پارلیمنٹ کی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے چئیرمین خورشید شاہ نے اعلان کیا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کا مسودہ کمیٹی نے متفقہ طور سے منظور کرلیا ہے۔ البتہ اجلاس سے اے این پی کے رہنما ایمل ولی خان کے بائیکاٹ کی خبریں بھی میڈیا میں آئی ہیں۔ اس سے پہلے رات گئے تحریک انصاف کے ساتھ پریس کانفرنس میں جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ کو ہراساں کرنے کی مذمت کی اور دھمکی دی تھی کہ وہ پارلیمنٹ کے اجلاس کا بائیکاٹ کردیں گے
پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ اب یہ منظور شدہ مسودہ کابینہ کی منظوری کے لیے بھیج دیا گیا ہے ۔ کابینہ کی منظوری کے بعد ہی اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ اس دوران سینیٹ اور قومی اسمبلی کا اجلاس شام 6 منعقد ہونے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے یہ اجلاس بالترتیب دو بجے اور صبح گیارہ بجے منعقد ہونے قرار پائے تھے۔ ان اجلاسوں کا ایجنڈا بھی جاری کیا گیا ہے لیکن آئینی ترمیم کا بل ایجنڈے پر شامل نہیں ہے۔ البتہ عام طور سے آئینی ترمیم کے لیے بل کو پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران پیش کیا جاسکتا ہے۔ جمعہ کو شام تک یہ واضح نہیں تھا کہ کیا حکومت ایک بار پھر آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں پیش کرنے ناکام تو نہیں ہوجائے گی۔ اس سے پہلے ستمبر کے دوران اس آئینی ترمیم کا مسودہ پیش کرنے کے لیے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس طلب کیے گئے تھے اور ارکان کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ ہر صورت اس میں شریک ہوں لیکن آخری لمحے پر بل کے لیے اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے حکومت نے یہ ارادہ ترک کردیا تھا۔
گزشتہ چند ہفتے کے دوران جمیعت علمائے اسلام و پیپلز پارٹی کے درمیان آئینی ترمیم پر اتفاق رائے کی اطلاع دی گئی تھی۔ اس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے جاتی عمرہ میں نواز شریف سے ملاقات کے لیے ایک اجلاس میں شرکت کی تھی۔ اس اجلاس میں صدر آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف سمیت متعدد رہنما شریک تھے۔ اجلاس کے بعد میڈیا کو یہی بتایا گیا تھا کہ فریقین مسودہ پر تقریباً متفق ہوچکے ہیں۔ یہ اطلاع بھی سامنے آئی تھی کہ ترمیم میں علیحدہ آئینی عدالت قائم کرنے کی بجائے مولانا فضل الرحمان کی اس تجویز کو ماننے پر اتفاق ہؤا ہے کہ آئینی عدالت کی بجائے صرف مرکز میں آئینی بنچ بنانے پر اکتفا کیا جائے۔ البتہ اس بنچ کی ساخت، ارکان کی تعداد اور اختیارات و دائرہ کار کے بارے میں مسلسل بے یقینی موجود ہے۔ ان امید افزا خبروں کے دوران تحریک انصاف کے وفد نے کل رات مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد مولانا فضل الرحمان نے تحریک انصاف کے چئیرمین بیرسٹر گوہر کے ہمراہ پریس کانفرنس کی تو ان کا لب و لہجہ بدلا ہؤا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت ارکان پارلیمنٹ پر دباؤ ڈالنے اور اور ہراساں کرنے کے لیے ناجائز ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔ اگریہ طریقہ جاری رہتا ہے تو جمیعت علمائے اسلام ترمیمی بل کے لیے منعقد ہونے والے اجلاس کا بائیکاٹ کرے گی۔ پریس کانفرنس میں انہوں نے یہ عندیہ بھی دیا کہ معاملہ چونکہ آئینی ترمیم کا ہے ، اس لیے اسے متفقہ طور سے منظور ہونا چاہئے۔ انہوں نے تحریک انصاف کو آن بورڈ لینے پر اصرار کیا۔
