بلوچستان میں جعفر ایکسپریس سانحہ کے بعد تشدد اور بے چینی کے حوالے سے قومی منظر نامہ پر مباحث کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ کچھ عناصر فوج کی بروقت کارروائی اور اعلیٰ پروفیشنل کارکردگی پر رطب اللسان ہیں تو کچھ آوازیں اس مسئلہ کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے اور یہ سمجھنے کی کوشش کررہی ہیں کہ بلوچستان میں شورش پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے۔
وزیر اعظم اور دیگر زعما نے اس حوالے سے قومی یک جہتی کی ضرورت پر زور ضروردیا ہے لیکن عملی طور سے ایسے کوئی اقدام دیکھنے میں نہیں آئے کہ دہشت گردی یا کسی ایک صوبے میں پائے جانے والے علیحدگی پسندانہ رجحانات کے بارے میں اتفاق رائے سے کوئی حکمت عملی تیار کی جاسکے۔ اب حکومت نے منگل کو پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا ہے ۔ اس خفیہ اجلاس میں عسکری قیادت بلوچستان اور خیبر پختون خان میں سکیورٹی کی صورت حال پر بریفنگ دے گی جس کے بعد سیاسی لیڈر باہم تبادلہ خیال کرسکیں گے۔ خبروں کے مطابق تحریک انصاف نے اس اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان جاری مناقشے اور کسی ٹھوس سیاسی منصوبہ کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس بات کا امکان نہیں ہے کہ اجلاس کے شرکا کسی نتیجہ تک پہنچ سکیں گے۔
ماضی میں بھی بعض سنگین وقوعات کے بعد ایسی ہی بریفنگ اور اجلاسوں کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے تاہم ان سے کبھی کوئی قابل عمل نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا۔ اس وقت خاص طور سے ملک میں عمومی سیاسی بحران اور عدم اعتماد کی صورت حال میں کسی نتیجہ تک پہنچنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ تحریک انصاف انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے صرف انتخابی نظام یا حکومت کے ساتھ ہی پنجہ آزما نہیں ہے بلکہ وہ عسکری قیادت پر براہ راست الزامات بھی عائد کرتی ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ اسٹبلشمنٹ ناجائز طور سے موجودہ سیاسی قیادت کو اقتدار میں لے کر آئی ہے ۔ اس لیے موجودہ خرابیوں کی ساری ذمہ داری بھی فوجی قیادت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جعفر ایکسپرس پر حملے اور سینکڑوں مسافروں کو یرغمال بنانے کے واقعہ سے اگر پوری قوم شدید پریشانی کی حالت میں تھی تو بھی تحریک انصاف نظام کی کمزوریوں کی نشاندہی کرکے اس کا الزام عسکری قیادت کی طرف موڑنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ یہ حقیقت بھی نوٹ کی جاسکتی ہے کہ عمران خان کی طرف سے اس سانحہ پر قوم کے ساتھ ہمدردی کے اظہار یا دہشت گردوں کی مذمت کرنے کا کوئی پیغام بھی منظر عام پر نہیں آیا۔ اس کے برعکس پارٹی کے سوشل میڈیا نے اس حوالے سے شدید اور قابل اعتراض پروپیگنڈا کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ایف آئی اے نے اس سلسلہ میں کچھ گرفتاریاں بھی کی ہیں اور اس رجحان کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔
اس صورت حال میں اگرچہ عملی طور سے حالات اطمینان بخش نہیں ہیں لیکن یہ پہلو بہر حال تسلی کا سبب ہے کہ سب سیاسی لیڈر اپنے اپنے طور پر یہ مانتے ہیں کہ دہشتگردی کے خلاف اتفاق رائے پیدا ہونا چاہئے اور یہ کہ بلوچستان کے مسئلہ کا حل طاقت کی بجائے سیاسی طور سے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے باوجود جب سیاسی لیڈر کسی حتمی نتیجہ تک پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں اور حکومت و اپوزیشن کسی ایسے معاہدہ پر متفق نہیں ہوپاتے کہ مستقبل میں دہشت گردی کے معاملات سے کیسے نمٹا جائے تو اسے سیاسی پارٹیوں اور حکومت کی ناکامی کے سوا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔ ملک کے بیشتر مسائل پر عام طور سے عسکری قیادت کی موجودہ غلطیوں یا ماضی میں کردار کا حوالہ دیتے ہوئے فوج کو ذمہ دار قرار دینے کا رویہ عام ہے۔ یہ الزام میڈیا، سیاسی بیانات اور دیگر تبصروں کی صورت میں سامنے آتا رہتا ہے۔ البتہ اس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ سیاسی قیادت خواہ وہ اقتدار میں ہو یا اقتدار سے باہر بیٹھ کر حکومت کی ’رہنمائی‘ کا کردار ادا کرنا چاہتی ہو، کسی بھی بڑے چیلنج کا کوئی حل پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ایسے میں یہ سوال بے حد اہم ہوجاتا ہے کہ جب سیاسی لیڈر کوئی عملی اقدام نہیں کرسکتے اور ہمہ وقت کسی مشکل صورت حال میں فوج ہی سے توقع کرتے ہیں کہ وہ آگے بڑھ کر مسئلہ حل کرے تو پھر سول معاملات میں فوجی مداخلت کے طریقے کے خلاف سیاسی محاذ کیسے استوار ہوسکتا ہے؟
بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات نے ملکی سیاسی قیادت کی مکمل ناکامی و نااہلی کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ جعفر ایکسپریس حملہ کے بعد سیاسی لیڈروں اور حکومتی نمائیندوں نے بیانات دینے کا کام تو زور شور سے کیا لیکن عملی طور سے فوج ہی کو منصوبہ بندی کرکے یرغمال کیے گئے مسافروں کو شدت پسندوں کے چنگل سے رہا کرانا پڑا۔ اس وقوعہ کے بعد تمام مصدقہ معلومات بھی فوج کے ترجمان نے ہی فراہم کیں البتہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے آئی ایس پی آر کے سربراہ کے ساتھ پریس کانفرنس میں شامل ہوکر محض اس تاثر کو مضبوط کیا کہ قیادت تو فوج ہی کو کرنی ہے ، سیاست دان ہاتھ باندھ کر پیچھے چلنے پر آمادہ ہیں۔ بدقسمتی سے یہ رویہ کسی ایک عہدیدار یا لیڈر تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر سیاسی پارٹی و لیڈر اسی طریقے سے ملکی سیاست میں کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں مسلم لیگ و پیپلز پارٹی فوج سے نالاں تھیں کیوں کہ انہیں اقتدار میں حصہ نہیں ملا تھا۔ اب یہ دونوں پارٹیاں اقتدار میں شراکت دار ہیں تو تحریک انصاف پورے جوش و خروش سے فوج کے خلاف صف آرا ہے۔ مسلم لیگ (ن) و پیپلز پارٹی کی طرح تحریک انصاف بھی اسے سیاسی و جمہوری حقوق کی جنگ قرار دے رہی ہے لیکن درحقیقت یہ اقتدار کی جنگ ہے جس میں فوج پر نکتہ چینی کا مقصد صرف اس کی توجہ اور سرپرستی حاصل کرنا ہے۔ سوچا جائے تو اسی رویہ کی وجہ سے ملک میں دہشت گردی سمیت کسی بھی ایک مسئلہ پر وسیع تر سیاسی اتفاق رائے پیدا نہیں ہوتا۔ کیوں کہ یہ پارٹیاں عوام کے ووٹوں سے حق حکومت حاصل کرنے کی بجائے اسٹبلشمنٹ کی سہولت کاری سے اس مقام تک پہنچنا چاہتی ہیں۔ اسی لئے بدترین قومی بحران میں بھی سیاسی پوائینٹ اسکورنگ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
وادی بولان میں ٹرین پر حملہ کے بعد البتہ سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جارہی بلکہ اس کا اعتراف بھی کیا جارہا ہے تاہم سیاسی لیڈروں کو ابھی واضح کرنا ہے کہ وہ کیسے یہ مقصد حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ایک بار پھر قومی مباحثہ کا حصہ بنی ہے کہ کسی فوری سانحہ کے بعد شدت پسندوں یا عسکری عناصر کی بیخ کنی بلاشبہ سکیورٹی فورسز ہی کا کام ہے لیکن اس بے چینی کو جنم دینے والے سیاسی و سماجی عوامل کا حل پیش کرنا بہر حال سیاسی قوتوں کا کام ہے۔ اس بحث میں ان سطور سمیت ملک کے متعدد مبصرین نے یہ نشاندہی کی ہے کہ بلوچستان میں ریاست سے برسرپیکار علیحدگی پسند عناصر کے خلاف مؤثر جنگ کے لیے صوبے کے عوام کی جائز شکایات دور کی جائیں تاکہ ان کا ریاست اور سیاسی قیادت پر اعتماد بحال ہو اور علیحدگی پسند عناصر لوگوں کو گمراہ کرنے میں ناکام ہوں۔
