مسلم لیگ (ن) کی حکومت انتخابی ایکٹ 2017 میں ترمیم کے ذریعے 12 جولائی کو دیے گئے سپریم کورٹ کے اس حکم کو غیر موثر کرنا چاہتی ہے جس میں تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس حکم میں فل کورٹ کے اکثریتی ججوں نے پی ٹی آئی کی حمایت سے جیتنے والے آزاد ارکان کو 15 دن کے اندر نیا حلف نامہ اور پارٹی وابستگی کا ازسر نو فیصلہ کرنے کی اجازت بھی دی تھی۔
منگل کی شام مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی بلال اظہر کیانی نے انتخابی ایکٹ میں ترمیمی بل ایوان میں پیش کیا تھا۔ وزیر قانون کی سفارش پر اسپیکر سردار ایاز صادق نے یہ ترمیمی بل قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کو بھیج دیا۔ بدھ کو ان ترامیم پر مختصر مباحثہ کے بعد کمیٹی نے آٹھ چار کی اکثریت سے یہ بل منظور کر لیا۔ اب اسے جمعہ کو قومی اسمبلی کی منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کے ارکان نے شرکت نہیں کی۔ کمیٹی کی چئیر پرسن جمعیت علمائے اسلام (ف) کی شاہدہ اختر نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ البتہ ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کا قانون پارلیمنٹ کو با اختیار بنانے کی بجائے اسے کمزور کرے گا۔ انہوں نے بل کو تیز رفتاری سے منظور کروانے کی حکومتی کوششوں پر تنقید کی۔
ترمیمی بل کے ذریعے آئینی ایکٹ کی شقات 66 اور 106 میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں جبکہ ایکٹ میں شق 104 اے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ مجوزہ ترامیم کے مطابق آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والا کوئی رکن اسمبلی آئین کی مقررہ مدت کے بعد کسی سیاسی پارٹی میں شریک ہونے کا فیصلہ نہیں کرسکے گا۔ اسی طرح اگر کوئی سیاسی پارٹی قانون کی مقررہ مدت میں مخصوص نشستوں کے لیے اپنے امیدواروں کے نام فراہم نہ کرے تو بعد از وقت وہ ان نشستوں کے حصول کے لیے فہرست دینے کی مجاز نہیں ہوگی۔ ترامیم میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر کوئی امیدوار کاغذات نامزدگی داخل کرواتے ہوئے اور انتخابی نشان لینے سے پہلے کسی سیاسی پارٹی سے وابستگی ظاہر نہیں کرتا تو اسے آزاد ہی تصور کیا جائے گا۔ بعد از وقت اس حوالے سے دیے گئے بیان یا حلف نامے کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے تحریک انصاف کے رکن اسمبلی علی محمد خان کے سوال پر کہ کیا یہ ترامیم موثر بہ ماضی ہوں گی یا ان کا اطلاق مستقبل میں ہونے والے فیصلوں سے ہو گا، واضح کیا کہ یہ ترامیم ماضی کے فیصلوں پر اثر انداز ہوں گی۔ ترامیم میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ کی شقات کو سپریم کورٹ سمیت عدالتی فیصلوں پر ترجیح حاصل ہوگی۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قائمہ کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس ترمیم کا مقصد قانون کو آئین کی حقیقی روح کے مطابق واضح کرنا ہے۔ آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والا کوئی رکن ایک سیاسی پارٹی میں شمولیت کے بعد یہ فیصلہ تبدیل نہیں کرسکے گا۔ ایک بار یہ فیصلہ کرنے کے بعد متعلقہ رکن کو اس پر قائم رہنا ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا کام ہے، عدالتیں صرف آئین کی تشریح کر سکتی ہیں۔ جب مشاہدہ کیا جائے کہ آئین میں اضافہ کیا جا رہا ہے یا اسے دوبارہ لکھا جا رہا ہے اور پارلیمنٹ کے اختیار میں مداخلت ہو رہی ہے تو پارلیمنٹ قانون سازی کے ذریعے معاملہ درست کر سکتی ہے۔ اس ترمیم کے بعد الیکشن ایکٹ میں غلط فہمیوں کا تدارک ہو جائے گا۔ پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان نے کہا کہ یہ نجی بل ہے، اس بل پر وزیر قانون وکالت نہ کریں۔ جس نے بل پیش کیا، اسے تشریح کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس بل کو بلڈوز نہ کیا جائے۔ حکومت اس بل کو اختیار کرنا چاہتی ہے تو بتا دے، لگتا ہے نجی بل وزیر قانون کی منشا سے آیا ہے۔ تاہم ان کے اعتراضات کو نظر انداز کر دیا گیا۔