تحریک انصاف پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے دوران سنجیدگی دکھانے اور کوئی تجاویز پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بیرسٹر گوہر علی اور عمر ایوب مسلسل کہتے رہے ہیں کہ پارٹی عمران خان کی منظوری کے بغیر آئینی ترمیم کے لیے اپنی تجاویز پیش نہیں کرسکتی۔ مولانا فضل الرحمان کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ معاملات طے کرتے ہوئے اندازہ تھا کہ تحریک انصاف ان ترامیم کی حمایت نہیں کرے گی کیوں کہ اس میں عدلیہ کے حوالے سے اہم فیصلے کیے جائیں گے جو پی ٹی آئی کے خیال میں اعلیٰ عدلیہ میں اس کے حامی ججوں کی پوزیشن کمزور کریں گے۔ البتہ بعد میں گوہر علی کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ارکان کو ہراساں کرنے پر غم وغصہ ظاہر کرنے کے علاوہ انہوں نے اتفاق رائے کی نئی شرط عائد کی ۔ یوں لگنے لگا ہے کہ جیسے اس معاملہ میں مولانا فضل الرحمان کو ویٹو کا اختیار حاصل ہے اور وہ اس اختیار کو بار بار استعمال کرکے حکومت کو ناکوں چنے چبوانا چاہتے ہیں اور باور کرانا چاہتے ہیں کہ ان کی مرضی کے بغیر کوئی آئینی ترمیم ممکن نہیں ہے۔
بیرسٹر گوہر علی پریس کانفرنس کے دوران کسی بڑی پارٹی کے لیڈر سے زیادہ مولانا کے فرماں بردار شاگرد یا مرید کی طرح باتیں کررہے تھے۔ انہوں نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ جیسے تحریک انصاف کو سرگرمی سے آئینی ترمیم کے لیے کام کرنے پر آمادہ ہے لیکن حکومت غیرپارلیمانی طریقوں اور جبر کے ہتھکنڈوں سے تحریک انصاف کو دور کر کررہی ہے۔ رات کی پریس کانفرنس میں ان کا مؤقف تھا کہ ’ ہم نے مولانا سے کہا تھا کہ جو ترامیم ہورہی ہیں اس میں سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کی حیثیت سے ہم آپ کے ساتھ مل کر اور آپ کی رہنمائی میں کوشش کریں گے۔ آپ جو تجویز جمع کرائیں گے، ہم آپ ہی کے ڈرافٹ کے ساتھ مل کر آگے بڑھیں‘۔ حالانکہ پارلیمنٹ کی بڑی پارٹی ہونے کی حیثیت سے تحریک انصاف کے چئیرمین کو قائدانہ کردار ادا کرنے کی بات کرنی چاہئے تھی۔ ان کا یہ بیان قبل ازیں اختیار کیے گئے اس مؤقف سے بھی برعکس تھا کہ پارٹی لیڈر عمران خان کی منظوری کے بغیر کوئی آئینی تجویز پیش نہیں کریں گے۔
البتہ اس دوران ارکان پارلیمنٹ کو ہراساں کرنے اور گھروں پر چھاپے مارنے کی اطلاعات پر متعدد سیاسی حلقوں نے ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ بی این پی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے ایسا ہی الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے گھر پر چھاپا مارا گیا اور سینیٹرز پر دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ اختر مینگل کچھ عرصہ پہلے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں وہ اپنی پارٹی کے سینیٹرز کو بھی استعفیٰ دینے کا مشورہ دیں گے۔ مولانا فضل الرحمان اور بیرسٹر گوہر علی نے بھی اسی قسم کی ہیں۔ تاہم حکومت نے ان شکایات کو دور کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن یہ بدستور غیر یقینی ہے کہ کیا حکومت پارلیمنٹ کے موجودہ اجلاس میں آئینی ترمیم منظور کرانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ اگرچہ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے ان شکایات کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ خورشید شاہ نے گزشتہ روز ارکان پارلیمنٹ کی شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے اسپیکر کو ان شکایات سے آگاہ کیا ہے۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی (ف) میں اتفاق رائے کے بعد اس قسم کی شکایات کا سامنے آنا افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ خورشید شاہ کی سربراہی میں کام کرنے والی کمیٹی ان شکایات کا ازالہ کرے گی تاکہ آئندہ یہ شکایات سامنے نہ آئیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ’ ہم آئین سازی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اتفاق رائے تقریباً ہوچکا ہے۔ عدالتی اصلاحات پر پیپلزپارٹی ، جے یوآئی اور مسلم لیگ کااتفاق ہوچکا ہے۔ ہم انشااللہ اپنی سیاسی طاقت سے آئینی ترمیم منظور کرکے دکھائیں گے‘۔
