سگے بھائی کے ہاتھوں غیرت کے نام پر قتل کی گئی پاکستان کی پہلی سوشل میڈیا سٹار قندیل بلوچ کی پہلی برسی کے مو قع پر ایک پولیس اہلکار نے سوشل میڈیا پر اس کیلئے ایک دکھ بھری تحریر پوسٹ کی ہےجو آج سے ایک سال قبل قندیل کے قتل کے بعد جائے واردات پر دیگر پولیس اہلکاروں کے ساتھ موجود تھا۔ متعلقہ پولیس اہلکار نے سوشل میڈیا پر دکھ بھری اور جذباتی تحریر پوسٹ کر تے ہو ئے کہا ہے کہ ایک سال قبل قندیل کو اس کے بھائی نے قتل کیا مجھے وہ ہمیشہ یاد رہے گی میں نے اسے قریب سے دیکھا اور سمجھا ہے ۔وہ بہت اچھی بیٹی اور بہن تھی۔اسے اپنے قاتل سے بھی محبت تھی۔اس کے قتل کے بعد 5 بیٹے مل کر بھی ماں باپ کا سہارا نہیں بن سکے۔ اب وہ لاچار زندگی گزار رہے ہیں ۔اللہ قندیل کو معاف کر ے۔بابا عظیم کو دیکھیں کیسا دکھ، کرب اور بے بسی ہے وہ صرف قندیل کی باتیں کرنا چاہتا ہے۔اس کے آنسو بتاتے ہیں کہ قندیل کتنی قیمتی تھی۔ وہ سچ میں ان کیلئے قندیل تھی۔جسے اس نے بجھا دیا جس کی زندگی وہ روشن کرنا چاہتی تھی۔ اس تحریر میں محسوس کیا جانے والا دکھ انسانیت کی ایک مثال ہے تاہم فوزیہ عظیم عرف قندیل بلوچ کے والدین کا دکھ صرف وہ جانتے ہیں۔ قندیل بلوچ کی پہلی برسی شاہ صدر دین میں منا ئی گئی تاہم قندیل بلوچ کے والد کے پاس رقم نہ ہو نے کی وجہ سے مخیر حضرات نے کھانا تقسیم کیا ۔قندیل بلوچ کی والدہ انور بی بی نے آنسو کے ساتھ راقم الحروف سے گفتگو کر تے ہو ئے کہا اس کی بہادر بیٹی پورے خاندان کی کفیل تھی مگر اس کی برسی کیلئے کوئی آگے نہیں بڑھا ۔کچھ ادھار لیا اور کچھ مخیر حضرات نے مدد کی کیونکہ بیٹی کا ان پہ قرض تھا جو اس کی برسی پر ادا کرنا ضروری تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ فوزیہ نے وقت سے پہلے حالات کی سنگینی برداشت کی اور برسوں محرومیوں کا شکار رہی۔ شادیوں کی ناکامی، عدم توجہی اور زمانے کی بے رحمی سہنے کےبعد 2009 میں بس میں ملازمت کی تاہم گزر اوقات مشکل سے ہوتی تھی۔ اسے گانے اور ڈانس کا بچپن سے شوق تھا۔بہن بھائیوں کی شادیوں پر شوق پورا کرتی تھی۔ اسی لیے 2012 میں ماڈلنگ شروع کر دی۔ کئی بار اس سے تشویش کا اظہار کیا گیا جس پر وہ کہتی تھی کہ قندیل آپ کے ساتھ ہے کچھ نہیں ہوگا۔ماڈلنگ کے بعد اس کے حالات اچھے ہونا شروع ہو گئے تو اس نے کھل کر بہن بھائیوں پر خرچ کیا۔ دو سال قبل عید کی آمد تھی ۔ملتان آئی تو بہن کو بھی بلا لیا ۔جس کے آنے پر ہم قندیل کے ساتھ درباروں پر گئے اور بازار بھی گئے ۔بازار میں اس کی بہن کو 1200 روپے کا ایک سوٹ پسند آیا مگر رقم نہیں تھی اس کے پاس تو قندیل نے نہ صرف اصرار پر اسے سوٹ لے کر دیا بلکہ جوتے اور بچوں کی چیزیں بھی دلائیں۔ وہ ان کی صابر بیٹی تھی سب کیلئے کرتی تھی مگر اپنے لیئے کچھ نہیں لیتی تھی۔ بازار میں ہم نے اصرار کیا کہ سب کو خریداری کراتی ہو تمہارے اپنے پاس سونے کی ایک انگوٹھی اور کانوں کی بالیاں تک نہیں ہیں جس پر اسی دن اس نے سونے کی بالیاں خریدیں ۔یہ وہی بالیاں تھیں جو موت کے وقت بھی اس نے پہن رکھی تھیں۔ ابھی اس کی زندگی میں سکون آنے ہی لگا تھا کہ زندگی کا خاتمہ کر دیا گیا۔ اس کے قتل کا سبب مفتی عبدالقوی بنا ہے ۔ایک سال سے سکون نصیب نہیں نہ ہی نیند آتی ہے۔گھر میں فاقے ہیں ۔کچھ باقی نہیں بچا ۔ قندیل ان کی بیٹی نہیں بیٹا تھی۔ہمیشہ معاشی بوجھ اس پر ڈالتے تھے کیونکہ بیٹوں کی اپنی زندگیاں تھیں۔ چوتھی کلاس میں گڑیا کے خوبصور ت کپڑے بنانے کی خواہش میں ایک دن وہ سکول جاتے ہو ئے ڈی جی خاں چل پڑی مگر غلط ویگن پر سوار ہو کر ملتان پہنچ گئی جہاں وہ ایدھی ہوم 5 دن رہی پھر عبدالستار ایدھی خود اسے گھر چھوڑ کر گئے تھے چونکہ رات تھی اور بارش بھی تو وہ صبح ہو نے تک ہمارے گھر رکے رہے تھے۔ قندیل ہمارا سہارا تھی اسی کی وجہ سے ملتان آئے تھے وہ نہیں رہی تو ہم بھی واپس چلے گئے۔ قندیل کے والد عظیم ماہڑہ نے کہا کہ برسی تو ہو گئی وہ مزید اخراجات برداشت نہیں کر سکتے لہٰذہ قندیل قتل کیس کی پیروی کر نے سے قاصر ہیں ۔بیٹے عارف اور سلیم بھی ساتھ نہیں دیتے کہتے ہیں پہلے وسیم اور حقنواز کو معاف کرو پھر خرچہ دیں گے۔قندیل بیٹی نہیں بیٹا تھی برسوں بعد پیٹ بھر کر کھانے لگے تھے مگر ظالموں کو پسند نہیں آیا ہمارے 5 بیٹے والدین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے تھے ایک بیٹی نے والدین سمیت پورے خاندان کی کفالت کا بیڑہ اٹھا رکھا تھا۔بیٹی اپنے دکھ سکھ ہم سے بانٹتی تھی بلوچ نے کہا کہ جب تک ہمت تھی قندیل کا کیس لڑتا رہا ہوں اب تو جان کے بھی لالے پڑے ہو ئے ہیں ۔ہم جانتے ہیں جس طرح روکھی سوکھی کھا کر گزارا کر رہے ہیں ۔کسی کو کچھ بتائیں تو اپنا ہی جسم ننگا ہوتا ہے۔ پولیس والوں نے قندیل کا سامان آج تک واپس نہیں کیا۔ ہمیں لوٹا ہے پولیس نے ۔ بیٹا الگ نشے کا عادی ہو گیا ہے۔ہمارے گھر سے تو زندگی ہی روٹھ گئی ہے۔اب کیس کی پیروی کرنے کیلئے بھی رقم نہیں ہے ۔سب اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔ زندگی کے نشیب وفراز نے اس غریب گھرانے کی لڑکی کو کچھ بننے پر اکسایا اور وہ اپنے راستے خود متعین کر کے انجانی راہوں پر چل پڑی تاہم اپنی اصل شناخت معاشرے کے خوف سے چھپائے رکھی۔شہرت کا شوق تو تھا ہی پھر ہر جگہ سے ناکام ہونے پر اس نے خود کو سوشل میڈیا سٹار بنا لیا۔ فوزیہ عظیم قندیل بلوچ بن کر کامیابی سے ایسے ملک میں سماجی اور معاشی سیڑھی پر چڑھ گئی جہاں عورت ہونا ہی جرم ہے ۔طویل جدوجہد کے بعد جب کچھ بننے کا وقت آیا تو 20 جون 2016 کو مفتی عبدالقوی کے ساتھ منظر عام پر آنے والی قندیل بلوچ کی سیلفی اور ویڈیو اس کے قتل کا سبب بنی اور فرسودہ روایات سے باغی اور بولڈ آواز کو سگے بھائی نے برسوں بعد امڈ آنے والی غیرت کا نشانہ بناتے ہو ئے بیدردی سے قتل کر دیا۔جبکہ قندیل بلوچ کے قتل کو 16جولا ئی کو ایک سال مکمل ہو گیا تاہم اس قتل کا معمہ آج تک حل نہیں ہو سکا ہےاور اس ملک میں غیرت کے نام پر قتل کی گئی ہزاروں خواتین کی طرح قندیل قتل کیس کے اصل ملزموں کو سزا ملنےکے امکانات بھی معدوم نظر آتے ہیں۔
فیس بک کمینٹ