الیکشن ایکٹ میں ترامیم سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کے 12 جولائی والے فیصلے کو غیر موثر کرنا چاہتی ہے اور تحریک انصاف کو مخصوص سیٹوں میں پورا حصہ دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ اس لحاظ سے یہ بل براہ راست سپریم کورٹ کے واضح اور دو ٹوک حکم کو مسترد کرنے کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اسے مسلم لیگ (ن) کے ایک رکن نے نجی بل کے طور پر پیش کیا۔ اسے حکومت کی جانب سے ایوان میں نہیں لایا گیا۔ یوں حکومت براہ راست ان ترامیم کی سپانسر کہلانا نہیں چاہتی لیکن اس سے حاصل ہونے والے ثمرات حاصل کرنے کی خواہاں ہے۔ البتہ وزیر قانون نے پہلے قومی اسمبلی میں بل کو قائمہ کمیٹی کو بھجوانے اور پھر اسے قائمہ کمیٹی سے ایک ہی سیشن میں منظور کروانے میں جو کردار ادا کیا ہے، اس سے یہ جاننے میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت اس بل کی پشت پر ہے۔ البتہ پیپلز پارٹی کی پوزیشن واضح نہیں ہے۔ لیکن اس کے ارکان نے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں شریک نہ ہو کر بالواسطہ طور سے بل کی منظوری میں حصہ لیا ہے۔ جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں صورت حال مزید واضح ہو جائے گی۔ اگر تحریک انصاف پوری پارلیمانی قوت کے ساتھ اس بل کی مخالفت میں اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوتی ہے تو حکومت، پیپلز پارٹی کے ارکان کی حمایت کے بغیر اس بل کو منظور نہیں کروا سکے گی۔ البتہ ایسا امکان کم دکھائی دیتا ہے۔
یہ بل سپریم کورٹ کے فل بنچ کے حکم کے متوازی فیصلہ صادر کرتا ہے۔ اس طرح پارلیمنٹ کو بالواسطہ طور سے ہی سہی ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے مد مقابل لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اپنی تقریر میں اس بارے میں کوئی شبہ بھی باقی نہیں رہنے دیا۔ ان کا موقف ہے کہ اگر عدالت آئین یا قانون کی کوئی ایسی تشریح کرتی ہے جو آئین کی روح کے برعکس ہے تو پارلیمنٹ کو حق حاصل ہے کہ وہ آئین کو از سر نو تحریر کرنے کی ایسی کوشش کو ناکام بنائے اور قانون سازی کی جائے۔ البتہ حکومت کی مشکل یہ ہے کہ اسے قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہے جو کسی آئینی ترمیم کے لیے ضروری ہے۔ آئین میں ترمیم کے ذریعے تو سپریم کورٹ پر قدغن عائد کی جا سکتی ہے۔ لیکن عام قانون کو کسی اگلے مرحلے پر سپریم کورٹ خلاف آئین قرار دے کر مسترد کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ بعض قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ اس صورت میں بھی حکومت کو سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے فیصلے پر عمل درآمد میں رکاوٹ ڈالنے کا وقت مل جائے گا۔ فی الوقت حکومت یہی مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ تحریک انصاف کی پارلیمانی قوت میں اضافہ نہ ہو۔ حالانکہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق تمام مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو ملنے سے بھی موجودہ حکومت کو اکثریت حاصل رہے گی لیکن اس سے تحریک انصاف کو سیاسی و پارلیمانی توانائی حاصل ہوگی اور وہ فیصلوں کو تبدیل کروانے یا ان پر اثر انداز ہونے میں زیادہ موثر کردار ادا کرسکے گی۔
سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے البتہ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے والے 39 ارکان قومی اسمبلی کو تحریک انصاف کا ممبر تسلیم کر لیا ہے۔ صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے حوالے سے بھی ایسا ہی فیصلہ سامنے آ چکا ہے۔ البتہ قومی اسمبلی کے ان 41 ارکان کا معاملہ بدستور متنازعہ ہے جنہوں مے کاغذات نامزدگی میں پارٹی وابستگی ظاہر نہیں کی تھی۔ پارٹی چئیر مین گوہر علی اور اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کے دستخط سے ان ارکان نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد الیکشن کمیشن سے انہیں تحریک انصاف کا رکن قرار دینے کی درخواست کی ہے۔ تاہم الیکشن کمیشن چونکہ تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخاب کو قانونی نہیں مانتا لہذا وہ بیرسٹر گوہر علی کو پارٹی چیئرمین بھی تسلیم نہیں کرتا۔ اب الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے اس معاملہ کی وضاحت کے لیے کہا ہے۔ اس دوران میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے 12 جولائی کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواستیں بھی جمع کروائی ہیں تاہم ججز کمیٹی نے چیف جسٹس کی خواہش کے برعکس ان درخواستوں پر چھٹیوں کے بعد غور کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ کیوں کہ ابھی تک 12 جولائی کے حکم کا تفصیلی فیصلہ بھی سامنے نہیں آیا۔ عام طور سے نظر ثانی کی درخواست تفصیلی فیصلہ سامنے آنے کے بعد زیر غور آتی ہیں۔
الیکشن ایکٹ میں تازہ ترامیم کے تناظر میں یہ دیکھنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ کیا الیکشن کمیشن نیا ترمیم شدہ ایکٹ منظور ہونے کی صورت میں ان 39 ارکان کو بھی تحریک انصاف کا رکن ماننے سے انکار کردے گا جن کے بارے میں وہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد فیصلہ کرچکا ہے۔ کیوں کہ مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے پارٹی قیادت کے فیصلہ کے مطابق یہ ارکان بھی درحقیقت سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو گئے تھے جبکہ نئی ترمیم میں مقررہ وقت کے بعد نہ تو کسی پارٹی میں شمولیت اختیار کی جا سکتی ہے اور نہ ہی ایک بار فیصلہ کرنے کے بعد اسے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
اس میں شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس حکومتی اقدام سے پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ میں تصادم کی صورت حال پیدا کی گئی ہے۔ اگر سپریم کورٹ کے جج بھی سخت گیر رویہ اختیار کرتے ہیں تو ملک میں سیاسی پارٹیوں اور اسٹیبلشمنٹ و تحریک انصاف کے درمیان جاری تصادم کے علاوہ اب پارلیمنٹ اور عدالت عظمی کے درمیان تنازعہ کی کیفیت بھی دیکھنے میں آ سکتی ہے۔ ایسا تصادم ملکی مفادات اور جمہوری نظام کے اصولوں سے متصادم ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بارے میں قانونی یا سیاسی طور سے کوئی بھی رائے دی جا سکتی ہے لیکن یہ فیصلہ بہر حال اس بنیادی اصول کے مطابق ہے کہ جس پارٹی سے وابستگی رکھنے والے ارکان نے اسمبلیوں میں اکثریت حاصل کی ہے انہیں، ان کی پارلیمانی قوت کے مطابق مخصوص نشستیں بھی دی جائیں۔ سپریم کورٹ نے ایک مشکل صورت حال میں اس تنازعہ کو حل کرنے کی کوشش کی حالانکہ یہ کام پارلیمنٹ کو کرنا چاہیے تھا۔ تاکہ ملک میں سیاسی مفاہمت اور عوامی رائے کے احترام کی مثبت روایت جنم لے سکتی۔ بدقسمتی سے حکومتی پارٹی بدستور اقتدار سے چمٹے رہنے اور کسی بھی طرح زیادہ سے زیادہ اختیار حاصل کرنے کی عاقبت نا اندیشانہ حکمت عملی پر کاربند ہے۔
ان ترمیموں میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے تحریک انصاف کو ملنے والی سہولت ختم کرنے کی کوشش تو کی گئی ہے لیکن ایسی کوئی شق شامل نہیں کی گئی جس میں یہ کہا جاتا کہ الیکشن کمیشن کسی سیاسی پارٹی کو اس کی پارلیمانی حیثیت سے زیادہ مخصوص نشستیں دینے کا مجاز نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کا یہ پہلو ناقابل فہم رہا ہے کہ تحریک انصاف یا سنی اتحاد کو کسی قانونی اڑچن کی وجہ سے اگر مخصوص نشستیں نہیں دی جا سکتی تھیں تو انہیں دیگر پارٹیوں میں بانٹنے کے لیے کس قانون یا آئینی شق کا سہارا لیا گیا تھا۔
وزیر قانون اگر الیکشن ایکٹ کی الجھنیں دور کرنے کا قصد کر ہی چکے تھے تو انہیں اس الجھن کو بھی رفع کرنا چاہیے تھا۔ یا حکومت کا مقصد صرف سپریم کورٹ کو یہ پیغام بھیجنا تھا کہ اگر وہاں حکومتی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ ہو گا تو قانون سازی کے ذریعے اسے کالعدم قرار دیا جائے گا۔
(بشکریہ:ہم سب)
فیس بک کمینٹ