بلوچ انقلابی لیڈر شیر محمد مری مرحوم کہتے تھے پنجاب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا حرم ہے۔ جب تک حرم کے اندر سے اسٹیبلشمنٹ کی چیرہ دستیوں کو للکارنے والے پیدا نہیں ہوتے، جمہوری آزادیاں، سول بالادستی، چھوٹی قومیتوں کے حقوق، معاشی انصاف، تحریروتقریر اور اجتماع کی آزادی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
سندھی، پختون اور بلوچ قوم پرستوں کو قومی حقوق کے حصول اورجمہوری حقوق کی پامالی پر آواز بلند کرنے کی پاداش میں ہر قسم کے ریاستی مظالم کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ چھوٹی قومیتوں پر ظلم و ستم کے پہاڑوں توڑنے کی داستانوں سے عبارت ہے۔ قتل، پھانسیاں، قید و بند کی صعوبتیں ان کا مقدر رہیں جبکہ قوم پرست لیڈروں پر غداری کا لیبل چسپاں کر دینا تو روز مرہ کا معمول سمجھا جاتا رہا ہے۔
پنجابی حرم کی اشرافیہ سر جھکائے حرم کے پاسبانوں کے عوام دشمن بیہمانہ جرائم کی ہاں میں ہاں ملاتی رہی۔ پنجابی عوام طبقاتی اور معاشی استحصال کی چکی میں پستی رہے۔ پنجابی اشرافیہ کا ایک بڑا حصہ اپنے طبقاتی اور ذاتی مفادات کی خاطر اب بھی پاسبانوں کے اشارے پر ناچنے کو ہر وقت تیار رہتا ہے۔ نام نہاد الیکٹیبل اشرافیہ کے عوام دشمن اور جمہوریت مخالف بد نما چہرے ہیں۔ یہی اشرفیہ کے نمائیندے انگریزی استعمار، سول بیوروکریسی کے نمائیندہ آمر غلام محمد، فوجی آمروں جنرل ایوب خان، جنرل یحیٰ خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کے اقتدار کو دوام بخشنے میں پیش پیش رہے۔
قومی، جمہوری اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف پنجاب کے ترقی پسند سیاسی گروہ، باشعور دانشور، طلبہ، مزدوروں اور کسانوں کی تنظیمیں تسلسل سے آواز بلند کرتی رہی ہیں۔ مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ یہ گروہ اپنی بساط سے بڑھ کر ریاستی اداروں کی چیرہ دستیوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرتے رہے اور انکے کارکن ریاستی جبر کا شکار بنتے رہے۔ پنجاب کے ترقی پسند کارکنوں، دانشوروں، صحافیوں، طلبہ اور محنت کشوں نے جمہوری حقوق، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے حصول کی خاطر بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ مگر انکی جدوجہد اور قربانیاں عوام کی اکثریت میں سیاسی لہر پیدا نہ کر نے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
اسٹیبلشمنٹ کے روائتی وفادار جاگیرداروں سے پنجاب کی سیاسی طاقت کے مراکز ایک تاریخی عمل کے تحت پنجاب کے شہری طبقوں میں منتقل ھو رہا ہے۔ مگر اسکا مطلب یہ نہیں کہ جاگیردار طبقے کے پنجاب کی سیاست، معیشت یا حکومتوں پر اثرات نہیں رہے۔
پاکستان میں آج کا سیاسی منظرنامہ حرم کے پاسداروں اور پنجابی جاگیردار اشرافیہ کے گندے کھیل کا شاخسانہ ہے۔ ہمیشہ کی طرح ترازو اور سوٹوں والے اس کھیل میں ان کے ہمنوا ہیں۔ مگر پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پنجابی اشرافیہ کے ایک بہت بڑے حصے نے حرم کے پاسبانوں کے آگئے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ صنعتکاروں، تاجروں اور شہری طبقوں کے نمائیندہ نواز شریف اور مریم نواز نے حرم کے دستور کو چیلنج کرکے پاسبانوں اور انکے کٹھ پتلی سیاستدانوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔
عمران نیازی اور انکے پشت پناہ فرشتوں کا اندازہ تھا کہ میاں نواز اور مریم نواز سزائے قید کے اعلان کے بعد لندن سے پاکستان نہیں آئیں گے۔ اسطرح وہ ن لیگ کے مکمل خاتمے اور الیکشن میں من پسند نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہو جایئں گئے۔ نواز اور مریم کے جیل میں جانے کے دلیرانہ قدم نے ن لیگ کے جسم میں مزاحمت کی نئی روح پھونک دی ہے۔ ن لیگ کے کارکنوں کو ایک نیا جوش اور جذبہ عطا کیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کار اس تجزیہ پر متفق نظر آتے ہیں کہ میاں اور مریم کا جیل جانا ن لیگ کو الیکشن میں فائدہ پہنچائے گا۔
نواز اور مریم کو پابند سلاسل کئے جانے کے بعد عمران نیازی کا نفسیاتی کرب اور بوکھلاہٹ چھپائے نہیں چھپ رہی۔ اوپر سے نیچے تک پی ٹی آئی کی ساری قیادت نفسیاتی ہزیان کا شکار نظر آتی ہے۔ ہر قیمت پر الیکشن جیتنے اور وزارت عظمیٰ پر براجمان ھونے کے لالچ نے کپتان نیازی سے دن کا چین اور رات کی نیند چھین لی ہے۔
کپتان نیازی نے پی ٹی آئی کے بنیادی اصولوں کو ترک کر کے، بنیادی اراکین سے نجات حاصل کر کے، بد بو دار سیاسی لوٹوں کو اکھٹا کر کے، اسٹیبلشمنٹ کے جوتے پالش کر تے کرتے، اصول پرستی کے ہتھیار پھینک دئے ہیں۔ اور مفاد پرستی اور موقعہ پرستی کے نئے ریکارڈ بنانا شروع کر دئے ہیں۔
حرم کے اندر سے بغاوت کی آوازیں بلند ھو نا شروع ھو چکی ہے۔ الیکشن کے نتائج کیا نکلیں گئے یا نکالنے کی کوشش کی جائے گی۔ ملک یا پنجاب میں کون حکومت بناتا ہے، ان سے حرم کے اندر کی ہل چل نیہں رکنے والی۔ اس تحریک کو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھاوا ملتا رہے گا۔ پنجاب کے عوام کی نظروں کے سامنے ٹوڈی اور لوٹا سیاستدان اور ان کی پشت پناہی کرنے والی فرشتے بے نقاب ھو چکے ہیں۔ حرم کی پاسداری کا چلن کیسے بدلے گا، عوام کب اور کیسے با اختیار ھونگے۔ اس تحریک کی قیادت نواز شریف کریں گے یا مریم نواز یا پھر تیزی سے بدلتے سیاسی حالات نئی عوامی قیادت لے کر آئیں گئے۔ اس وقت یہ ہی کہنا کافی ھو گا، بات چل نکلی ہے تو بہت دور تلک جائے گی۔