کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن پاکستانی سیاست کو دیکھتے ہوئے تو لگتا ہے کہ سیاست کے سر میں دماغ بھی نہیں ہوتا۔ سیاست دان بے سر و پا ہانکتے ہیں اور اپنے تئیں سمجھتے ہیں کہ وہ لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ درحقیقت وہ اپنی کم عقلی اور جمہوری اصولوں سے ناشناسی کا ثبوت فراہم کررہے ہوتے ہیں۔
جیسے آج دن کے دوران وزیر دفاع خواجہ آصف نے فرمایا کہ پاکستان میں آج تک ہر آرمی چیف میرٹ کی بنیاد پر لگایا گیا تھا تو تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے چشتیاں کے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مسٹر ایس و مسٹر وائی پنجاب میں ان کی پارٹی کے ارکان خریدنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ وہاں تحریک انصاف کی حکومت ختم کی جاسکے۔
آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے ’پریشانی ‘کے اظہار کے بعد سے انہوں نے مسلسل فوج کو تختہ مشق بنانے کی کوشش کی ہے۔ عام طور سے قیاس کیا جارہا تھا کہ فیصل آباد میں کی گئی غیر ذمہ دارانہ تقریر کے بعد وہ کوئی مناسب وضاحت پیش کریں گے اور اپنی غلطی پر کسی ندامت یا افسوس کااظہار کریں گے۔ حتی کی صدر مملکت عارف علوی نے بھی تمام فوجی افسروں کی وطن پرستی اور قومی خدمات کو کسی شک و شبہ سے بالا قرار دیتے ہوئے عمران خان کے بیان کی کوئی وضاحت دینے سے گریز کیا اور کہا تھا کہ جس نے بیان دیا ہے ، بہتر ہے وہ خود ہی اس کی وضاحت بھی کرے۔گزشتہ روز پشاور کے جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے عمران خان کا رویہ عذر گناہ بد تر ازگناہ کے مصداق تھا۔ انہوں نے یہ ’وضاحت‘ تو ضرور کی کہ حکمران اتحاد نے ان کا بیان تور مروڑ کر پیش کیا ہے اور ان کی باتوں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر سامنے لایا گیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ موجودہ چور حکمرانوں کو آرمی چیف مقرر کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ گویا انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ ملک کے تھری اسٹر جنرلز میں سے کوئی ایسا بھی ہوسکتا ہے جس کی حب الوطنی اور نیک نیتی پر شک کیا جائے ۔
بلا شبہ ملک کا آئین وزیر اعظم کو آرمی چیف مقررکرنے کا اختیار دیتا ہے لیکن اسے بہر حال فوج کے سینئر ترین چار یا پانچ جرنیلوں میں سے ہی کسی ایک کو فوج کا سربراہ مقرر کرنا ہوتا ہے۔ وہ اپنے کسی معاون یا کسی سول سرونٹ کو تو فوج کا سربراہ نہیں بنا سکتے۔ اس صورت میں جب حکومت اور اس کے سربراہ کو چور و لٹیرا قرار دے کر یہ سوال کیا جائے گا کہ انہیں کیسے آرمی چیف مقرر کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ ملک کا ایک اہم سیاسی لیڈر سینئر فوجی جرنیلوں کی نیک نیتی اور حب الوطنی پر سوال اٹھا رہا ہے۔ یہ طرز عمل افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ اسی لئے آئی ایس پی آر نے بھی واضح کیا ہے کہ عمران خان کے بیان سے فوج میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ پشاور میں تقریر کے دوران عمران خان نے اپنی بات پر اصرار کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’میں نے میرٹ کی بنیاد پر آرمی چیف مقرر کرنے کا مطالبہ کیا ہے، اس میں غلط کیا ہے‘؟ یہ سوال بجائے خود واضح کرتا ہے کہ عمران خان یا تو خود عقل سے کام لینے کو تیار نہیں ہیں یا وہ اپنے سامعین کو بے وقوف سمجھتے ہیں۔
