حکومت ملک میں سرمایہ کاری کے لیے سرتوڑ کوشش کررہی ہے تاہم ابھی تک اس کی کوئی کوشش کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ حال ہی میں وزیر اعظم شہباز شریف نے سعودی عرب اور قطر کا دورہ کیا ہے اور سرکاری ذرائع کے مطابق بھاری بھر کم سرمایہ کاری پر اتفاق کیا گیا ہے۔ البتہ ان دعوؤں اور حقیقی صورت حال میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
عام فہم کے مطابق یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب ملک میں آئے دن خود کش حملے ہورہے ہوں اور سکیورٹی کی صورت حال پر کسی سرکاری ادارے کا کوئی کنٹرول نہ ہو ۔ دہشت گردی کے واقعہ کے بعد صدر و وزیر اعظم سے لے کر وزیر اور صوبائی حکمران غم و غصہ سے بھرے بیانات سے کام چلانے کی کوشش کرتے ہوں تو ایسی مارکیٹ میں سرمایہ کار کا اعتماد کیسے پیدا ہوگا؟ آج ہی مستونگ میں ایک اسکول کے قریب خود کش حملہ ہؤا جس میں پانچ بچوں سمیت 9 افراد جاں بحق ہوگئے۔ البتہ صرف مرکزی حکومت کے عہدیدار ہی نہیں بلکہ صوبائی وزیر اعلیٰ بھی دعائے مغفرت، افسوس اور دہشت گردی کے خلاف مل کر کام کرنے کی اپیل سے بڑھ کر کچھ کہنے یا کرنے کے قابل نہیں تھے۔ ایسے میں عام شہری کسی اگلے دھماکے اور مزید ہلاکتوں کی خبر سننے کے خوف میں مبتلا ہونے کے سوا کیا کرسکتے ہیں۔ قومی سیاسی مباحث میں دہشت گردی اور مختلف صوبوں میں پائی جانے والی بے چینی و اضطراب کے حوالے سے کوئی سنجیدہ مکالمہ دیکھنے میں نہیں آتا۔ ایسے میں کوئی غیر ملکی سرمایہ کار کیوں کسی ایسے ملک کا رخ کرے گا جہاں جان و مال ہی محفوظ نہ ہو۔
سرمایہ کاری کے حوالے سے صرف غیر ملکی سرمایہ کار ہی لیت و لعل کا شکار نہیں ہیں بلکہ ملکی سرمایہ دار بھی کسی حکومتی منصوبے میں سرمایہ کاری پر آمادہ نہیں ہیں۔ حکومت نے کچھ عرصہ سے پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز کو فروخت کرنے کی سنجیدہ کوششیں کی ہیں لیکن لے دے کے ایک کمپنی نے پاکستان کی قومی ائیر لائن خریدنے کے لیے 10 ارب روپے کی بولی لگائی ہے۔ یہ بولی بھی اس شعبہ سے وابستہ کسی کمپنی کی طرف سے نہیں آئی بلکہ رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والی ایک کمپنی پی آئی اے کو خریدنا چاہتی ہے۔ واضح رہے کہ حکومت نے بولی کی ابتدائی رقم 85 ارب روپے مقرر کی تھی لیکن کسی بھی کمپنی یا غیر ملکی ائیرلائن نے اس سودے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ حالانکہ پی آئی اے کو خریدنے والی کمپنی کو بیش قیمت روٹس پر پروازیں چلانے کا حق بھی حاصل ہوگا اور درست انتظام، فعال معاشی منصوبہ بندی اور ائیر لائن کو پروفیشنل طریقے سے چلاکر منافع بھی کمایا جاسکے گا۔ لیکن پاکستان میں سرمایہ لگانے والی کمپنیاں یا حکومتیں مثبت پہلوؤں سے پہلے ان منفی اشاریوں کا جائزہ لیتی ہیں جن کی وجہ سے پاکستان میں کام کرنا مشکل ہے۔
سب سے پہلے تو بے یقینی کی صورت حال ہی کی وجہ سے سرمایہ کار ادھر کا رخ کرنے سے توبہ کرتا ہے۔ دہشت گردی اور غیر ملکی اثاثوں کو نشانہ بنانے کے نئے رجحان کی وجہ سے چین بھی پریشانی کا اظہار کرنے پر مجبور ہؤا ہے۔ اسے بھی یہ یقین دہانی چاہئے کہ اگر چین کی حکومت یا کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کریں تو ان کے کارکنوں اور منصوبوں کو مناسب سکیورٹی فرام کی جائے۔ یہ باتیں درپردہ تو مسلسل ہو رہی ہیں لیکن سوموار کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں چینی سفیر نے کھل کر یہ بتایا ہے کہ اگر سکیورٹی کے حالات بہتر نہ ہوئے اور چینی باشندوں کی حفاظت کی ضمانت نہ دی گئی تو پاکستان میں سی پیک کے ذریعے چینی سرمایہ کاری مشکل ہوجائے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ چینی حکومت کے لیے اپنے شہریوں کی حفاظت مقدم ہے اور وہ ان کی زندگیوں کو داؤ پر نہیں لگا سکتی۔ چینی سفیر کے اس رد عمل کا افسوسناک پس منظر یہ ہے کہ نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے کانفرنس میں صدارتی تقریر کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ چینی صدر نے سکیورٹی مسائل کے باوجود پاکستان میں ترجیحی بنیادوں پر سرمایہ کاری کرنے کا یقین دلایا تھا۔ چینی سفیر نے اس تاثر کو غلط قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ جان ومال کی سلامتی کے بغیر پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ مشکلات کا شکار ہوسکتا ہے۔
حیرت ہے کہ پاکستانی حکام صاف اور قابل فہم رائے کو بھی سمجھنے میں مشکل کا شکار رہتے ہیں۔ گزشتہ روز وزارت خارجہ کی ترجمان نے چینی سفیر کے انتباہ کو دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی پروٹوکول کے خلاف قرار دیا۔ ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر چین کو سکیورٹی کے حوالے سے تحفظات ہیں تو اس معاملہ کو کسی پبلک پلیٹ فارم پر اٹھانے کی بجائے باہمی ملاقاتوں میں طے کرناچاہئے۔ گویا پاکستان سرکاری طور سے چین کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ ملک کی سکیورٹی کے حوالے سے بات کرنا منع ہے۔ حکومت اپنے انتظامات کی حساسیت کے سبب امن و امان کی صورت حال پر کوئی کھلی تنقید یا رائے سننے پر آمادہ نہیں ہے۔ حالانکہ پاکستانی حکام کو یہ سوچنا چاہئے تھا کہ اگر وہ چین جیسے قابل اعتماد دوست ملک کے اعتراضات بھی سننے پر آمادہ نہیں ہیں تو دوسرے ممالک کیسے ایسے ’خطرناک‘ ملک میں سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ ہوں گے۔ گویا سرمایہ بھی لائیں اور پھر خاموشی سے پاکستانی حکومت کی ناکامیوں کو ’خوش دلی ‘ سے برداشت بھی کریں۔ ایسا سوچنا یا تصور کرلینا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہوگا۔
مسئلہ حل کرنے کا درست طریقہ تو یہ ہوگا کہ قومی مباحث میں قانون سازی، آئینی ترمیم، عدلیہ پر کنٹرول یا تحریک انصاف کے ساتھ دنگل جیسے غیر ضروری امور پر وقت اور صلاحیت صرف کرنے کی بجائے قومی اسمبلی اور سینیٹ ملک میں سکیورٹی اور امن و امان کی صورت حال پر تسلسل سے مباحثہ کریں۔ پارلیمنٹ کے ارکان اس حوالے سے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کریں۔ اپنے حلقہ انتخاب کے لوگوں کی رائے کو اپنی تحقیق اور جائزے کے ساتھ ملاکر پیش کریں تاکہ حکومت ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور علاقائی بے چینی کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر کوئی ٹھوس اور قابل عمل حل تلاش کرسکے۔
تاہم دیکھا جاسکتا ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں منتخب ہوکر آنے والے فاضل ارکان کی وفاداریاں خود کو منتخب کرنے والے عوام کی بجائے، اس پارٹی کے لیڈر کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں جن کے ٹکٹ پر وہ منتخب ہوکر کسی ایوان کا رکن بنتے ہیں۔ وفاداری کی یہ ایک ایسی تشریح ہے جس کی وجہ سے ملک میں جمہوریت ہونے کے باوجود منتخب ارکان اپنا جمہوری فرض ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہیں۔ اسی کے ساتھ اس حقیقت کا اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ بیشتر ارکان صرف اپنی شان و شوکت اور مفادات سے غرض رکھتے ہیں۔ انہیں ملک کو درپیش حقیقی مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ ان مسائل کو سمجھنے یا سمجھانے کے لیے ہوم ورک کرنے کے عادی ہیں۔ حالانکہ دنیا بھر کے جمہوری اداروں میں منتخب ارکان محنت کرتے ہیں، تحقیقاتی رپورٹس کا مطالعہ کرتے ہیں اور حکومت پر تنقید کرتے ہوئے ان حقائق کی نشاندہی کرنے کے قابل ہوتے ہیں جو کسی معاملہ پر عرق ریزی کرتے ہوئے دریافت کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ایسی امید کرنا خود اپنا مضحکہ اڑانے کے مترادف ہوگا۔ ارکان اسمبلی یا حکومت ایسے سیاسی عمل پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ اسی لیے سیاسی پارٹیاں بھی ملکی مسائل پر رائے سازی کا کوئی ٹھوس پلیٹ فارم فراہم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں جس کی وجہ سے ملک مسلسل بحران اور مسائل کا شکار ہے ، حکومت سمیت کسی کو انہیں حل کرنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا۔
اس کا آسان حل ’ایک پیج کی پالیسی‘ میں تلاش کرلیا گیا ہے۔ حکومت نے فوجی قیادت کو عقل کل تسلیم کرلیاہے اور سکیورٹی کے حوالے سے کسی سیاسی رائے یا حکمت عملی کا تصور ملکی پالیسی کا حصہ نہیں ہے۔ یعنی حکومت نے یہ سارا بوجھ فوج اور عسکری قیادت کے کاندھوں پر لاد دیا ہے ۔ حالانکہ قومی سلامتی کے شعبہ میں بھی فوج کا کام پالیسی سازی کی بجائے کسی تیار منصوبہ کو عملی جامہ پہنانا ہوتا ہے۔ لیکن سیاسی حکومت اپنا کام میں استعداد دکھانے کی بجائے ذمہ داری سے گریز کے راستے پر گامزن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں جمہوری نظام موجود ہونے کے باوجود مسائل کو جمہوری طریقے سے سمجھنے اور حل کرنے کی کوئی کوشش دیکھنے میں نہیں آتی۔ اسی ناقص کارکردگی کی وجہ سے عسکری اداروں کو غیر ضروری اختیار و طاقت حاصل ہوجاتی ہے جسے بعد میں سول ملٹری تعلق کے حوالے سطحی مباحث کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ حالانکہ کوئی منظم اور طاقت ور ادارہ اسی وقت معاملات پر آہستہ آہستہ دسترس حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے جب اس کام کا بیڑا اٹھانے والے ادارے (پارلیمنٹ و حکومت) اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
پاکستان میں سرمایہ کاری کا معاملہ امن و امان کے بگڑتے ہوئے حالات اور مسلسل سیاسی تصادم کی صورت حال سے جڑا ہؤا ہے۔ سرمایہ کاروں کو سکیورٹی کے علاوہ حکومتی پالیسیوں کے تسلسل کا بھی یقین نہیں ہوتا۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ ملک میں سیاسی بنیاد پر ہونے والی تقسیم کی موجودہ صورت حال میں ایک سیاسی گروہ ہر معاملہ میں حکومت کی صلاحیت، اختیار اور اتھارٹی کو چیلنج کرتا ہے۔ یہ رویہ صرف قومی مباحث یا منتخب یا جمہوری پلیٹ فارمز پر ہی اختیار نہیں کیا جاتا بلکہ تحریک انصاف نے تو اپنے سیاسی نقطہ نظر کے مطابق عالمی اداروں اور دارالحکومتوں تک رسائی حاصل کرنے کا طریقہ بھی اختیار کیا ہے۔ پی ٹی آئی پاکستان کے ساتھ مالی معاہدہ کے خلاف آئی ایم ایف سے رابطہ کرتی رہی تھی اور واشنگٹن میں مسلسل کانگرس کے ارکان کے ذریعے سیاسی رسوخ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان طریقوں سے حکومت تو شاید کمزور نہ ہو لیکن سرمایہ کاری کا ماحول ضرور شبہات کا شکار ہوجاتا ہے۔
(بشکریہ:کاروان ناروے )
فیس بک کمینٹ