26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے سب سے بڑی گرہ یہ ہے کہ حکومت ایک ہفتہ بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ سے پہلے ترمیم منظور کرانا چاہتی ہے جبکہ تحریک انصاف کی خواہش ہے کہ یہ ترمیم 27 اکتوبر کو جسٹس منصور علی شاہ کے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد منظور ہو تاکہ ایک ایسا جج سپریم کورٹ کا سربراہ بن جائے جن کے بارے میں گمان کیا جارہا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے ’حامی‘ ہیں۔ اس آئینی ترمیم میں ججوں کی عمر کے علاوہ چیف جسٹس کی تقرری کا موجودہ طریقہ کار تبدیل کرنے کا امکان ہے۔ اس وقت چیف جسٹس عمر پوری ہونے پر سبکدوش ہوجاتا ہے اور سب سے سینئر جج نیا چیف جسٹس بنتا ہے۔ حکومت کی نیک نیتی پر شبہ کی وجہ یہ بھی ہے کہ ابھی تک جسٹس منصور علی شاہ کی بطور چیف جسٹس تقرری کا نوٹی فکیشن جاری نہیں ہؤا۔ حکومت کا خیال ہوگا کہ اگر آئینی ترمیم میں وزیر اعظم یا پارلیمانی کمیٹی کو نیا چیف جسٹس مقرر کرنے کا اختیار مل جائے تو وہ اپنا پسندیدہ جج اس عہدے پر تعینات کریں۔ حکومت کے اسی غیر واضح طریقہ کار اور خفیہ ایجنڈے کے حوالے سے شبہات کی وجہ سے سیاسی اختلاف بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔
ارکان پارلیمنٹ پر دباؤ کی خبروں پر بھی سیاسی رد عمل میں شدت کی یہی وجہ ہے کہ حکومت تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو اس ترمیم پر اپنی حمایت میں ووٹ دینے پر آمادہ کرنا چاہتی ہے۔ تاکہ جمیعت علمائے اسلام (ف) کے تعاون کے بغیر ہی ترمیم منظور کرا لی جائے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے آئینی شق 63 اے کی وضاحت پر نظر ثانی کی اپیل منظور ہونے کے بعد حکومت کے لیے یہ حمایت حاصل کرنا آسان ہوگیا ہے۔ لیکن دوسری طرف مولانا کو اگر اپنی اہمیت کم ہوتی دکھائی دے گی تو وہ حکومتی منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے۔ اتفاق رائے کے بعد گزشتہ شب مولانا کا تبدیل شدہ لب و لہجہ ان کے اسی غصہ کا اظہار ہے۔
عام طور سے قیاس کیا جاتا رہا ہے کہ حکومت ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کرکے موجودہ چیف جسٹس کو بدستور اس عہدے پر فائز دیکھنا چاہتی ہے۔ تاہم گزشتہ دنوں ہونے والی سیاسی کھینچا تانی سے یہ دکھائی دینے لگا ہے کہ حکومت شاید اس مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔ قاضی فائز عیسیٰ شاید 26 اکتوبر کو ریٹائر ہوجائیں۔ سپریم کورٹ میں ان کے لیے الوداعی ریفرنس کا بھی اعلان کیا جاچکا ہے۔ اب حکومت کو نئی آئینی کورٹ یا بنچ کی ساخت اور نئے چیف جسٹس کی تقری کے حوالے سے اختیار حاصل کرنے کی جلدی ہے۔ اسی عجلت میں متعدد ایسے اقدامات دیکھنے میں آئے ہیں جس سے سارا کام خراب ہونے کا امکان پیدا ہوجاتا ہے۔ لگتا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم حکومت کے حلق کا کانٹا بن چکی ہے جو نہ نگلا جارہا ہے اور نہ ہی اگلنے کی نوبت آتی ہے۔ شہباز شریف کی حکومت اگر ایک بار پھر پارلیمنٹ کے موجودہ اجلاس سے آئینی ترمیم منظور کرانے میں ناکام رہی تو یہ حکومت کی وقعت اور اتھارٹی کے لیے شدید نقصان دہ ہوگا لیکن موجودہ حکومت نے اپنے لیے یہ حالات خود پیدا کئے ہیں۔ وہ اس بارے میں کسی دوسرے کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتی۔
اگر آئینی ترمیم کا مسودہ کسی مقدس دستاویز کی طرح خفیہ رکھنے کی بجائے عام مباحثہ کے لیے پیش کیا جاتا اور حکومتی ترجمان سپریم کورٹ کو زیر اثر لانے کے لیے غیر ضروری بیان بازی نہ کرتے تو شاید عدالتی اصلاحات کی ترمیم کسی بڑے اختلاف کے بغیرمنظور ہوسکتی تھی۔ البتہ اب یہ معاملہ بدستور معلق ہے اور اسی کے ساتھ حکومت کا وقار داؤ پر لگا ہے۔ یہ پہلی حکومت ہوگی جو پارلیمنٹ میں اکثریت کی حامل ہونے کے باوجود خود اپنی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے خفت و شرمندگی کا سامناکرے گی۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)