اتوار کو کراچی پریس کلب کے باہر ’سندھ رواداری مارچ‘ کے نام سے صوبے میں مذہبی انتہا پسندی اور پولیس گردی کے خلاف مظاہرہ کیا گیا لیکن پولیس نے اس احتجاج میں شامل سول سوسائیٹی کے لوگوں، فنکاروں، خواتین اور بچوں پر لاٹھی چارج کیا۔ دفعہ 144 کی خلاف ورزی کے نام پر پولیس نے مظاہرین کو افسوسناک تشدد کا نشانہ بنایا۔اس موقع پر موجود پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے صدر اسد اقبال بٹ کو گرفتار کرنے کی کوشش بھی کی گئی اور انہیں متنبہ کیا گیا کہ وہ میڈیا سے بات نہ کریں۔
انتہاپسندی کے خلاف مارچ کا جواب دینے کے لیے تحریک لبیک پاکستان نے بھی فوری طور سے ’جوابی مظاہرے‘ کا اعلان کیا اور کراچی کے میٹرو پول ہوٹل کے قریب پولیس و رینجرز سے اس تنظیم کے مظاہرین کا تصادم ہؤا۔ پولیس مظاہرین کو پریس کلب جانے سے روک رہی تھی کیوں کہ وہاں رواداری مارچ کے شرکا موجود تھے۔ لیکن ٹی ایل پی کے مشتعل مظاہرین پریس کلب پہنچنے پر اصرار کررہے تھے ۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہاں ’توہین مذہب‘ کے حامیوں کا مظاہرہ ہورہا ہے ، اس لیے انہیں بھی وہاں جانے دیا جائے۔ اس تصادم میں احتجاج کرنے والا ایک شخص ہلاک ہؤا جبکہ زخمی ہونے والوں میں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ مظاہرین نے ایک پولیس موبائل کو نذر آتش کردیا۔ سندھ پولیس کے مطابق اس الزام میں متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ دوسری طرف سندھ رواداری مارچ میں شریک ہونے والے لوگوں کو اب رہا کردیا گیا ہے۔
اس افسوسناک تصادم سے بچا جاسکتا تھا لیکن بظاہر سندھ حکومت یا پولیس نے اس کی کوشش نہیں کی ۔ بلکہ رواداری مارچ کے شرکا کو کسی اشتعال انگیزی کے بغیر تشدد کا نشانہ بنایا ۔ اس مقصد کے لئے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کو عذر کے طور پر پیش کیا گیا تھا لیکن پریس کلب کے صدر سعید سبز واری نے واضح کیا ہے کہ کراچی پریس کلب کو لندن کے ’ہائیڈ پارک‘ کی حیثیت حاصل ہے جہاں کسی بھی قسم کی رائے کے اظہار کی اجازت ہے۔ کلب کے گرد و نواح میں دفعہ 144 لاگو نہیں ہوتی۔ شروع میں پولیس نے کراچی پریس کلب جانے والے سب راستوں کو بند کردیا تھا لیکن پریس کلب کے لیڈروں سے بات کرنے کے بعد راستے کھول دیے گئے تاہم وہاں پر امن مظاہرے کے لئے جمع ہونے والے بوڑھوں ، خواتین اور فنکاروں پر تشدد کیاگیا۔ بعد میں سندھ کے وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجر نے پولیس کارروائی کا دفاع کیا اور کہا کہ اسلام آباد میں غیر ملکی مہمان آرہے تھے ۔ اس موقع پر مظاہرے کا اہتمام کرکے ملک کا نام بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ صوبائی وزیر داخلہ کا یہ الزام قطعی بے بنیاد اور مضحکہ خیز ہے۔ دنیا بھر میں احتجاج اور مظاہرے ہوتے ہیں اور کسی احتجاج کی وجہ سے ملک کی بدنامی نہیں ہوتی ۔ البتہ جب پولیس قانون کو ہاتھ میں لیتی ہے اور پر امن شہریوں کو تشدد کا نشانہ بناتی ہے تو درحقیقت اس سے ملک و قوم بدنام ہوتے ہیں اور دنیا کو یہ پیغام بھیجا جاتا ہے کہ اس ملک میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی قانون کا احترام نہیں کرتے۔
