مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 13 فروری 1994 ء کو نواز شریف نے کہا تھا کہ بینظیر بھٹو وزیر اعظم کی حیثیت سے پاکستان کے مفاد کی بجائے دشمنوں (بھارت) کے مفاد کے لیے کام کرتی رہی ہیں۔ نواز شریف کو یاد ہو گا کہ انھوں نے پھر ایک جملہ اورکہا تھا کہ ایسے ملک دشمن کو ایک دن بھی وزارت عظمی کے عہدے پر برقرار نہیں رہنا چاہیے۔
کل تک تو نواز شریف بھی دوسروں کو غداری کے سرٹیفیکٹ دیا کرتے تھے۔ آج اپنا دامن کیسے بچا سکتے ہیں؟ عجیب ملک ہے یہاں جو لوگ محب وطن ہو کر دوسروں کو غداری کا سرٹیفیکٹ دیتے ہیں جب وقت کے خدا اپنا سکہ تبدیل کرتے ہیں تو وہ ہی غداری کے سرٹیفیکٹ حاصل کرتے ہیں۔
تاریخ کی تبدیلی کے بعد سب کچھ ویسا ہی ہوتا ہے۔اس بات کا اعتراف حمید گل کئی بار کرچکے ہیں کہ بینظیر بھٹو کے دور میں یہ بس ایک پروپیگینڈا تھا کہ اعتزاز احسن نے سکھوں کے حوالے سے کوئی لسٹ بھارت کو دی ہے۔ اس حوالے سے کئی لوگ اب کہہ چکے ہیں کہ یہ بس افواہ تھی اس میں کوئی سچائی نہیں تھی، لیکن سیاست میں حقیقت سے زیادہ فسانے کا ذکر ہوتا ہے۔ سیاست میں یہ بات اہمیت نہیں رکھتی کہ سچ کیا ہے؟
سیاست میں یہ اصول ہے کون کتنی طاقت کے ساتھ بول سکتا ہے اور لوگوں کو یہ بتا سکتا ہے کہ وہ جو کہہ رہا ہے وہ سچ ہے۔ اُس دور میں آئی جے آئی یہ پروپیگینڈا کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی کہ بینظیرکی حکومت نے سکھ تحریک کے اہم لوگوں کی لسٹ، بھارت کو دی ہے اور اسی وجہ سے سکھوں کی تحریک کے خلاف بھارت کو بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ یہ الزام آج بھی کسی نہ کسی شکل میں پیپلز پارٹی پر لگایا جاتا ہے۔
بینظیر کا دوسرا دور حکومت جاری تھا، ایک مضبوط اپوزیشن موجود تھی۔ نواز شریف پنجاب میں خاصی اہمیت رکھتے تھے۔ اپنی وزارت عظمی کا ایک دور مکمل کرچکے تھے۔ 13 فروری 1994 ء کو BBC نے بینظیر کا تفصیلی انٹرویو کیا۔ انٹرویو کے ایک حصے میں بھارت سے تعلقات کے حوالے سے پوچھا گیا۔ واضح رہے کہ اُس وقت بابری مسجد کا سانحہ ہو چکا تھا اور بھارت کے اندر BJP کے پاؤں مضبوط ہو رہے تھے۔
بینظیر نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ پڑوسیوں سے تعلقات بہتر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ بینظیر نے کہا کہ چار سال قبل اُن کی حکومت نے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کی اُس وقت مدد کی تھی جب سکھوں کی شورش کی وجہ سے حکومت ختم ہونے والی تھی۔ بینظیر نے بھارت کو اپنا احسان یاد دلاتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اُس وقت ہماری حکومت اس شورش کو دبانے کے لیے راجیوگاندھی کی مدد نہ کرتی تو معلوم نہیں آج بھارت کہاں ہوتا۔
بینظیر کے اس بیان کے بعد اپوزیشن کو موقع مل گیا۔ ویسے ہی یہ بات پچھلے چار سال سے اپوزیشن کہہ رہی تھی کہ بینظیر کے بھارت اور امریکا سے تعلقات ہے۔ اس بیان نے اپوزیشن کو کھیلنے کا پورا موقعہ دے دیا۔ نواز شریف نے اُسی طرح غداری کا سرٹیفکیٹ جاری کیا جیسے آج ان کے خلاف اپوزیشن دے رہی ہے۔ نواز شریف نے کہا کہ بھارت کی مدد کا اعتراف کر کے بینظیر نے حق حکمرانی کھو دیا ہے۔ آج نواز شریف نے جس طرح کمیشن بنانے کا کہا ہے ویسے ہی انھوں نے 24 سال پہلے کہا تھا کہ بینظیر بھٹو کے خلاف عدالتی ٹریبونل بنایا جا رہا ہے۔
اب سخت اپوزیشن کے بعد بینظیر بھٹو نے اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں نے انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان نے مشرقی پنجاب میں سکھوں کی کوئی حمایت نہیں کی تھی اس لیے راجیوگاندھی کوکامیابی ہوئی، اگر ہم امداد کر دیتے تو بھارت کا کیا ہوتا؟ مگر نواز شریف اس موقعے کو ضایع نہیں کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے غداری کا سرٹیفیکٹ مزید مضبوط کرتے ہوئے کہا کہ ان کا انٹرویو پوری دنیا نے سُنا ہے۔ راجیو گاندھی کا ساتھ دے کر انھوں نے قوم کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ نواز شریف نے ایک بار پھر اپنا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا کہ بھارت کی مدد کرنے والی خاتون کو اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
