کہا جاتا ہے کہ حقیقت افسانے سے زیادہ عجیب ہوتی ہے لیکن اگر اس کی وضاحت کے لیے کوئی مثال دینی پڑجائے تو دماغ چکرا سا جاتا ہے کہ ’’عذر گناہ بدتر از گناہ‘ کی طرح اس کو بھی عملی طور پر ثابت کرنا اپنی جگہ ایک امتحان بن جاتا ہے کہ عذر گناہ کیسا ہی زوردار کیوں نہ ہو گناہ اس سے کچھ اوپر ہی رہتا ہے اور حقیقت کیسی بھی دلچسپ اور عجیب کیوں نہ ہو ناقابل قبول ہونے کی حد تک افسانہ اپنے اندر اس سے کہیں زیادہ غرابت کے پہلو اور امکانات رکھتا ہے لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ دونوں کی صداقت بالآخر ثابت ہو جاتی ہے اور غالبؔ کے اس شعر کے معانی بھی سمجھ میں آنے لگے ہیں کہ:
جب تک کہ نہ دیکھا تھا قد یار کا عالم
میں معتقد فتنۂ محشر نہ ہوا تھا
اور دیکھا جائے تو یہ جو ہم ہر سال پانچ فروری کو یوم یک جہتی کشمیر مناتے ہیں یہ بھی اسی قبیل کا ایک Paradox ہے کہ اقوام عالم کی سب سے معتبر اور نمائندہ تنظیم کشمیریوں کا حق خودارادیت تسلیم کرتے ہوئے ایک باقاعدہ قرارداد کے ذریعے اسے ایک متنازعہ علاقہ قرار دیتی ہے اور اسی تنظیم کے پانچ مخصوص ممبران میں سے کسی ایک کے ویٹو کے استعمال کے باعث یہ معاملہ ستر برس سے نہ صرف لٹکا چلا جا رہا ہے بلکہ ضمیر عالم کو اتنی توفیق بھی نہیں ہوتی کہ وہ بھارت سے یہ بھی پوچھ سکے کہ اس کی سات لاکھ فوج وہاں کس حساب میں بیٹھی ہے اور کیا کر رہی ہے؟
کشمیر کے لوگوں کو طے شدہ عالمی اصولوں کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کیوں نہیں کرنے دیا جاتا۔ شیخ عبداللہ یا مہاراجہ ہری سنگھ نے اگر واقعی بھارت کے ساتھ الحاق کی کوئی حامی بھری تھی تو اس کی قانونی اور اخلاقی حیثیت کیا ہے؟
انسانوں کی محفوظ تاریخ کے آغاز سے لے کر اب تک قوموں اور تہذیبوں کے عروج و زوال پر ایک نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اگرچہ جغرافیائی اعتبار سے پانچوں براعظموں پر مختلف اوقات میں انسانی آبادیاں بنتی بگڑتی اور پھیلتی سکڑتی رہی ہیں مگر ان کے تشکیلی عناصر اور تشخص کے تعین میں رنگ‘ نسل‘ زبان اور مذہب یا عقیدے کو ہمیشہ بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے جب کہ طاقت ور یا بڑے گروہ اپنے سے چھوٹے اور کمزور گروہوں کی زمینوں اور وسائل پر قبضہ کرکے ان کے بنیادی انسانی حقوق کو غصب اور پامال بھی کرتے چلے آئے ہیں۔
دیکھا جائے تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا یہ فلسفہ اور طریقہ کار آج بھی (چند نمائشی اور کاسمیٹک قسم کی تبدیلیوں سے قطع نظر) اسی طرح سے جاری و ساری ہے۔ کہنے کو تو علوم کی ترقی‘ وسائل کے فروغ انسانی حقوق اور حق آزادی کے پرچار اور ان کی حفاظت کے لیے قائم کردہ اداروں اور عالمی عدالت انصاف کے قیام سے اب ہر فرد اور جماعت کے حقوق کی حفاظت ہم سب کی مشترکہ ذمے داری بن گئی ہے لیکن عملی طور پر فیصلے آج بھی انصاف کے بجائے مفادات کے ترازو پر ہی تولے جاتے ہیں جس کی ایک زندہ مثال کشمیر کی یہ آواز ہے جو کب سے ضمیر عالم کے دروازے پر دستک دیتی چلی آ رہی ہے اور جس کے اٹھائے ہوئے یہ سوال اب بھی اپنے جواب کی تلاش میں ہیں کہ:
