پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف نے گزشتہ روز مہنگائی کے خاتمہ کواپنی پارٹی کا بیانیہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ڈیفالٹ کے خطرے سے باہر نکل آیا ہے۔ موجودہ مشکل سیاسی صورت حال میں قوم و ملک میاں نواز شریف جیسے سینئر اور تجربہ کار لیڈر سے معمولی سیاسی بیان کی بجائے ایسی قیادت کی توقع کرتے ہیں جو موجودہ بحران، بداعتمادی اور تنگ نظری ختم کرنے کے لیے کام کرے اور عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرنے کا کوئی منصوبہ سامنے لائے۔
نواز شریف کے پاس اس وقت مسلم لیگ کی قیادت یا قومی اسمبلی کی رکنیت کے سوا کوئی دوسرا عہدہ نہیں ہے۔ گزشتہ سال انتخابات کے بعد انہوں نے وزیر اعظم بننے سے گریز کیا تھا اور ان کی بجائے شہباز شریف کو پارٹی نے اس عہدے پرمتمکن کرایا تھا۔ اگرچہ عام طور سے قیاس کیا جاتا رہا ہے کہ اسٹبلشمنٹ کے لیے نوازشریف کے مقابلے میں شہباز شریف زیادہ قابل قبول تھے، اس لیے مسلم لیگ (ن) کے پاس یہی راستہ اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ تاہم نواز شریف نے خود یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ انہوں نے انتخابات سے پہلے ہی واضح کردیا تھا کہ اگر ان کی پارٹی کو قومی اسمبلی میں اکثریت نہ ملی تو وہ چوتھی بار وزیر اعظم نہیں بنیں گے۔ اسی لیے شہباز شریف کو یہ عہدہ دیا گیا ۔ جبکہ پنجاب میں مستقبل کا وزیر اعظم بننے کی تیاری کے طور پر مریم نواز کو وزیر اعلیٰ بنوا لیا گیا۔
نواز شریف کا مؤقف مان لینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ لیکن وزیر اعظم کا عہدہہ نہ ملنے کے باوجود ملکی سیاست میں ان کی اہمیت اور قدر و منزلت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ پاکستانی سیاست میں گزارا ہے۔ اقتدار کے مزے بھی لوٹے ہیں اور زوال کا مزہ بھی چکھا ہے تاہم ان تمام تجربات نے انہیں قومی و عالمی معاملات کو سمجھنے اور مسائل کی گہرائی تک جانے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ ان کے علاوہ اس وقت آصف علی زرداری سیاسی مہارت و تجربہ میں اہمیت کے حامل ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے آصف زرداری نے پیپلز پارٹی کو اقتدار سے قریب رکھنے اور اہم عہدے لینے کی تگ و دو میں صدارت کا منصب قبول کیا اور اس کی حدود و قیود کی نذر ہوکر رہ گئے۔ زرداری اس منصب پر بھی اہم قومی خدمت انجام دے رہے ہیں لیکن اگر وہ صدر مملکت نہ ہوتے تو نواز شریف کے ساتھ مل کر ملکی سیاسی بحران ختم کرنے اور جمہوریت کے استحکام کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہوتے۔ البتہ نواز شریف کسی آئینی یا سیاسی عہدے پر فائز نہیں ہیں ۔ وہ قوم کی قیادت کرنے میں آزاد ہیں۔ البتہ دیکھا جاسکتا ہے کہ انتخابات کے بعد سے نواز شریف نے خاموش رہنے اور پس پردہ کام کرنے کو ترجیح دی ہے۔
اس حوالے سے بھی اگر وہ اپنی پارٹی منظم کرنے، عوام میں پیدا ہونے والی غلط فہمیاں دور کرنے اور امید جگانے کے لیے کام کرتے تو اس سے ملکی سیاست میں ایک نیا ولولہ اور جوش و خروش بھی دیکھنے میں آتا اور سیاسی طور سے موجودہ حکومت پر اعتماد بحال کرنے کا کام بھی کیا جاسکتا۔ البتہ نواز شریف نے اس کی بجائے پنجاب میں اپنی صاحبزادی کی حکومت مستحکم کرنے اور پنجاب کے معاملات پر توجہ مبذول کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کی وجہ سے ملک ایک ایسے لیڈر کی صلاحیتوں سے محروم ہورہا ہے جو درحقیقت ملک کو درپیش بڑے چیلنجز کے مقابلے کے لیے تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کا ہلکا سا مظاہرہ انہوں نے اکتوبر میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر بھارت سے آئے ہوئے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے نئی دہلی کے ساتھ تعلقات بحال کرنے اور دونوں ملکوں میں روابط بڑھانے کی ضرورت پر زور دے کر کیا تھا۔ اس بیان سے برصغیر میں خوشگوا ر امید کی کرن محسوس کی گئی تھی ۔ تاہم نواز شریف بھی بخوبی جانتے ہوں گے کہ ایسے پیچیدہ ، گنجلک اور مشکل معاملات میں صرف ایک بیان دینے سے حقیقی پیش رفت ممکن نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے کسی بڑے لیڈر کو مسلسل کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ نامعلوم وجوہات کی بنا پر نواز شریف اس کردار کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
گزشتہ روز لاہور میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے ہمراہ صوبائی اسمبلی کے ارکان سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے ملک کو خوشحالی کی طرف لے جانے کا وعدہ پورا کرنے کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہاکہ’ کرپشن، معاشی تباہی، مہنگائی اور بدتمیزی ’تبدیلی‘ کی سوغاتیں تھیں۔ بدقسمتی ہے کہ ترقی کرتا ملک پٹڑی سے اتار دیا گیا۔ سیاست میں گند ڈال کر اسے تباہ کیا گیا، بدتہذیبی، بدتمیزی، بغض اور انتقام کوسیاست بنادیا گیا۔ اب ہماری محنت سےپاکستان ڈیفالٹ کے منہ سے واپس آیا ہے۔ شہبازشریف کی محنت سے معاشی استحکام بحال ہورہاہے۔ پالیسیوں کے تسلسل سے معاشی ترقی یقینی ہوگی۔ ہمارا بیانیہ ملک کی ترقی اور عوام کو مہنگائی سے نجات دلاکر خوش حال بنانا ہے۔ جو وعدے کئے تھے اللہ تعالی کے فضل وکرم سے وہ آج عوام کو پورے ہوتے نظر آرہے ہیں‘ ۔ اسی پر اکتفا نہیں بلکہ اس موقع پر موجود ارکان پنجاب اسمبلی نے نواز شریف کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب سب نا امید ہوگئے لیکن نوازشریف نے ہمیشہ ملک اور قوم کو نئی امید دی۔ نوازشریف اور شہبازشریف نے ریاست پر سیاست قربان کر کے حب الوطنی کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ ایک بار پھر قوم نے دیکھ لیا کہ ریلیف صرف مسلم لیگ (ن) ہی دیتی ہے۔
ایک مجلس سجا کر اپنے لیڈر کی تعریف و توصیف کرکے قومی مسائل حل کردینے کا ڈھونگ تو کیا جاسکتا ہے لیکن مسائل اپنی جگہ موجود رہتے ہیں۔ نواز شریف نے ایک بار پھر پرانے بیان پر اصرار کیا کہ کیسے 2017 میں ان کی حکومت ختم کرکے ملک کو ترقی کرنے سے روک دیا گیا اور عمران خان کی صورت میں ایک تبدیلی کی حکومت ملک پر مسلط کرکے زوال اور معاشی تباہی کا راستہ کھول دیا گیا۔ یہ بات ایک ہی طرح سے اتنی بار دہرائی جاچکی ہے کہ اب کسی لیڈر کے منہ سے اسے سن کر امید کی بجائے مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ عمران خان کو اقتدار چھوڑے تین سال ہونے کو ہیں اور اب تو وہ ڈیڑھ سال سے جیل میں بند ہیں۔ اس دوران میں شہباز شریف یا عبوری حکومت نے معاملات دیکھے ہیں اور اس کا کریڈٹ بھی وصول کرتے ہیں۔ اس حکومت کی حقیقی کارکردگی کا اندازہ تواس وقت ہوگا جب یہ تبدیل ہوگی اور کوئی دوسری پارٹی اقتدار سنبھال کر اس کی کمزوریوں اور غلط فیصلوں کی نشاندہی کرے گی۔ البتہ اس بحث سے قطع نظر یہ تو واضح ہے کہ اگر تحریک انصاف کو مطعون کرنا ہی مقصد ہے تو یہ کام تو مرکزی اور صوبائی سطح پر بہت لوگ کررہے ہیں۔ نواز شریف کی سطح کا لیڈر کیوں ان غیر ضروری مباحث میں الجھ کر اپنا قد چھوٹا کررہا ہے اور اپنی صلاحیتیں غیر پیداواری امور میں ضائع کررہاہے؟
