پنجاب بھر میں تقریباً7سالوں میں 2267خواتین کو غیرت کے نا م پر قتل کر دیا گیا ہے۔ قانون سازی کے باوجود موٗثر عملدرآمد نہ ہونے سےمختلف جواز بنا کر خواتین کو خونی ر شتہ داروں اور قر یبی عز یز وں کی جانب سے غیرت کی بھینٹ چڑھانے میں خطرناک رجحان دیکھنے میں آیا ہےقانون کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کردی گئی خاتون کے مقدمہ کی مدعی ریاست ہونے کے باوجود قاتلوں کو عبرت ناک انجام تک نہیں پہنچایا جا سکاجس سے ملزمان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔اس سلسلہ میں پنجاب کمیشن برائے حیثت نسواں کے جینڈر مانیٹرنگ یو نٹ کی رپورٹ کے مطابق پنجاب پبلک پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ نے 2016 میں 19غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات میں سزائیں دلوائیں،8کو داخل دفتر کیا گیا جبکہ 114کیسوں میں قصاص،دیت اور اللہ کے نام پر معافی سمیت عدم پیروی کی بناء پر ملزمان کو بری کر دیا گیا۔2017 میں تاحال کوئی کیس حل نہیں ہوسکا۔معمولی جھگڑوں ،پسند کی شادی اور انتقامی طور پر غیرت کے نام پر قتل کی جانے والی خواتین کے 30فیصد کیسوں میں شوہر اور 20فیصد میں بھائی اور باپ ملوث ہوتے ہیں ۔قانون کی موجودگی میں غیر قانونی کام عام ہیں جن کا سدباب نہیں کیا جا تا اور نتیجے کے طور پر خواتین کے قاتلوں کو کبھی اللہ کے نام پر معافی،کیس کی عدم پیروی،خونی رشتہ دار کے علاوہ دیگر رشتوں کا ملوث ہونا،قصاس و دیت کا فائدہ اور ملزم کم عمر ہو نے کے تمام فوائد حاصل ہو جاتے ہیں۔ایسے میں 2002میں جنوبی پنجاب میں پہلی مرتبہ منظر عام پر آنےوالاافشین مسرت قتل کیس ہو یا ڈاکٹر ثمینہ منظور،قندیل بلوچ،شجاع آباد کی بہنیں آمنہ اور سدرہ ،اللہ بچائی ہو یا کو ئی بھی غیرت کے نام قتل کی گئی عورت ہو ابتدائی رپورٹ اور عدم ثبوتوں کی بناء پر صرف قصہ پارینہ بنا دی جاتی ہیں۔جس کی اہم مثال ضلع مظفر گڑھ کے علاقہ گوہر ٹائون کی ڈاکٹر ثمینہ منظور کا غیرت کے نام پر ہونے والا قتل ہے۔ کلاس فیلو کا فون آنے پر اس کےوالد منظور حسین اور بھائی کاشف منظور نے طیش میں آکر گھر میں پڑی کلہاڑیوں کے وار کر کے ڈاکٹر ثمینہ کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا ۔ ڈاکٹر ثمینہ منظور جن پور ضلع رحیم یار خان میں ملازمت کرتی تھی اور کلاس فیلو کے ساتھ پسند کی شادی کرنا چاہتی تھی جبکہ اس کا والد چاہتا تھا کہ ثمینہ بی بی اسکی مرضی کے مطابق اپنے چچا ذاد بھائی جو کہ پڑھا لکھا تک نہیں ہے اس سے شادی کرے ۔انکار پرایک اعلیٰ تعلیم یا فتہ باشعور خاتون کی زندگی کا چراغ گل کر دیا گیا۔ قتل کرنے کے3گھنٹے بعد 1122 کو فون کر کے ملزمان نے خود اپنے گھرجائے وقوعہ پر بلایا ۔پولیس پہنچنے سے قبل ملزمان نے مقتولہ کی نعش کو دفن کر دیا تھا ۔ بعد ازاں ملزمان گرفتارکرتے ہو ئے اور آلہ قتل خون آلود کلہاڑا بھی برآمد کیا گیا۔جبکہ مقدمہ کی مدعی بھی پولیس بنی کیونکہ ورثاء خود ہی قاتل تھے۔ مقدمہ کا مدعی تھانہ سول لائن کےسب انسپکٹر لیاقت علی کوبنایا گیا تھا۔جو عدم دلچسپی و عدم پیروی کی وجہ سے کمزور ہوگیا اور ثبوت کی عدم فراہمی کے سبب ریکارڈ نہ ہونے پر عدالت نے ملزمان کو رہا کر دیا۔اسی طرح ملتان میں قتل کی جانے والی سوشل میڈیا سٹارقندیل بلوچ کے کیس میں ہے ۔