’سندھ رواداری مارچ‘ کا اہتمام سول سوسائیٹی نے صوبے میں پولیس کی زیادتی اور بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کے خلاف ناپسندیدگی کا اظہار کرنے کے لیے کیا تھا۔ گزشتہ ماہ کے دوران میں سندھ پولیس نے توہین مذہب کے الزام میں گرفتار ایک ڈاکٹر شاہنواز کنہبار کو پولیس مقابلے میں ہلاک کرکے یہ معاملہ ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ ڈاکٹر شاہنواز پر ایک شل میڈیا اکاؤنٹ سے توہین مذہب مواد شئیر کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ ان کا پرانا اکاؤنٹ ہے جسے وہ استعمال نہیں کرتے۔ انہوں نے اہل خاندان کے مشورہ سے خود ہی گرفتاری دی تھی تاکہ قانونی کارروائی میں تعاون کرسکیں لیکن پولیس نے اندرون سندھ لے جاکر انہیں پولیس مقابلے میں ہلاک کردیا۔ پولیس آج تک یہ نہیں بتا سکی کہ زیر حراست کوئی شخص کیسے اسلحہ سے پولیس پر حملہ آور ہوسکتا ہے۔
سندھ کے وزیر داخلہ نے بعد میں تسلیم کیا تھا کہ ڈاکٹر شاہنواز کو پولیس مقابلے میں جان بوجھ کر مارا گیا تھا۔ انہوں نے چند پولیس افسروں کو معطل و گرفتار کرنے کا حکم بھی دیاتھا۔ البتہ بعد میں ان پولیس اہلکاروں کی ضمانت ہوگئی یا بعض ابھی تک روپوش ہیں اور گرفتار نہیں ہوسکے۔ تاہم اس معاملہ کی مکمل اور تفصیلی تحقیقات نہیں ہوسکیں اور نہ ہی یہ حقائق سامنے لائے گئے ہیں کہ ڈاکٹر شاہنوز پر کن مقامی مذہبی رہنماؤں کی شہ پر بلاسفیمی کا الزام عائد کیا گیا تھا اور پولیس نے انصاف و قانون کی بنیاد پر کارروائی کے وعدے پر گرفتاری دینے والے ڈاکٹر شاہنواز کو کس کے کہنے پر گولی مار کر ہلاک کیا۔ اسی طرح کا ایک واقعہ بلوچستان میں بھی ہوچکا ہے جہاں ایک پولیس اہلکار نے توہین مذہب کے الزام میں گرفتار ایک شخص کو تھانے کی حوالات میں گولی مار کر ہلاک کیا تھا۔ تاہم یہ واقعہ ایک شخص نے انفرادی طور سے کیا تھا ۔ اگرچہ اس سے بھی معاشرے میں سرایت ہونے والی انتہاپسندی اور مذہبی شدت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر شاہنواز کے معاملے میں سندھ پولیس بطور ادارہ قتل کے اس جرم میں ملوث تھی ۔ گویا ایک ایسا ادارہ جسے بے بنیاد الزام تراشی کا نشانہ بننے والے لوگوں کی مدد و حفاظت کے لیے آگے آنا چاہئے خود مذہبی شدت پسندی یا کسی درون خانہ سازش کی وجہ سے زیر حراست ملزم کو ہلاک کرنے کا قصد کرتی ہے۔ اس معاملہ میں سندھ حکومت کی ناکامی بظاہر سندھ میں سول سوسائیٹی اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کی ناراضی کا باعث بنی ہے۔
کراچی پریس کلب کے باہر توہین مذہب کے الزام میں گرفتار اور قتل ہونے والے ایک شخص کو انصاف دلانے کے لیے ہونے والا مظاہرہ اس لحاظ سے حوصلہ افزا اور امید کی کرن محسوس ہوتا ہے کہ ملک کے کسی علاقے میں کچھ لوگ تو اس صریحاً ظلم اور غیر انسانی سماجی رویوں کے خلاف آواز بلند کرنے پر تیار ہوئے ہیں۔ خاص طور سے سندھ رواداری مارچ کو طالب علموں، تاجروں، پڑھے لکھے باشعور لوگوں اور فنکاروں کی حمایت حاصل تھی۔ اس لحاظ سے یہ ایک جرات مندانہ اقدام تھا جو پورے ملک کے عوام اور تمام سیاسی و سماجی تنظیموں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی معاشرے کی تباہی کا سبب بن رہی ہے۔ سب کو مل کر اس رویہ کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے۔ ہیومن رائیٹس کمیشن کے صدر اسد اقبال بٹ اور موسیقار سیف سمیجو کی اس احتجاج میں شرکت سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مظاہرہ مہذب اور پرامن طریقے سے کیا جارہا تھا جس میں حکومت اور دیگر اداروں کو ہوش کے ناخن لینے اور انتہا پسندی اور پولیس ذیادتی کے خلاف کام کرنے کی ترغیب دی جارہی تھی۔ البتہ سندھ پولیس کی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے ا پرامن مظاہرین کے خلاف پولیس تشدد سندھ حکومت و پولیس کے ماتھے پر کلنک بن گیا۔
