ہمیں( مسلمانوں کو) تو آغوش مادر میں ہی درس دیا جاتا ہے،کہ ایک دوسرے سے پیار محبت اور امن وآشتی سے رہا جائے، ہمارا دین ہمیں سکھاتا ہے کہ ایک انسان کا(ماورائے عدالت )قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے،لیکن اس دین کے نام لیواؤں نے ایک اور والد کی آنکھوں کی روشنی چھین لی۔۔۔اور کسی عدالت کے احکامات کے بغیر مشعل خان کو قتل کر دیا گیا ۔ عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے ایک ہونہار طالب مشعل خان پر چند افراد نے توہین مذہب کاالزام لگایا، اور اس الزام پر مبنی پوسٹ اس کے نام پر بنائی گئی جعلی آئی ڈی پر اس کو قتل کرنے کے بعد پوسٹ کی گئی۔ اس جعلی آئی ڈی پر یہ پوسٹ لگانے والے شاید بھول گئے تھے کہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کے ساتھ دن ،تاریخ اور وقت بھی شائع ہوتا ہے۔
مشعل خان کا قصور کیا تھا؟ کیا واقعی اس نے توہین کا ارتکاب کیا تھا؟ان سولات کا اب فیصلہ ہو بھی جائے تو کیا فائدہ؟ ۔مشعل خان کا قتل نہ تو کوئی پہلا قتل ہے، اور نہ ہی توہین مذہب کا الزام پہلی بار کسی پر لگایا گیا ہے۔اس واقعہ سے قبل پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر سمیت بہت سے لوگ اس الزام میں قتل کئے جا چکے ہیں ۔ ہمارے معاشرے نے بھی تو ایسے بھیڑیوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا ہے۔ دہشت گردی کی جو لہر پاکستان میں ہے اور گھروں کے گھر اجاڑنے کے علاوہ ملک کو غیر مستحکم کرنے کا باعث بن رہی ہے،اچانک نمودار نہیں ہوئی، یہ کہانی برسوں پر محیط ہے، میرے نزدیک اس کی ابتدا مولوی مشتاق حسین سے ہوئی، جس نے عدالتی منصب پر بیٹھ کر فیصلے میں تحریر کیا کہ ’’ذوالفقار علی بھٹو نام کا مسلمان ہے، اسے مسلمان نہیں کہنا چاہیے‘‘ یعنی عقیدہ انسان اور اس کے خدا کا ذاتی معاملہ ہے جسٹس مولوی مشتاق حسین اس بات کا مجاز نہیں تھا کہ وہ کسی کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرتا، اگر اس بات کی اسی وقت مذمت کی جاتی اور مولوی مشتاق حسین کو اس کے منصب سے الگ کردیا جاتا تو آج ملک کی یہ صورتحال نہ ہوتی۔ اگر آمر مطلق جنرل ضیاءالحق آئین میں دیگر ترامیم کے ساتھ توہین رسالت کے قانون کو مادر پدر آزاد نہ چھوڑتا تو بھی ایسے سنگین حالات نہ ہوتے، ابھی بھی حکمران اگر اس قانون میں کچھ قدغنیں لگا دیں جیسے ڈی سی اور ایس پی سطح کے افسران پر مشتمل کمیٹی قائم کردی جائے جن کے ساتھ ڈسٹرکٹ سیشن جج کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے جو کسی واقعہ کی انکوائری کرکے مقدمہ کے اندراج کے بارے میں فیصلہ کرسکتے ہیں۔
مفتی محمد نعیم اس حوالے سے لائق تحسین ہیں، جنہوں نے ٹی وی آکر ببانگ دہل کہا کہ وہ مشعل خان کو شہید سمجھتے ہیں ، اور میں اسے شہید کیوں نہ کہوں؟ انہوں نے مزید کہا کہ ریاست کے معاملات معاشرے کے ذمے نہیں لگائے جا سکتے ۔مفتی صاحب نے کھل کر کہا کہ لوگ اپنے ذاتی جھگڑوں، کاروباری اور زمین جائیداد کی لڑائیوں کے معاملات پر اپنے مخالفین پر توہین کے الزامات لگا کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں، انہوں نے دیگر افراد کی طرح حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ضروری قانون سازی کرے۔ ان سطور کے قلمبند کرتے وقت ہمارے وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور دیگر ارباب اختیار کو احساس ہو ہی گیا کہ شہید مشعل خان کے بے رحمانہ اور بے گناہ قتل کی مذمت کرنی چاہیے اور اس پر شہید مشعل خان کے لواحقین سے اظہار ہمدردی اور اظہار افسوس بھی کرنا چاہیے، میرے خیال میں اچھی بات ہے گو دیر سے احساس ہوا ، ہو تو گیا ناں۔۔۔وزیراعظم نے کہا ہے کہ قانون ہاتھ میں لینے والوں کو ریاست برداشت نہیں کرے گی،ایسے ہی خیالات کا اظہار وزیر داخلہ صاحب نے بھی کیا ہے، مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے اس وقت لب کشائی فرمائی ہے جب چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اس واقعہ کا نوٹس لے لیا ہے اور آئی جی خیبر پختونخواہ سے 36 گھنٹوں کے اندر اندر رپورٹ بھی طلب کر رکھی ہے۔
اس از خود نوٹس ،وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے بیانات دینے کا متاثرہ خاندان شکریہ ہی ادا کر سکتا ہے اس کے سوا کچھ نہیں کرسکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے بیانات واقعات رونما ہونے سے پہلے دئیے جاتے تو کچھ اور نوعیت ہوتی ۔ کیونکہ ہو سکتا تھا کہ حکومت کے بیدار رہنے سے یہ دل خراش سانحہ نہ ہوتا۔ ہونا تو یہی چاہیے کہ گرفتار ملزمان کڑی سزا دی جائے لیکن بات پھر قانون اور عدالت اور انصاف کی آ جاتی ہے، لیکن ہماری عدالتوں میں جس طرح مقدمات کو لٹکایا جاتا ہے، اور مروجہ سسٹم کے تحت مقدمات کئی کئی سال زیر سماعت رہتے ہیں اور قانونی سقم کے باعث درندے ،بھیڑیے باعزت بری ہوکر زندہ سلامت گھروں کو واپس لوٹ آتے ہیں، جس کی تازہ مثال مختاراں مائی کیس کی ہے،جس کا مرکز ی ملزم زندہ سلامت گھر پہنچ کر جشن منا رہا ہے۔ لگتا تو ایسا ہی ہے کہ مشعل خان کے قاتل بھی زندہ سلامت واپس آجائیں گے۔ خیبر ٹی وی پر چلنے والے مشعل خان کے انٹرویو نے سازشی عناصر کا بھانڈا پھوڑ کے رکھ دیا ہے، مشعل خان نے اپنے اس انٹرویو میں یونیورسٹی میں ہونے والے غیر قانونی کاموں کی نشاندہی کی تھی، جس پر یونیورسٹی کے ملازمین اور دیگر غیر پسندیدہ عناصر نے مشعل خان کی سرگرمیوں کو اپنے دھندے اور کاروبار کے لیے خطرہ محسوس کیا،جس پر انہیں راستے سے ہٹانے کا پلان بنایا گیا، اور پلان یہی تھا کہ اس پر توہین رسالت کا الزام لگا یا جائے اور طلبہ کو مشتعل کرکے اس پر دھاوا بولا جائے اور اسے بلوہ عام میں ٹھکانے لگا دیا جائے، لیکن اللہ تعالی نے سازشی عناصر کی تمام منصوبہ بندی کا پردہ فاش کرکے رکھ دیا۔
فیس بک کمینٹ