اس حوالے سے اکثر مبصرین نے صوبائی وسائل میں مقامی آبادی کو حصہ دینے، لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے اور ملکی آئین پر اعتبار کرنے والے سیاسی عناصر کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنےکی ضرورت پر زور دیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے ڈائیریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے اپنی پریس کانفرنس میں لاپتہ افراد کے معاملہ کو ’نان ایشو‘ قرار دینے کی کوشش کی اور اس کے بعد ملک کے بعض دانشوروں نے اس بحث کا آغاز کیا ہے کہ لاپتہ افراد بجائے خود کوئی مسئلہ نہیں ، بلکہ یہ معاملہ صوبے میں دہشت گردی کی وجہ سے سامنے آیا ہے۔ اس حوالے سے یہ دلیل دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اگر دہشت گردی کے واقعات نہ ہوں تو کسی سرکاری ادارے کو لوگوں کو اٹھانے اور انہیں ایذا پہنچانے کی ضرورت بھی محسوس نہ ہو۔
کسی بھی مہذب معاشرے میں اس اصول کو بنیادی حیثیت دی جائے گی کہ صرف حکومت اور اس کے زیر نگین ادارے ہی طاقت یا تشدد استعمال کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اس حق کے جائز یا غلط ہونے کا فیصلہ کوئی عدالت ہی کرسکتی ہے۔ اسی طرح اس بات پر بھی کوئی اختلاف موجود نہیں ہوسکتا کہ کسی فرد ، جتھے، گروہ یا گروپ کو ہتھیار اٹھانے اور ریاست کے خلاف جنگ کا اعلان کرنے یا عوام کو نشانہ بنانے کا حق نہیں دیا جاسکتا ۔ اسی لیے دہشت گردی کو اتفاق رائے سے مسترد کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ دلیل دینا کہ عسکری ادارے دہشت گردی کی وجہ سے شہریوں کو اٹھانے ، غائب کرنے یا تشدد سے مارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ، ناقابل قبول اور کسی بھی اصول قانون کے تحت درست مؤقف نہیں ہے۔ بلوچستان کے گھر گھر میں لاپتہ افراد کی وجہ سے کہرام بپا ہے۔ نوجوانوں اور دیگر لوگوں کو ان کے سیاسی خیالات یا سرگرمیوں کی وجہ سے اٹھا لیا جاتا ہے اور کوئی ادارہ اس کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔ کئی دہائیوں سے جاری یہ ریاستی ظلم اس حد تک سنگین ہوچکا ہے کہ بلوچستان کا ہر شہری اس سے براہ راست یا بالواسطہ طور سے متاثر ہے۔
دہشت گردی کو اسی اصول کی بنیاد پر مسترد کیا جاتا ہے کہ کوئی سیاسی مقصد حاصل کرنے کے لیے ہتھیار اٹھانا ناقابل قبول طریقہ ہے۔ اسی طرح اگر ریاستی ادارے کوئی سیاسی یا انتظامی مقصد حاصل کرنے کے لیے ویسا ہی غیر قانونی یا غیر انسانی طریقہ اختیار کرتے ہیں تو اسے بھی کسی اصول یا حجت کے نام پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔ لاپتہ افراد کے حوالے سے ہمیشہ عسکری اداروں پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں لیکن اس طریقہ کار کو ختم کرنے کی بجائے وقتاً فوقتاً اس کے لیے دلیل لانے یا کوئی عذر تراشنے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جیسے کہ یہ لوگ خود گھروں سے چلے گئے ہیں یا فوج کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ یہ وضاحتیں حقیقت حال کے برعکس ہیں۔ اسی لیے یہ درخواست کی جاتی ہے کہ بلوچستان میں پائیدار امن کے لیے ریاست کی طرف سے جبر کا غیر قانونی اور غیر انسانی طریقہ ختم ہونا چاہئے۔ جعفر ایکسپریس سانحہ کے تناظر میں اگر شہریوں کو غیر قانونی طور سے اٹھانے کو جائز کہنے یا اس کے لیے دلیل لاکر عسکری اداروں کو خراج تحسین پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اس سے بلوچستان میں سیاسی بے چینی بڑھے گی اور صوبوں کے درمیان دوریوں میں اضافہ ہوگا۔
لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے جد و جہد کرنے والے کسی گروہ یا پارٹی نے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ کسی غیر قانونی سرگرمی میں شامل لوگوں کو قانون کے سامنے جوابدہ نہ کیا جائے۔ ان کا واحد مطالبہ یہی ہوتا ہے کہ لوگوں کو غیر قانونی طور سے لاپتہ کرکے دہشت و سراسیمگی کا ماحول پیدا کرنے کی بجائے ، قانون شکنی کرنے والوں کو عدالتوں میں پیش کیا جائے اور قصور واروں کو سزا دلاوئی جائے۔ ریاست پاکستان اگر اس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے سے گریز کرتی رہے گی تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کا مقدمہ کمزور ہوگا اور مسئلہ حل کرنا دشوار ہوجائے گا۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