اتوار کو سنگجانی میں جلسہ عام کے بعد پیدا ہونے والا تنازعہ ملک میں ایک نئے سیاسی تصادم کا سبب بنا ہے۔ گزشتہ شام تحریک انصاف کے متعدد اراکان قومی اسمبلی کو پارلیمنٹ ہاؤس سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ وہ گرفتاری سے بچنے کے لیے پارلیمنٹ کی حدود میں پہنچے تھے۔ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے اس معاملہ کا سخت نوٹس لینے کا وعدہ کیا ہے۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپوزیشن تحریک انصاف اور سرکاری بنچوں کے ارکان میں نوک جھونک ہوئی اور ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے گئے۔ پولیس سنگجانی جلسہ میں انتظامیہ سے ہونے والے معاہدہ کی خلاف ورزی پر تحریک انصاف کے لیڈروں کو گرفتار کررہی ہے تاہم اس موقع پر خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کے طرز عمل اور اشتعال انگیز تقریر کے باعث صورت حال کشیدہ ہوئی ہے۔ شروع میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کے بعد اب تحریک انصاف علی امین گنڈا پور کی حمایت کررہی ہے ۔ اس سے پہلے آج عمران خان نے میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ علی امین گنڈاپور کے بیان پر معافی مانگنے والے بزدل اور ڈرپوک ہیں۔ ان کو پارٹی میں نہیں ہونا چاہیے‘۔ اس کے بعد بیرسٹر گوہر علی نے پولیس حراست سے رہا ہونے کے بعد میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور کی تقریر کو درست اور تحریک انصاف کی طرف سے جلسہ میں تاخیر کو جائز قرار دیا۔
عمران خان نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ’ صوبے کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو کل رات اسٹیبلشمنٹ نے اٹھایا۔ ایک صوبے کے وزیراعلی کو اٹھا کر آپ نفرتیں بڑھا رہے ہیں۔ خیبر پختون خوا کے وزیراعلی کے ساتھ ایسا کرکے ملک کو تباہی کی جانب لے جا رہے ہیں۔ صحافی نے عمران خان سے سوال کیا کہ علی امین گنڈاپور کے بیانات سے بغاوت کا تاثر جاتا ہے ۔ کیاآپ بغاوت کی ترغیب دے رہے ہیں؟ اس پر عمران خان نے کہا کہ ’ہم نے کون سی بغاوت کی ہے؟ علی امین گنڈا پور نے قوم کے جذبات کی ترجمانی کی ہے اور میں علی امین گنڈا پور کے ساتھ کھڑا ہوں‘۔ اس موقع پر تحریک انصاف کے بانی چئیر مین نے کہا کہ میں آج سےاسٹیبلشمنٹ سمیت کسی فریق سے بھی مذاکرات کے دروازے بند کررہا ہوں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ 6 پارٹی رہنماؤں کو اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کی اجازت دے رکھی تھی۔
عمران خان نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ہمیں اجازت ملے یا نہ ملے 21 ستمبر کو لاہور میں جلسہ کریں گے۔ اس سے ایک روز پہلے عمران خان یہ اعتراف بھی کرچکے تھے کی سنگجرانی جلسہ سے پہلے 22 اگست کو مجوزہ جلسہ اسٹبلشمنٹ کے مشورہ سے ہی اچانک ملتوی کیا گیا تھا تاکہ پارٹی 8 ستمبر کو جلسہ کرنے کی اجازت حاصل کرلے۔ البتہ اس جلسہ کے لیے انتظامیہ کی طرف سے کڑی شرائط عائد کی گئی تھیں جنہیں تحریک انصاف نے قبول تو کیا تھا لیکن ان پر عمل نہیں کرسکی۔ دوسری طرف حکومت نے تحریک انصاف کی طرف سے اجتماعات کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے گزشتہ ہفتہ کے دوران عجلت میں ’ اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر 2024‘ کے نام سے ایک نیا قانون منظور کیا تھا جس کے تحت اسلام آباد کی حدود میں اجتماع اور جلسہ جلوس پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ اس قانون پر صدر آصف زرداری نے سنگجرانی میں پی ٹی آئی کے جلسہ سے ایک روز پہلے 7ستمبر کو دستخط کیے تھے۔ گزشتہ روز اور آج کے دوران پولیس نے تحریک انصاف کے جن لیڈروں اور کارکنوں کو گرفتار کیا ہے، ان کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے علاوہ اس قانون کی خلاف ورزی کے الزامات بھی عائد ہیں۔
حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان سامنے آنے والے اس تنازعہ کے تین اہم پہلو ہیں جو اپنی اپنی جگہ پر اہمیت رکھتے ہیں اور ان کا کوئی حل تلاش کیے بغیر معاملات درست ہونے کا امکان نہیں ہے:
