے ۔ مقامی میزبان آصف صاحب کی ٹیکسی کا سامان لادنے کے دوران ہم میں سے ہر ایک نے اس شہر کی وسعت، آبادی، ماحول اور یہاں پر آباد پاکستانیوں کی تعداد اور حالت کے متعلق سوالات داغنے شروع کر دیئے جن میں سے ایک کے علاوہ سب کے جواب مل گئے مگر یہ راز آخر تک نہ کھل سکا کہ ائیر پورٹ کے باہر ایک بڑی سی دیوار پربیرگن کا نام لکھنے کے بعد اس کے آگے ایک سوالیہ نشان ؟ کیوں ڈالا گیا ہے؟
معلوم ہوا کہ برادرم سلمان گیلانی بھی پہنچ چکے ہیں اور اس حصے کے چاروں مشاعروں میں وہ ہمارے ساتھ ہوں گے لیکن دوسری اطلاع بہت حوصلہ شکن تھی کہ اس شہر میں پاکستانیوں کی کل تعداد 240 افراد پر مشتمل ہے جس میں بچے اور عورتیں سب شامل ہیں۔ لہٰذا ہال میں ستر کے قریب مرد و زَن کو دیکھ کر حساب لگایا گیا کہ اس وقت بیرگن کا ہر تیسرا یا چوتھا پاکستانی یہاں موجود ہے۔ لیکن جس محبت دلجمعی اورادب اور وطن دوستی کے ساتھ ان احباب نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا وہ بہت ہی خوشگوار اور حوصلہ بخش تھا۔
یہ شہر ایک ایسے پہاڑی علاقے میں واقع ہے جس میں جگہ جگہ سمندر نے رخنے ڈال رکھے ہیں اور یوں بہت سی کھاڑیوں Creeks کے درمیان یہ چھوٹی چھوٹی آبادیوں کا ایک خوبصورت اور پرسکون مجموعہ ہے جہاں کی ہوا اور فضا دونوں دل کو کھینچتی ہیں اور یہ سلسلہ کم و بیش اسی طرح ستوانگر تک جاری رہتا ہے جہاں جانے کے لیے منتظمین نے بذریعہ بس سفر کرنے کا بہت ہی اچھا فیصلہ ہماری آمد سے قبل ہی کر رکھا تھا۔
تقریباً چار گھنٹے کا یہ یادگار سفر جس میں بہت سی سرنگوں سے گزرنے کے ساتھ ساتھ دو بار بس سمیت فیری میں چڑھنے اور اُترنے کا تجربہ شامل تھا بے حد پُر تکلف رہا۔ بارش میں بھیگتی چوٹی مگر محفوظ سڑکوں کے اردگر د کے روح پرور مناظر ایسے خوبصورت اور روح پرور تھے کہ الفاظ ان کا احاطہ نہیں کر پاتے ۔فیری میں چائے پانی کا بھی معقول انتظام تھا لیکن وصی شاہ نے ایک طر ف رکھے بہت بڑے فریزر میںسے ایک ایسی قلفی نما آئسکریم ڈھونڈ نکالی جو اپنی شکل و صورت اور ذائقے کی وجہ سے اس قدر ہٹ ہوئی کہ میں نے اور اس نے اگلی فیری کے مختصر سفر میں بھی اس کی ’’تائید تازہ‘‘ کا مزا لیا۔
اچھا ہوا کہ میرے شوگر کے معالج ڈاکٹر امتیاز حسن وہاں نہیں تھے ورنہ اور کچھ نہیں تو دوسری قلفی ضرور ’’پرہیز‘‘ کی نذر ہو جاتی۔ اس سے قبل جاپان میں ٹوکیو سے اوساکا تک کے سفر کے درمیان بار بار سرنگوں سے گزرنے کا تجربہ ہوا تھا مگر ناروے والے تو غالباً! ان کے عشق میں مبتلا ہیں چھوٹی بڑی ہرطرح کی سرنگیں بناتے ہی چلے جاتے ہیں ۔ ایک آٹھ کلومیٹر لمبی سرنگ بھی رستے میں آئی مگر ایسی عمدہ اور خوب صورت کہ نہ کوئی گھٹن محسوس ہوئی اور نہ بوریت۔