ایک بڑی اور برسر اقتدار پارٹی کے لیڈر کے طور پر اگر وہ شہباز شریف کی قصیدہ خوانی کی بجائے حکومت کی کمزوریوں کی نشاندہی کریں، اس کے غلط فیصلوں پر انگلی اٹھائیں، اپوزیشن تحریک انصاف کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر احتجاج کریں یا پیکا جیسے قوانین بنا کر آزادی رائے کو محدود کرنے کے اقدامات کو مسترد کریں تو اس سے ملک میں سیاسی مکالمہ کی فضا پیدا ہوگی اور عوام کو بھی حوصلہ ملے گا کہ حکومت کی غلطیوں کی نشاندہی صرف ضد کا شکار اپوزیشن پارٹیاں ہی نہیں کرتیں بلکہ حکمران پارٹی کے اندر بھی ایسے قد آور لیڈر موجود ہیں جو پارٹی کی حکومت کی اصلاح کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح نواز شریف تحریک انصاف اور عمران خان کو سیاسی سپیس فراہم کرنے کے لیے کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اگر نواز شریف پی ٹی آئی کے جائز سیاسی حقوق کے لیے آواز اٹھائیں یا حکومت کی بجائے سیاسی پارٹی کے لیڈر کے طور پر پی ٹی آئی سے مکالمہ کا آغاز کریں تو ملکی سیاست میں پائی جانے والی متعدد الجھنیں دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ممکن ہے کہ تحریک انصاف یا عمران خان ایسی کوشش کو نظرانداز یا مسترد کریں۔ لیکن مساوی سیاسی مواقع کے لیے نواز شریف کا کوئی مؤقف سیاسی عمل میں توازن قائم کرنے کا مقصد ضرور پورا کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ عوام کو بھی یہ پیغام پہنچایا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) محض فوج کی انگلی پکڑ کر اقتدار حاصل کرنے کی سیاست نہیں کرتی بلکہ وہ ملک میں واقعی عوامی حکمرانی کے لیے کام کرنا چاہتی ہے اور آج بھی ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کا بنیادی مقصد ہے۔ اس طرح اس غلط فہمی یا الزام کی تردید بھی ہوسکتی ہے کہ نواز شریف نے اپنے خاندان کو اقتدار ملتا دیکھ کر یک بیک رنگ بدل لیا اور اینٹی اسٹبلشمنٹ سے اسٹبلشمنٹ کی سرپرستی قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے۔
تاہم قومی سیاست میں مثبت کردار ادا کرنے کے علاوہ نواز شریف علاقائی اور عالمی معاملات میں ملک کی مشکلات میں دست تعاون دراز کرسکتے تھے۔ خاص طور سے انہیں بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے اور اس حوالے سے حائل مشکلات دور کرنے میں کردار کرنا چاہئے تھا۔ انہوں نے بجا طور سے بھارتی میڈیا کے ساتھ مثبت باتیں کی تھیں لیکن اس کے بعد وہ اپنی حکومت کو کسی مثبت پیش رفت پ آمادہ نہیں کرسکے اور نہ ہی انہوں نے نئی دہلی میں اپنے روابط کو بروئے کار لاتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان فاصلے کم کرنے میں کوئی مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ عالمی سفارت کاری میں پاکستان کی موجودہ پوزیشن کا یہ عالم ہے کہ امریکہ کا نیا صدر بھارتی وزیر اعظم کو واشنگٹن بلا کر گلے لگاتا اور ساتھ مل کر چلنے کا اعلان کرتا ہے ۔لیکن ٹرمپ کی نظر کرم کی خواہش کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف اسلام آباد میں امریکہ کی ناظم الامور سے وزیر اعظم ہاؤس میں ملاقات کرکے نئی امریکی حکومت کے ساتھ بہتر اورمستحکم تعلقات کی امید ظاہر کرتے ہیں۔ جس ناظم الامور کو وزارت خارجہ کے افسران سے ملنا چاہئے، وہ وزیر اعظم پاکستان سے مل کر اپنے ملک کی بڑائی کی بجائے پاکستان کی سفارتی مجبوری کی علامت بن گئی ہے۔
اس گمبھیر صورت حال میں عالمی سطح پر قوم و ملک کا وقار بحال کرنے کی ذمہ داری ملک کے دانشوروں اور سیاست دانوں پر عائد ہوتی ہے۔ نواز شریف میں بلامبالغہ یہ صلاحیت ہے کہ وہ ذاتی حیثیت میں متحرک ہوکر پاکستان کے لیے آسانیاں پیدا کرانے کا سبب بن سکیں۔ تاہم یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب میاں صاحب عمران خان کے ہاتھوں لگنے والی چوٹ کو فراموش کریں اور پارٹی سیاست کرنے کی بجائے قومی خدمت کے جذبے سے کام کرنے کی منصوبہ بندی کریں۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