جس میں پولیس کی جانب سے ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ سے کیس کا چالان ہی مکمل نہیں کیا جا سکا۔مستقبل میں قندیل کیس بھی ڈاکٹر ثمینہ منظور قتل کیس کی طرح دب جانے کا اندیشہ شدت پکڑ چکا ہے۔جو لمحہ فکریہ ہے اور اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بھی ہے۔سنیٹر صغریٰ امام نے کہا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے سنجیدگی سے قانون سازی عمل میں لا ئی گی ہے۔جو روشنی کی کرن ہے تاہم پارلیمان میں جو بل انہوں نے پیش کیا تھا نفاذ تک اس میں حکومت نے متعدد تبدیلیاں کی ہیں انہوں نے بل میں غیرت کے نام پر قتل کی کم سے کم سزا موت مقرر کرنے کی تجویز پیش کی تھی جس کو 25سال کی قید میں تبدیل کیا گیا ہے تاہم اس پر بھی عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے اسی طرح ایک خاتون کو قتل کر نے والا اس کے اپنے ہی خاندان کا فرد ہوتا ہے لہٰذا ادل بدل کی شق سے ملزمان باآسانی فائدہ حاصل کر رہے ہیں خاندان کے اندر ہی خاتون کی زندگی کے خاتمہ کا منصوبہ جہاں تیار ہوتا ہے وہاں ملزم کو تحفظ دینے کے حوالے سے ذرائع بھی پہلے سے ڈھونڈلیئے جا تے ہیں۔ قانون میں مزید ترامیم کر تے ہو ئے اس شق کو ختم کیا جا ئے ناقابل معافی نامہ جرم ہے تو معافی کیسی؟۔ ملزموں کی بجائے خواتین کو تحفظ دینے کیلئے بھی ریاست فرض ادا کرے اور عوام میں قانون بارے آگا ہی پھیلا ئے۔ایک انسانی زندگی کو اپنے انتقام،مایوسی،زمین کے تنازعہ اور پسند کی شادی کرنے یا مخالفین سے بدلہ لینے کی بھینٹ چڑھا دیتےہیں۔وقت آگیا ہے کہ پولیس،پراسیکیوشن اور عدالتوں کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیئے تاکہ تیزی سے انصاف کے تقاضے مکمل کیے جا سکیں ان کے اپنے حلقہ انتخاب میں 3سال سے غیرت کے نام پر قتل کیس کا تاحال فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔ممبر پنجاب بارکونسل خواجہ قیصر بٹ نے کہا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں غیرت کا ہمیشہ سے غلط استعمال ہوتا آرہا ہے۔خواتین اور بچیوں کو وراثتی حقوق سے محروم کر نا ہو،کسی سے بدلہ لینا ہو،وٹہ سٹہ کرنا ہو یا پسند شادی پر سزا دینی ہو تو آسانی سے غیرت کا نام دے کر بیدردی سے قتل کر دیا جاتا ہے۔اس حوالے سے سپریم کورٹ نے سدباب کیلئے متعدد مر تبہ تنبہیہ بھی کی تاہم قانون میں موجود کمزوریوں پر قابو نہیں پایا گیا۔ بیشتر کیسوں میں صرف قتل یا خودکشی کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے تاکہ قانونی کے شکنجے سے بچا جا سکے ۔ پولیس اور پراسیکیوشن انصاف تک رسائی ممکن بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور ہر طرح سے ملزم کو تحفظ دیتے ہیں۔جب تک تحقیق کا نظام درست نہیں ہو گا غیرت کے نام پر خواتین کی زندگیاں ختم ہو تی رہیں گی۔تفتیش کو پولیس اور پراسیکیوشن اپنی مرضی کا رخ دے دیتی ہیں ۔ غیرت کے نام پر قتل ناقابل معافی نامہ جرم ہو نے کے باوجود قابل ذکر سزائیں سامنے نہیں آئی ہیں ۔جس سے ملزموں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ قانون میں مزید ترمیم کی ضرورت ہے ریاست کی جانب سے ایسے کیسوں مدعی بننےوالا آفیسر بھی مختلف دباؤ کا شکار ہو کر تحقیقات کر تا ہے جس کاتمام تر فائدہ ملزمان اٹھاتے ہیں۔کم ازکم ایس پی سطح کے آفیسر کو مقدمہ کا مدعی مقرر کیا جانا چاہیئے۔