اس موقع پر مقبول موسیقار اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم سیف سمیجو کی گرفتاری اور پولیس اہلکاروں کی ان کے ساتھ دست درازی کی وجہ سے سوشل میڈیا پر شدید احتجاج کی کیفیت دیکھنے میں آئی۔ انہیں دھکے دیتے ہوئے گرفتار کیا گیا اور اس زور آزمائی میں ان کے کپڑے پھاڑ دیے گئے۔ اس واقعہ کی ویڈیو نشر ہونے پر دنیا بھر سے احتجاج اور مذمت کے پیغامات سامنے آئے۔ ذولفقار علی بھٹو جونئیر جو خود آرٹسٹ اور سرگرم ایکٹیوسٹ ہیں، نے ایک پیغام میں کہا کہ ’سیف سمیجو اور ماحولیات کے لیے کام کرنے والے احمد شبر کے سمیت شہریوں کے ساتھ پولیس کی ذیادتی دیکھنا اندوہناک تھا۔ اس قسم کا سلوک شرمناک واقعہ ہے‘۔ سیف سمیجو نے رہائی کے بعد ایک ویڈیو پیغام میں اپنی گرفتاری اور مظاہرے کی تفصیل بیان کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ دیگر لوگوں کے ہمراہ پر امن طریقے سے مظاہرہ کررہے تھے کہ پولیس نے زور ذبردستی شروع کردی۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس بزرگوں اور خواتین کے ساتھ توہین آمیز سلوک کررہی تھی تو انہوں نے پولیس افسروں سے کہا کہ اگر آپ کو گرفتار کرنا ہے تو کرلیں لیکن توہین اور زیادتی نہ کریں۔ سیف پلیجو کا بیان ہے کہ اس موقع پر موجود متعدد پولیس افسر انہیں ان کے کام کی وجہ سے جانتے تھے لیکن اس کے باوجود ان پر تشدد کیا گیا ار انہیں گرفتار کرلیا گیا تاہم وہ مجھ سے میری امید اور مسکراہٹ نہیں چھین سکتے۔
صوبائی وزیر داخلہ ضیاالحسن لنجر کو معلوم ہونا چاہئے کہ سندھ پولیس نے دفعہ144 کی آڑ میں ایک ارفع مقصد کے لیے چند لوگوں کے مظاہرے کو منتشر کرنے کے کے لیے جس افراتفری اور ناجائز ہتھکنڈوں کا استعمال کیا ہے، درحقیقت اس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے اور صوبے میں پیپلزپارٹی کا روشن خیال چہرہ داغدار ہوتا ہے۔ انہیں مظاہرین پر الزام لگانے کی بجائے پولیس سے جواب طلب کرنا چاہئے اور واضح کرنا چاہئے کہ اگر پولیس سر عام ، شناخت رکھنے والے ممتاز لوگوں کے ساتھ اس قسم کا بہیمانہ سلوک روا رکھ سکتی ہے تو تھانوں یا عام نظر سے اوجھل مقامات پر وہ لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتی ہوگی۔ اب پولیس سندھ رواداری مارچ کو تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ ہونے والے تصادم کے ساتھ ملاکر پیش کررہی ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ اس طرح شہر میں قانون شکنی کرنے اور امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ رواداری مارچ انتہاپسندی کے خلاف متحد ہونے کی اپیل کے لیے تھا جبکہ ٹی ایل پی نے جوابی مظاہرے کے ذریعے اسی شدت پسندی کو عام کیا جس کے خلاف سول سوسائیٹی کے مہذب اور باشعور لوگ عوام اور حکام کو متنبہ کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔
پولیس تشدد کے باوجود ’سندھ یکجہتی مارچ‘ شفاف انداز میں یہ پیغام عام کرنے میں کامیاب ہؤا ہے کہ ایک مہذب قوم کے طور پر آگے بڑھنے کے لیے ہمیں شدت پسندی اور زور ذبردستی کے ہتھکنڈوں کو مسترد کرنا ہوگا۔ اس پیغام کی عکاسی آج لاہور میں ایک ریپ کے خلاف مظاہرہ کرنے والے طالب علموں پر مقامی کالج کے سکیورٹی گارڈز اور پولیس کے تشدد میں بھی ہوئی ہے۔ ’سندھ یک جہتی مارچ‘ نے شرف انسانیت کے لیے جو آواز بلند کی ہے، ملک کے ہر گوشے میں اس کا چرچا کرنے اور اس مقصد کے لیے آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