کشمیر
دنیا کو نظر آتا ہی کشمیر نہیں کیا
اس خواب کی تقدیر میں تعبیر نہیں کیا
نقاش ازل ایک نظر اس کی طرف بھی
وادی یہ کسی زخم کی تصویر نہیں کیا
ہے جن کی زمیں ان کے ہی یہ پاس رہے گی
یہ فیصلہ دیوار پہ تحریر نہیں کیا
کیوں رحمت ربانی کو آتا ہی نہیں جوش
آہوں میں اثر نالوں میں تاثیر نہیں کیا
بے نور ہوئے جاتے ہیں آنکھوں کے جزیرے
ظالم کا یہاں کوئی عناں گیر نہیں کیا
کس طرح کوئی کاتب تقدیر سے پوچھے
تو ان کے لیے کاتب تقدیر نہیں کیا
دیکھو تو سہی شان ذرا اہل وفا کی
زیور کی طرح پاؤں کی زنجیر نہیں کیا
وہ جنت ارضی کہ جو مقتل کی طرح ہے
اے اہل نظر وادی کشمیر نہیں کیا!
اب آپ یہاں کشمیر کے بجائے کوئی بھی ایسا انسانی گروہ رکھ سکتے ہیں جس کے مستقبل کا فیصلہ اس کے اپنے افراد کے بجائے کچھ اور لوگ اپنے مفادات کے مطابق کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور اس کے لیے وہ انتہائی ڈھٹائی اور دیدہ دلیری سے نہ صرف عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ ہر اس آواز کو بھی دبا دیتے ہیں جو ان مظلوموں کے حق میں کسی بھی طرف سے بلند ہونے کی کوشش کرتی ہے۔
آج کل سوشل میڈیا پر مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی ایک ویڈیو بہت وائرل ہے جس میں وہ کچھ بھارتی صحافیوں کو کشمیر کی آزادی اور کشمیریوں کے حق ارادیت کے حوالے سے بہت کھل کر اور بہت پتے کی باتیں کر رہے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر وہ ان سب باتوں کو جانتے اور ان پر یقین رکھتے تھے تو وہ اپنے والد اور بیٹے سمیت اس نظام کا حصہ کیوں بنے رہے جو سراسر ناجائز اور ظلم پر مبنی تھا۔ ان کے اس اعلان پر دو طرح کا تبصرہ ہو سکتا ہے
-1 صبح کا بھولا اگر شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہنا چاہیے۔
-2اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
کانگریس کی منافقت اور بی جے پی کی جارحیت کے رویوں نے آج تک کشمیریوں کو ان کے اس حق خود ارادیت سے محروم رکھا ہے جو ان کابنیادی اور تسلیم شدہ انسانی حق ہے مگر ہر ظلم کی طرح اس تماشے کی بھی ایک حد ہے۔ کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم اور ان کی قربانیوں کی داستان بہت طویل ہو گئی ہے۔
اب ضرورت ہے کہ بھارت کے امن اور انصاف پسند لوگ بھی جو بلاشبہ تعداد میں بہت زیادہ ہیں۔ کشمیریوں اور دنیا بھر کے انصاف پسند لوگوں کی آواز میں آواز ملائیں اور اس انسانی مسئلے کے حل میں اپنا کردار ادا کریں کہ ان کی مدد اور حمایت کے بغیر کسی بھی بھارتی قیادت کے لیے اپنی ستر برس سے قائم کردہ روش سے گریز آسان نہیں ہو گا یہ کام مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں۔ آئیے مل کر دعا کریں رب کریم ہم سب کو صحیح فیصلے کرنے اور ان پر قائم رہنے کی توفیق دے۔
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )