وقت کا بے لگام گھوڑا سر پٹ دوڑ رہا ہے اور نیازی حکومت کے ہاتھ میں نہ لگام آ سکی اور نہ ہی رکاب میں پاؤ ں۔ جبکہ نئے پاکستان میں ہر نیا دن عوام اور ملک کے لئے مایوسی کی نئی لہر لے کر آتا ہے۔ مگر پی ٹی آئی حکومت، جمہوریت کی ہر علامت کو مٹانے، جمہوری اداروں کی بے توقیری کرنے، صوبائی خود مختاری کے خاتمے، پارلیمنٹ اور آئین کی بالادستی کے اصولوں کو پامال کرنے میں مستقل مزاج اور کمر بستہ ہے۔۔
پی ٹی آئی اور وزیر اعظم عمران خان کی حکومت پارلیمنٹ کو عضو معطل تو بنا چکے۔ اپوزیشن کے بغیر جمہوری نظام کا تصور ناممکن، مگر وزیر اعظم کو پارلیمانی اپوزیشن ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ اپوزیشن سے نفرت اس قدر کہ آئین سے انحراف سے بھی گریز نہیں کرتے۔ عمران خان بنیادی پالیسی معاملات طاقتور اداروں کو سونپ کر آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو ترک کر چکے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم میں حاصل شدہ صوبائی خود مختاری پر حملہ آور ہو کر سیا سی محاذ آرائی کا نیا در کھول رہے ہیں۔ وقت بتائے گا کہ پی ٹی آئی حکومت جمہوری اداروں کو کہاں تک بے اثر اور غیر جمہوری قوتوں کو کتنا طاقتور کر پائے گی۔
جمہوریت کی عظیم علامت بے نظیر بھٹو شہید پر وار کی کوشش نیازی حکومت کی آمرانہ سوچ کا ایک اور اظہار ہے۔ بے نظیر بھٹو کے نام اور تصویر سے خائف وزیر اعظم عمران خان بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے نجات کی راہ تلاش کر رہے ہیں۔ بے نظیر بھٹو پاکستان میں فوجی آمروں کو چیلنج کرنے اور جمہوری جدوجہد کی عظیم علامت بن چکی ہیں۔ غیر جمہوری اور آمریت پسند قوتوں کو بے نظیر بھٹو کا نام ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ مگر جمہوریت دشمن قوتوں کی خام خیالی ہے کہ عوام نے جمہوریت کی بحالی کے لئے بے نظیر بھٹو کی عظیم قربانی کو فراموش کر دیا ہے۔ عمران خان کو شائد جلد سمجھ آ جائے کہ ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے نہ ان کا وقار بڑھے گا اور نہ ہی حکومت کو استحکام نصیب ہونے کا امکان پیدا ہوگا۔ پاکستان کی سیاسی اور جمہوری تاریخ سے بے نظیر بھٹو کا نام مٹانا ان کے اختیار سے باہر ہے۔
پی ٹی آئی حکومت مسلسل معاشی ناکامی، خارجہ امور میں پے در پے پسپا ئی اور سیاسی محاذ آرائی کا منظر پیش کر رہی ہے۔ حکومتی نااہلی اور سست روی، مایوس کن کارکردگی، بحران زدہ معیشت، کمر توڑ مہنگائی، بے روزگاری اور سیاسی تناؤ کے ماحول میں عوام انصافی تبدیلی کے جہنم میں جھلس رہے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان اور انکے وزرا آئے روز ایسے اشتعال انگیز بیانات جاری کرتے ہیں جس سے ملک میں سیاسی محاذ آرائی کا درجہ حرارت بڑھتا رہے۔ یہ کہنا غلط ہو گا کہ سیاسی تناؤ میں اضافہ کرنے والے بیانات بغیر کسی مقصد کے دیئے جاتے ہیں۔ شائد حکمرانوں کو اپنی ناکامیوں اور نااہلی چھپانے کے لئے اپوزیشن پر الزام تراشی کا حربہ بڑا کار گر لگتا ہے۔ با خبر سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اب تو وزیر اعظم کے پشت پناہ بھی سیاسی محاذ آرائی ترک کرکے ملک میں سیاسی استحکام لانے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ قرائین بناتے ہیں کہ طاقتوروں کے اشارے مطالبات کا روپ اختیار کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کپتان کب تک ”کسی کو نہیں چھوڑوں گا” کے نعرے پر ڈٹے رہتے ہیں۔
ویسے تو عثمان بزدار اور اسد عمر کپتان کی سیاسی کشتی ڈبونے کے لئے کافی ہیں۔ مگر کپتان بھی سیاسی خود کشی کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ کپتان کی سیاسی اشتعال انگیزی اور محاذ آرائی کی پالیسی سیاسی بحران کو اس نہج پر لے جائے گی جہاں سے واپس لوٹنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔ جون میں بجٹ کے بعد مہنگائی اور بے روزگاری کا سیلاب سنبھالے نہیں سنبھلنے والا۔ اگر حکومتی اور سیاسی معاملات اسی ڈگر پر چلتے رہے تو عمران خان حسب عادت اپوزیشن پر الزامات کی بو چھاڑ کرتے ہوئے حکومت سے فرار اختیار کرنے کا راستہ ڈھونڈتے نظر آئیں گئے۔
چھ ماہ کے دور حکومت سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ نظام حکومت چلانا پی ٹی آئی اور عمران خان کے بس کا کام نیہں۔ تشویشناک حالات کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے جمہوری قوتوں کو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر متحد ہو کر ایک واضح لائحہ عمل مرتب کرنے کی جانب بڑھنے کا وقت قریب آ چکا ہے۔