پراسیکیوٹر رانا محمد جاوید کے مطابق ملتان خصوصاً جنوبی پنجاب میں غیرت کے نام پر قتل کو بھی پولیس عام قتل شمار کر تی ہے۔تمام کیس پولیس ایک ہی طرح سے چلاتی ہے۔قانون کے مطابق اس قسم کے واقعات پر فوری طور پر پراسیکیوشن کو اطلاع کی جانی چاہیئے اور سب سے پہلے وقوعہ تک رسائی بھی پراسیکیوشن دی جا ئے مگر ہمارے یہاں بہترین قوانین کے باوجود ان کا نفاذ خرابیوں سے بھرپور ہے۔اکثر کیسوں میں ملزموں کے ساتھ مل کر ثبوت بھی تلف کر دیئے جاتے ہیں جس سے عدالت میں پیروی کے وقت پراسیکیوشن کو دقت کا سامنا رہتا ہے ۔اسی لیئے اس قسم کے کیس میں بیشتر لوگ صلح کر لیتے ہیں۔جس کی اہم ترین مثال قندیل بلوچ قتل ہے کئی گھنٹوں تک پراسیکیوٹرز کو وقوعہ کی جگہ تک پہنچنے ہی نہیں دیا گیا بعد ازاں اعلیٰ حکام کی مداخلت پر رسائی ملی۔جس سے کیس میں بہت سی کمزوریوں نے جنم لیا۔نتیجے میں کیس کا تفتیشی غفلت پر برطرف کر دیا گیا۔اسی طرح تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۰۱۳ کے تحت خونی رشتہ غیرت کے نام پر قتل کے کیس میں مدعی نہیں بن سکتا ہے۔اس کے باوجود تاحال پولیس باپ اور بھائیوں کی مدعیت میں مقدمات کا اندراج کر تی ہے۔پنجاب بھر میں ۶۱۰۲ میں ۴۱۱ ملزموں نے قانونی کمزوریوں تحقیقات کا درست نظام نہ ہو نے کی وجہ سے فائدہ حاصل کیا ہے۔انسانی حقو ق کے رہنماء فیصل محمود تنگوانی کے مطا بق ایسےمقدمہ کی تفتیش کیسی غیر جانبدار اور اعلی افسر سے کرائی جائے مقدمہ کے لئے اعلی بورڈ بٹھایا جائے ۔ایسے واقعات مکمل طور پر غیرت کے نام پر قتل اور مکمل ہوش وحواس میں کیے جاتے ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل کے تمام حقائق کو مدنظر رکھ کر تفتیش کرائی جائے ۔مگر بدقسمتی سے ہماری عدالتیں انسانی قتل کی حساسیت کی بجائے ریکارڈ دیکھتی ہیں اور اس طرح کے کیسوں میں ریکارڈ ہی غائب ہو تے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ موقعہ واردات کے تمام ثبوت اور شہادتوں کو فی الفور مقدمہ کا حصہ بنایا جائے ۔گرفتار ملزمان سے فوری تفتیش کر کے مقدمہ کا چالان عدالت بھجوایا جائے ۔ ریاست فوری طور پر غیرت کے نام پر قتل کرنے کے واقعات کی روک تھام کے لئے سخت اقدام کرے کیونکہ خواتین کے قتل ناقابل برداشت ہیں۔مرکزی جمعیت اہل حدیث کے رہنماء علامہ خالد محمود ندیم کے مطابق غیرت کے نام پر قتل غیر اسلامی اور غیر شرعی ہے اسلام عورت پر تشدد کی اجازت نہیں دیتا ہے۔قصاس اور دیت کی شرعی حیثت ہے تاہم اس کے باوجود بھی عدالت کو اختیار ہے کہ ملزم کو کم از کم 10سال قید کی سزا دے سکتی ہے۔تاہم اہل خانہ رکاوٹ بن جاتے ہیں اور اللہ کے نام پرمعاف کر دیتے ہیں ۔غیرت کے نام پر قتل کے ترمیمی قانون میں ایک شق299 اضافہ کی گئی جو فساد فی العرض ہے اس پر بھی عمل نہیں ہو رہا ہے۔پا کستان ہیومن ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن کی چیف ایگزیکٹوزاہدہ خاں نے کہا کہ غیرت کے نا م پر قتل کے قانو ن کو سر گرم کیا جا ئے اور اسی طرز پر تیزاب گردی کے قا نو ن میں بھی تر میم کی جا ئے اور کیس کا مدعی ریا ست خود بنے کیو نکہ تشدد کر نے اور سہنے والے اکثر ہی قر یبی ر شتہ ہو تا ہے ۔جس سے ملزم سزا سے محفوظ رہتا ہے کیو نکہ انہیں معا ف کردیا جا تاہے ۔تشدد کا خا تمہ یقینی بنا نے کیلئے معا شر ے کے ہر فرد کو کردار ادا کر نا ہو گا تو حکو مت کو بھی سنجیدہ اقدامات کر نے کی ضرورت ہے۔
فیس بک کمینٹ