ایک: سنگجرانی کے مقام پر اتوار کو جلسہ کرتے ہوئے مقررین نے نہایت پرجوش اور دھمکی آمیز تقریریں کیں جن میں علی امین گنڈا پور کی تقریر سب سے زیادہ اشتعال انگیز تھی۔ انہوں نے نہ صرف حکومت بلکہ فوج کو للکارا اور پنجاب پر دھاوا بولنے کا اعلان کیا بلکہ دو ہفتے میں عمران خان رہا نہ ہوئے تو انہیں خود رہا کروالینے کا اعلان بھی کیا۔ تقریروں کے علاوہ اس موقع پر علی امین گنڈا پور کی قیادت میں ڈیوٹی پر موجود پولیس افسروں کو ہراساں کیا گیا، بعض پولیس والوں کو حبس بے جا میں رکھا گیا، ایک افسر کے سر پر بندوق تانی گئی اور ڈپٹی کمشنر کی طرف سے مقررہ وقت پورا ہونے پر جلسہ بند کرنے کے حکم نامے کی کاپی پھاڑی گئی۔
دوئم: کل شام کے دوران پولیس نے تحریک انصاف کے لیڈروں اور ارکان اسمبلی کو گرفتار کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان میں سے بعض کو قومی اسمبلی کی حدود میں سے پکڑا گیا۔ تحریک انصاف کے لیڈر علی محمد خان نے آج قومی اسمبلی میں پرجوش تقریر کرتے ہوئے اس اقدام کو پارلیمنٹ پر حملہ اور جمہوریت کا 9 مئی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جو 9 مئی کو ہؤا ، وہ بھی غلط تھا لیکن 10 ستمبر کو ’نقاب پوشوں‘ نے پارلیمنٹ میں داخل ہوکر گرفتاری سے بچنے والے ارکان اسمبلی کو گرفتار کیا اور پارلیمانی تقدس کو پامال کیا۔ یہ پالیمانی جمہوریت کا یوم سیاہ ہے‘۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے اس واقعہ کا نوٹس لینے کا وعدہ کیا ہے اور آئی جی پولیس اسلام آباد اور متعلقہ ایس ایس پی کو اپنے چیمبر میں طلب کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ضروری ہؤا تو اس واقعہ کی ایف آئی آر درج کروائی جائے گی۔
سوئم: عمران خان نے اسٹبلشمنٹ سمیت کسی بھی فریق سے بات چیت کے دروازے بند کرنے اور علی امین گنڈا پور کی بدزبانی اور غیر قانونی حرکات کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی باتیں عوام کے جذبات کی ترجمانی ہیں۔ البتہ وہ یہ باور کرنے میں ناکام رہے کہ لیڈروں کو عوامی جذبات بھڑکا کر امن و امان کی صورت حال خراب کرنے یا انتشار پیدا کرنے کی بجائے ضروری مطالبات اور مسائل کو مناسب فہم و تدبر کے ساتھ بیان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ علی امین گنڈا پور کے بارے میں گزشتہ روز بہت سی افواہیں سوشل میڈیا پر گشت کرتی رہی ہیں تاہم عمران خان نے میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں اسٹبلشمنٹ نے اٹھایا تھا۔ اس دعوے کی تصدیق نہ تو سرکاری طور سے کی گئی ہے اور نہ ہی علی امین گنڈا پور نے آج علی الصبح ’بحفاظت‘ پشاور پہنچنے کے بعد اسلام آباد میں اپنے ساتھ پیش آنے والے حالات کے بارے میں کوئی بیان دینے یا پریس کانفرنس کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے۔ البتہ لگتا ہے کہ جیل میں بند عمران خان علی امین گنڈا پور کی باتوں کے علاوہ ان کے ساتھ بیتنے والی صورت حال کے بارے میں ’براہ راست‘ کچھ معلومات حاصل ہیں جن کی بنیاد پر وہ دو ٹوک الفاظ میں دعوے کررہے ہیں۔
عمران خان کے بیان کا یہ حصہ خاص طور دلچسپی کا سبب ہونا چاہئے کہ وہ گزشتہ کئی ماہ سے مسلسل جس اسٹبلشمنٹ کو بات چیت کی دعوت دیتے رہے ہیں، اب اس سے قطع تعلق کا اعلان کررہے ہیں۔ البتہ ان بیانات پر آئی ایس پی آر کی طرف سے کبھی کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ تاہم 22 اگست کو اسلام آباد میں مجوزہ جلسہ کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت سے یہ واضح ہؤاکہ عمران خان کے نہ صرف اسٹبلشمنٹ سے روابط ہیں بلکہ وہ ان کی بات سننے پر بھی آمادہ رہتے ہیں۔ آج ہی انہوں نے بتایاکہ انہوں نے اسٹبلشمنٹ سے بات چیت کے لیے 6 افراد مقرر کیے ہوئے تھے۔ تاہم اب وہ یہ رابطے ختم کررہے ہیں۔
ملکی اسٹبلشمنٹ کی اصطلاح سیاسی حوالے سے پاک فوج کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ ملک کے انتظامی یاسیاسی امور میں اسٹبلشمنٹ کا کوئی اصولی یا آئینی کردار نہیں ہے۔ لیکن عمران خان نے ہمیشہ موجودہ حکومت اور دوسری سیاسی پارٹیوں کو کٹھ پتلیاں قرار دیتے ہوئے صرف فوج سے بات چیت کرنے کا مطالبہ کیا ۔ تاکہ اقتدار کے حوالے سے معاملات طے کیے جاسکیں۔ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ اسی اسٹبلشمنٹ سے ’قطع تعلق‘ کے اعلان پر کب تک قائم رہ سکیں گے۔ کیوں کہ یہ تو پوری قوم کو عمران خان ہی ازبر کرواتے رہے ہیں کہ اگر ’حقیقی آزادی ‘ لینی ہے تو اسے فوج کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ وہ اس مؤقف کو اتنی آسانی سے تبدیل کرلیں گے۔ اس لیے ان کی آج ہونے والی گفتگو ایک تو پارٹی لیڈروں کی گرفتاریوں پر فوری اشتعال کا نتیجہ ہے۔ دوسرے ممکن ہے کہ وہ ایسا انتہائی اعلان کرکے خود کو ’اہم ‘ ثابت کرنے کی اپنی سی کوشش کررہے ہوں۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ سیاسی بیان بازی سے قطع نظر عمران خان اور تحریک انصاف اگر کسی قابل عمل سیاسی منصوبے پر متفق نہیں ہوتے اور دیگر سیاسی پارٹیوں کو ملکی سیاست کا حصہ دار ماننے پر آمادہ نہیں ہوتے تو عمران خان تن تنہا دوسروں کو مجبور کرنے کی بجائے سیاسی طور سے خود بے بس و لاچار ہو جائیں گے۔
پارلیمنٹ سے گرفتاریوں کا معاملہ یوں تو ایک سنگین واقعہ ہے لیکن اس وقوعہ کو جمہوریت کے لیے یوم سیاہ قرار دینے سے پہلے خود سیاسی پارٹیاں پارلیمنٹ کو احترام دینے کا طریقہ اختیار کریں۔ 2014 کے دھرنے اور احتجاج میں عمران خان نے خود پارلیمنٹ پر حملہ کی قیادت کی تھی اور اس کی آئینی حیثیت کو ماننے سے انکار کیا تھا۔ آج تک تحریک انصاف نے اس رویہ پر معافی نہیں مانگی حالانکہ پارٹی نے ساڑھے تین سال اسی پارلیمنٹ میں اکثریت کے سہارے ملک پر حکومت کی ہے۔ اس حوالے سے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا اظہار افسوس البتہ قابل فہم ہے کیوں کہ پولیس نے قواعد کے مطابق ارکان اسمبلی کو گرفتار کرنے کے لیے اسپیکر سے پیشگی اجازت طلب نہیں کی۔ لگتا ہے کہ حکومت کا مقصد بھی تحریک انصاف کو ہراساں کرنا اور سیاسی ایجنڈے سے ہٹ کر غیر ضروری امور کی طرف متوجہ رکھنا ہے تاکہ اس کی سیاسی قوت ضائع ہوتی رہے۔ اس بات کا امکان کم ہے کہ اسپیکر ایاز صادق اس حوالے سے کوئی ٹھوس اقدام کرسکیں گے کیوں کہ اس کے لیے بھی تمام پارٹیوں اور ارکان اسمبلی کو پارلیمنٹ کے وقار کی تشریح کرتے ہوئے اس پر متفق ہونا پڑے گا۔
گرفتاریوں کے تناظر میں تحریک انصاف کے زور دار بیانات البتہ سنگجرانی میں پیش آنے والے واقعات اور کی جانے والی باتوں کی سنگینی اور شدت کو کم نہیں کرسکتے۔ عمران خان کا یہ کہنا کافی نہیں ہوسکتا کہ کہ علی امین گنڈا پور نے عوام کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ ملک کے سارے لوگ مل کر بھی کسی ایک شخص کو بھی قانون توڑنے کا حق تفویض نہیں کرسکتے۔ پولیس ایف آئی آر میں علی امین گنڈا پور سمیت تحریک انصاف کے لیڈروں پر پولیس کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کی جو مثالیں دی گئی ہیں، تحریک انصاف کو یا تو انہیں غلط ثابت کرنا ہوگا یا اس رویہ پر معافی مانگنی ہوگی۔
اس دوران میں خیبر پختون خوا اسمبلی نے کثرتِ رائے سے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں’ آئین سے تجاوز کرنے والے فوجی افسران کے خلاف کارروائی اور فوج کو سیاست میں مداخلت کرنے سے روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے‘۔ خیبر پختون خوا اسمبلی صوبائی معاملات دیکھنے کے لیے وجود میں آتی ہے۔ سیاست میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کا معاملہ پارلیمنٹ میں پیش کرنے اور اس پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ تب ہی آئینی خلاف ورزی کرنے والوں کا احتساب ہوسکے گا۔ البتہ دوسروں کو قانون و آئین کا پابند کرنے والی پارٹی اگر خود قانون شکنی کو ’عوامی جذبات‘ کے نام پر جائز قرار دے گی تو اس کی جائز باتوں کو بھی کوئی اہمیت حاصل نہیں ہوسکے گی۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