ستوانگر میں اگرچہ قبل ازیں دو بار جانا ہو چکا تھا مگر زمینی راستے سے یہ اس سے پہلی ملاقات تھی حسبِ توقع عزیزی ڈاکٹر نوخیز اپنے دس بارہ احباب سمیت بس کے اڈے پر منتظر تھے جمعہ کی نماز کا وقت ہو چکا تھا چنانچہ طے پایا کہ پہلے اس فریضے کو ادا کر لیں۔ ستوانگر میں پاکستانی تو ہزار بارہ سو ہی ہیں لیکن افریقی ممالک سے مسلمانو ں کی ایک خاصی بڑی تعداد اب وہاں آباد ہو چکی ہے چنانچہ نمازیوں کی کثرت کی وجہ سے جماعت دو بار کھڑی ہوتی ہے۔
وہاں اوسلو سے آئے ہوئے ہمارے پرانے غزالی دوست ساتھی نذر عباس صاحب اور سابق خطیب جامع مسجد اوسلو مولوی محبوب الرحمن سے ملاقات ہوئی جو خاص طور پر اس تقریب میں شمولیت کے لیے بذریعہ ریل طویل سفر طے کر کے وہاں پہنچے تھے، سو نماز کے بعد کھانے اور پھر ہوٹل میں سامان وغیرہ رکھنے کے دوران ہی تقریب کا وقت ہو گیا جو حسبِ توقع بہت کامیاب رہی، رات کا کھانا ڈاکٹر نوخیز نے اپنی طرف رکھا تھا ، میزبان اور مہمان دونوں عجب مخمصے میں تھے کہ ایک طرف صبح صبح اوسلو کے لیے فلائٹ پکڑنا تھی ا ور دوسرے ابھی تک حال احوال پوچھنے کے علاوہ کسی بات کا موقع ہی نہ مل سکا تھا ۔ ہماری اصل فلائٹ ستوانگر سے کوپن ہیگن تک براہ راست تھی۔
منتظمین کا خیال تھا کہ ایک ہی بار کوپن ہیگن پہنچ کر چند گھنٹے آرام کا کچھ وقت مل جائے گا لیکن ہوا یوں کہ دو دن قبل SAS سکینڈے نیویا ائیر سروس والوں کے عملے نے ہڑتال کر دی جس کی وجہ سے سیکڑوں پروازیں منسوخ ہو گئیں اور ہزاروں مسافروں کو دربدر ہونا پڑا جہاں طیب نے رات دن جاگ کر ہمارے لیے ایک متبادل نارویجن ائیر کی فلائٹ کا انتظام تو کر لیا مگر یہ براستہ اوسلو جاتی تھی اور درمیان میں پانچ گھنٹے کا وقفہ تھا۔ ہوائی سفر کا تجربہ رکھنے و الے احباب بخوبی جانتے ہیں کہ ایک سے دوسری پرواز میں ٹرانسفر کا یہ وقفہ کس قدر بورنگ اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔
ہمارے معاملے میں ایک خوشگوار سی ترمیم یوں ہوتی کہ ہم کُل ملا کر سات ہم سفر تھے، اگرچہ برادرم نذر عباس اور قاری محبوب الرحمن کو اوسلو میں ہی رکنا تھا مگر وہ بھی ہمیں کمپنی دینے کے لیے ائیر پورٹ پر ہی رُکے رہے۔ طیب میاں کی مہارت اور مخصوص احساس ذمے داری کے باعث ہمارے سامان کی بکنگ اور بورڈنگ کارڈز کے حصول وغیرہ کے مسائل ہمارے علم میں آئے بغیر ہی حل ہو گئے۔
اب ہوا یوں کہ اس دوران میں ہم ناشتے وغیرہ سے بھی فارغ ہو چکے تھے، سو طے پایا کہ Costa کافی شاپ والوں کے آرام دہ صوفوں سے فائدہ اُٹھایا جائے، سو ہم نے تین گھنٹے اُن پر قبصۂ غاصبانہ کیے رکھا اور وہاں سے ایک کپ کافی تک نہ پی کہ اس کے لیے اُس وقت کسی کا جی نہ چاہ رہا تھا۔ سو ہم سب ائیرپورٹ پر Wifi کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے نمبر بھی ملاتے رہے جنھیں ملائے بغیر بھی گزارہ ہو سکتا تھا۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