سیاسی معاملات کو عدالتوں تک آپ لے جاتے ہیں اور جب یوسف رضا گیلانی کو نا اہل کیا جاتا ہے تو مٹھائیاں بانٹی جاتی ہے، لیکن یہ ہی ترکیب جب آپ پر استعمال ہوتی ہے تو ووٹ کی عزت یاد آجاتی ہے، اگر یہ ہی معاملہ کل عمران خان کے ساتھ ہو گا تو وہ کیا کہیں گے؟
سیاسی مخالفوں پر کفرکے فتوی لگا کر گرانے کے عمل کی مخالفت نہیں کی گئی، تو پھر اس کا جواب آپ کو بھی دھرنوں کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ میں اسے سیاسی غلطیاں کہوں یا مفاد پرستی کہ جب آپ کے دامن میں آگ لگتی ہے تو انصاف کے تقاضوں سے لے کر ووٹ کی عزت تک سب یاد آجاتا ہے۔ غداری کی اسناد سے لے کر پارٹی کے ٹوٹنے تک کا عمل کراچی میں آپ کی حکومت میں ہی ہوا۔ اسے آپ نے اپنی بہت بڑی کامیابی قرار دیا، اگر یہ ہی کامیابی آپ کے خلاف کوئی حاصل کر رہا ہے تو اس میں برا کیا ہے؟
کسی بھی مسئلے پر اظہار سے اگر کسی کو کافر، غدار قرار دینے کی روایت کو آپ نے سہارا دیا ہے تو یہ جنگل کی آگ کسی کو نہیں چھوڑتی، لیکن اس کا حل کیا ہے ؟ حل یہ تو ہرگز نہیں کہ جب کسی اورکے دامن پر چھینٹ کے نشان ہو تو اُسے علیحدہ کر دیا جائے اور جب آپ خنجر پر نشان ہو تو دنیا سے کہا جائے کہ مجھے گلے لگا لو ؟ لیکن اس بحث سے بڑھ کر بھی ایک بات ہے۔
اگر کسی کی زبان سے دل کی بات نکل جاتی ہے اور جب وہ یہ سمجھتا ہے کہ اُسے سیاسی طور پر مقتل کی طرف لے جائے گی تو اُس کا ترجمان ہر جگہ بیچ میں آجاتا ہے۔ ’’ہر جگہ‘‘ سے مراد یہ ہے عوامی سطح پر ایک بیان دیا جاتا ہے اور خصوصی جگہ پر اپنے ایلچی بھیجے جاتے ہیں، لیکن اس بار صورتحال انتہائی مختلف ہے۔ لگتا یوں ہے کہ اس بار ایلچی اپنی مصلحت پسندی کے باوجود خاص جگہ کے لوگوں کو سمجھانے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ نواز شریف اپنے بیان پر قائم ہیں۔ وزیر اعظم کے دو مختلف بیانات سامنے آ رہے ہیں۔
کیا اس معاملے کو خاص لوگ اسی طرح دیکھ رہے ہیں جیسے عوام کو دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے؟ میرا جواب ہے بالکل نہیں۔ جس حد تک برداشت اور تحمل کے ساتھ وقت کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ اس کی مثال اب تک تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔ مسلسل عوامی جلسوں، پریس کانفرنس، ٹوئیٹر، ٹاک شوز کے ساتھ ہر محاذ پر پاکستان کے اداروں کے متعلق زبان استعمال کی جارہی ہے۔ دوسری جانب سے ہر صورت میں تحمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کچھ لوگ خاموشی کو طوفان کا پیش خیمہ کہہ رہے ہیں، لیکن سب لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ الیکشن وقت پر ہونگے۔ ایک خاص ذہن یہ کہہ رہا ہے کہ نواز شریف صاحب مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خاتمے کے وقت اداروں کو اس حد تک اکُسا رہے ہیں کہ آگے جمہوریت کی پٹری نہ چل سکے۔
حد نگاہ تک افواہیں، خدشات ہیں۔ ان خدشات کو بڑھانے کی کوششیں تیز تر ہوتی جارہی ہیں۔ کیا ان افواہوں کے درمیان عوام کو کوئی خیرکی خبر ملے گی؟ کیا سیاست کے جال میں ملکی سالمیت کو پھنسانے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ کیا ماضی سے ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے؟ کیا دشمن کو ہم اپنے ہاتھوں سے بولنے کا موقع دے رہے ہیں۔ اندرونی لڑائیوں کو بیرونی سازشوں سے مضبوط کر رہے ہیں۔
یاد رکھیں کہ امریکا سے اس وقت تعلقات بہتر نہیں۔ پاکستان میں ممبئی کے حوالے سے بیان دے کر امریکا کو کتنا موقع دیا گیا ہے۔ جب ہمارے سابق وزیر اعظم اور موجودہ حکومت کے تاحیات وزیراعظم نواز شریف وہ ہی بات کریں گے جس کی وجہ سے امریکا آنکھیں دکھا رہا ہو تو پھر کس کی خدمت ہو گی۔ بینظیر پر یہ الزام نواز شریف نے لگایا تھا اور آج اسی الزام کی زد میں نواز شریف ہیں۔ اسی کو کہتے ہیں مکافات عمل۔
فیس بک کمینٹ