عمران خان نے آرمی چیف کے سوال پر اٹھنے والے طوفان کے باوجود عسکری قیادت پر دباؤ کم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اسی لئے انہوں نے ایک بار پھر فوجی حلقوں پر پنجاب میں اپنی پارٹی کی حکومت کے خلاف کام کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ تحریک انصاف کے لیڈر جب مسٹر ایکس اور مسٹر وائی کا کوڈڈ نام استعمال کرتے ہیں تو اس کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ وہ فوج کوبراہ راست ملوث قرار دے رہے ہیں لیکن بوجوہ کسی ایک فوجی لیڈر کا نام لے کر بات کرنے کا حوصلہ نہیں کرپاتے۔ جب وہ اپنی سلامتی کو لاحق خطرہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وارننگ جاری کرتے ہیں کہ انہوں نے ان چار لوگوں کے نام ایک ویڈیو پیغام میں بتا دیے ہیں جو ان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے کے اصل ذمہ دار ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ بتاتے ہیں کہ انہیں کچھ ہؤا تو یہ ویڈیو سامنے آجائے گی۔ یہ دراصل فوجی قیادت کو ڈھکی چھپی مگر دوٹوک دھمکی ہے کہ وہ اقتدار کے لئے اگر فوجی افسروں کی کاسہ لیسی میں تمام حدود عبور کرسکتے ہیں تو اسی اقتدار کے لئے فوج کو بدنام کرنے اور اس کی قیادت کو بلیک میل کرنے سے بھی باز نہیں آئیں گے۔ عمران خان کا یہ رویہ ملک میں سیاسی طوفان تو پیدا کرہی رہا ہے لیکن وہ خود یہ احساس کرنے سے عاری ہیں کہ اس طریقہ سے ان کے لئے بے شمار مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ وہ جس پارٹی کی قیادت کرتے ہیں، عمران خان کی غیر موجودگی میں اس کا شیرازہ بکھرتے دیر نہیں لگے گی۔
اب وہ پنجاب حکومت کے خلاف سازش کا الزام لگاتے ہوئے بالواسطہ طور سے ایک بار پھر فوج کو للکاررہے ہیں اور الزام لگا رہے ہیں کہ ان کی حکومت بھی فوج نے گرائی تھی اور اب ان کے ہاتھ پاؤں باندھنے کے لئے پنجاب حکومت کو گرانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ عمران خان جب فوج کو اپنے تمام سیاسی مسائل و مشکلات کا سبب قرار دیتے ہیں تو انہیں وضاحت کرنی چاہئے کہ اس امریکی سازش اور سیاسی میر جعفر و میرصادق کے بارے میں کیا سمجھا جائے کہ کیا وہ سب جھوٹ تھا؟ وہ خود یہ جانتے ہیں کہ وہ مسلسل جھوٹ بولتے ہیں لیکن انہیں اپنی اس صلاحیت پر بھی اتنا ہی اعتماد ہے کہ ان کے چاہنے والے ان کے ہر جھوٹ کو سچ تسلیم کرلیں گے۔ ایک روز پہلے بیان کیا گیا ’سچ‘ بھول کر نئے ’سچ‘ کو ہی حقیقت مان کر نعرے لگاناشروع کردیں گے۔ لیکن مقبولیت کے زعم میں سیاسی قلابازیاں کھانے والے عمر ان خان کو یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ وہ ملکی سیاسی تاریخ میں پہلے مقبول لیڈر نہیں ہیں۔ مقبولیت کی لہر جس تیزی سے وارد ہوتی ہے اس کا جوش و خروش بھی اسی تیزی سے اترنے لگتا ہے۔ عمران خان کو اگر حکومت نے عاقبت نااندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’سیاسی شہید‘ بنانے کی کوشش نہ کی تو وہ اپنے احمقانہ جوش و ولولہ کے ہاتھوں خود ہی اوندھے منہ پڑے دکھائی دیں گے۔
عوام کو خوشنما باتوں سے ضرور کچھ مدت تک دھوکہ دیا جاسکتا ہے لیکن کسی بھی لیڈر کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ وہ اجتماعی دانش کو دھوکہ دے سکتا ہے۔ عمران خان شاید کسی حد تک اس حقیقت کو جانتے ہیں ، اسی لئےانتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے مسلسل الیکشن کمیشن کے بارے شبہات پیدا کرکے یہ تاثر بھی قوی کرتے رہتے ہیں کہ ان اداروں کی موجودگی میں وہ ہار بھی سکتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مقبول ترین لیڈر ہونے کے باوجود انہیں ملک کے ایک چوتھائی سے زیادہ لوگوں کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ وہ دن رات ایک کرنے اور مخالفین کے بارے میں جھوٹ کے طومار باندھنے کے باوجود ابھی تک اس شرح میں کوئی خاص اضافہ نہیں کرسکے۔ محض یہ کہہ دینے سے کہ اس وقت ملک کے نوے فیصد لوگ عمران خان کے ساتھ ہیں یا یہ کہ تحریک انصاف دو تہائی اکثریت حاصل کرے گی، یہ مقصد حاصل نہیں ہوجاتا۔ فی الواقع اگر عمران خان کو یقین ہوتا کہ جب بھی انتخاب منعقد ہوئے تو ان کی پارٹی دو تہائی اکثریت سے جیت کر پورا نظام تبدیل کرنے کی پوزیشن میں آجائے گی تو وہ اقتدار میں واپس آنے کے لئے فوجی قیادت کو دباؤ میں لانے کے اوچھے ہتھکنڈے اختیار نہ کرتے۔ اور نہ ہی جلد انتخابات کے لئے اتنے بے چین ہوتے کہ ملک میں سیلاب کی تباہ کاری اور ایک چوتھائی آبادی کے مصائب و مشکلات کے باوجود روزانہ کی بنیاد پر جلسے منعقد کرتے۔ ان کا یہ سیاسی رویہ ان کی بے بصری کے علاوہ انسانوں کے بارے میں ان کے سفاکانہ رویہ کی گواہی بھی دیتا ہے۔ انتخابات اگر اس سال کے آخر میں نہیں تو زیادہ سے زیادہ اگلے سال کے آخر میں منعقد ہوہی جائیں گے۔ پھر مقبولت کے زعم میں مبتلا عمران خان کو کس بات کی جلدی ہے؟
تاہم عقل و فہم سے بے بہرہ ہونے پر عمران خان کی اجارہ داری نہیں ہے۔ حکومت میں شامل عناصر بھی اکثر و بیشتر اس کا ثبوت فراہم کرتے رہتے ہیں۔ اس کا مظاہرہ اب فوج کی شہرت و وقار کی حفاظت کا ذمہ سنبھالنے والے وزیر دفاع خواجہ آصف نے آج اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں کیا ہے۔ انہوں نے آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے عمران خان کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ آرمی چیف ہمیشہ میرٹ ہی کی بنیاد پر مقرر ہؤا ہے ورنہ عمران خان بتائیں کہ کون سا آرمی چیف میرٹ کے بغیر مقرر کیا گیا تھا؟ اس بیان کا اس کے سوا کوئی مقصد نہیں ہوسکتا کہ خواجہ آصف کسی طرح عمران خان کو گھیر کر ان کے منہ کسی فوجی افسر کا نام اگلوانا چاہتے ہیں تاکہ ان کے خلاف نفرت پھیلانے کا الزام عائد کرکے سیاسی ماحول کو مزید آلودہ کیا جائے۔ ورنہ وہ خود ہی بتا دیتے کہ کیا میرٹ پر مقرر ہونے والے آرمی چیف آئین کی خلاف ورزی کرکے منتخب حکومت کا تختہ الٹتے ہیں اور ایک مقبول لیڈر کو پھانسی دلوانے کے لئے عدالتوں پر دباؤ استعمال کرتے ہیں۔ کیا نواز شریف نے ہمیشہ میرٹ ہی کی بنیاد پر فوج کا سربراہ مقرر کیا تھا؟ اگر ایسا تھا تو ہر آرمی چیف کے ساتھ ان کا تنازعہ کس بنیاد پر کھڑا ہؤا تھا؟
آرمی چیف کی تقرری کے لئے میرٹ کا لفظ گمراہ کن اور نامکمل ہے۔ اس مقصد کے لئے صرف سینارٹی کا اصول لاگو ہونا چاہئے اور اسی کو حقیقی اہلیت سمجھنا چاہئے۔ حکومت یا عمران خان دونوں ہی فوجی سربراہ کی تقرری کے لئے سینارٹی کا اصول اپنانے کی بات نہیں کرتے کیوں کہ ان کے نزدیک ’میرٹ‘ کا مطلب کوئی ایسا آرمی چیف مقرر کرنا ہے جو ان کے سیاسی مفادات کا تحفظ کرسکے۔ یہ دیکھ کر سیاست دانوں کی عقل پر ماتم کو دل کرتا ہے کہ دہائیوں کے تجربات کے بعد بھی وہ یہ باور نہیں کرسکے کہ ہر آرمی چیف اپنے ادارے کے مفادات اور ترجیحات کو ہی پیش نظر رکھتا ہے ۔ سیاست دانوں کو ہمیشہ آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اس کے باوجود خواجہ آصف جیسا گھاک سیاست دان بھی سینارٹی کے اصول کی بات کرنے کی بجائے ماضی کی گمراہ کن تصویرپیش کرکے مقدور بھر فوجی قیادت کو خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔متعدد بار گوش گزار کیا جاچکا ہے کہ ملکی سیاست میں فوج کا کردار ختم کرنے کے لئے تمام سیاست دانوں کو باہمی رقابت سے اوپر اٹھ کر ایک پیج پر آنا ہوگا تاکہ آئینی انتظام کا اصول حقیقی معنوں میں نافذ کیا جاسکے۔ عمران خان نے آرمی چیف کے لئے میرٹ کی بات شروع کرہی دی ہے تو حکومت اسے سکینڈل بنانے کی بجائے دوٹوک الفاظ میں اعلان کیوں نہیں کرتی کہ اگر نومبر میں شہباز شریف ہی وزیر اعظم ہوئے تو صرف سینئر موسٹ فوجی جنرل کو ہی فوج کی کمان سونپی جائے گی۔ ایسا ایک اعلان عمران خان کے مقبول بیانیے کے غبارے سے ہوا نکال سکتا ہے لیکن سیاسی جوڑ توڑ کے شوق میں مبتلا حکومت کبھی یہ اصول طے کرنے کا حوصلہ نہیں کرے گی۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )