دنیا کی سب سے بڑی مادی ایجاد ( Material invention) پہیہ سہی مگر تہذیب اور ثقافت کی ترویج انتقالِ خیالات و جذبات، علوم، عقائد و خدشات، اور مسائل تصوف مثلا فنا و بقا، بیم و رجا، جیسے پچیدہ تصورات اور تاریخی واقعات کے حقائق کو سپرد عناصر کر دینے کا فن اہل دانش کی سب سے بڑی عقلی ایجاد (Intellectual invention)ہے۔ اور یہ عقلی ایجاد ہے۔ "لکھائی”۔ جب کوئی بات لکھ دی جاتی ہے تو وہ نہ صرف شخص با شخص، نسل در نسل بلکہ زمانہ در زمانہ اپنی اصل معنویت میں قائم رہنے کی صلاحیت حاصل کر لیتی ہے۔ لکھائی کا یہ اعجاز ہے کہ صدیوں پرانے واقعات بھی آج کے پڑھنے والوں کو کل کے قصے لگنے لگتے ہیں۔ لکھاری کی کچی پنسل سے لکھا ہوا ایک جملہ دنیا کے ذہین ترین شخص کی یادداشت سے زیادہ دیر پا ثابت ہوتا ہے۔
انسان اپنی موت مرتے ہیں، تحریریں زندہ رہتی ہیں ۔ کتابیں مرتی نہیں، صحیفے مرتے نہیں، کالم زندہ رہتے ہیں۔ قدیم مصریوں کے ہیرو گلیفیکس (Hieroglephics) سے لے کر روزیٹاسٹون تک کی تحریریں آج بھی زندہ ہیں۔آج کا لکھاری پتھروں، چمڑے کے ٹکڑوں یا پپائرس کی بجائے بڑے واقعات کو کاغذ پراخباروں میں لکھتاہے۔ آج کے اچھے لکھاری کے کالم آنے والی نسلوں کے لیے اس دور کے مناظر دیکھنے کے لیے روزنوں کا کام کریں گے۔ لکھنے کا بنیادی مقصد ترسیلِ تخیل اور انتقالِ علم ہوتا ہے۔ اور یہ معجزہ لکھائی سے بڑھ کر کوئی دوسرا فن بہتر طریقے سے انجام نہیں دے سکتا۔ اس لیے میں لکھاریوں کا بڑا احترام کرتا ہوں ۔
فنِ تحریر بڑا مشکل فن ہے ۔ یہ حقائق اور مشاہدہ سے پیدا ہونے والے فکری ہیجان اور تجزے کو لفظوں کے احاطہ میں لانے کا نام ہے اور جو یہ سب کچھ کر سکنے کی اہلیت رکھتا ہو وہی ایک اچھا لکھاری بن سکتا ہے۔ مسیحی کمیونٹی میں اس قبیل کا ایک نمایاں اور گراں قدر نام سیمسن جاوید ہے۔موصوف کثیر پہلوی شخصیت کے مالک ہیں لیکن مجھ سے ان کے تعارف کی بنیادی وجہ اخبارات میں شائع ہونے والے کالم تھے۔ یہ بات -12-2011 کی ہے۔ جب لندن سے شائع ہونے والے روزنامہ جنگ اور روز نامہ اوصاف میں مجھے ان کے کالم پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔کالم نگار کی مسیحی شناخت تو خیر نام سے ہی واضح تھی۔ کالم پڑھنے کے بعد یقین پختہ سے پختہ تر ہوتا گیا کہ یہ صاحب ان لکھاریوں کے پائے کے ہیں جو نسلوں تک یاد رکھے جاتے ہیں۔
ان دنوں میں میں اپنے ایک ذاتی پروجیکٹ کرسچن اردو رائٹرز اینڈ پوئٹس(Christian Urdu writers and Poets) کے نام سے ایک ویب سائٹ تیار کر رہا تھا جو میں نے بعد میں اپنی مین ویب سائٹ www.injeeli.com میں ضم کر دی۔ سب سے پہلے میں نے اسی ویب سائٹ کے حوالے سے سیمسن صاحب سے رابطہ کیا اور مجھے پتہ چلا کہ میں نے صحافت کے ایک انسٹیٹیوٹ کے دروازہ پر دستک دے دی ہے۔ انہوں نے بڑی فراخدلی سے اپنے پرانے کالمز بھی میرے ساتھ شیئر کیے۔ اور یوں مجھے اس ’’انسٹیٹیوٹ کا جرنلزم‘‘ سے بہت سا مواد دستیاب ہوا۔ موصوف کے کالم ویسے نہیں تھے۔جن میں لکھا جاتا ہے کہ "سننے میں آیا ہے ” یا "لوگ یہ بھی کہتے ہیں” ، بلکہ ان کے کالم تو وقتِ حاضرہ کی تاریخ نویسی کی بہترین مثالیں تھیں اور تاریخ بھی ایسی جس کو آنے والے محقق جامع حوالوں کی طرح استعمال کر سکیں۔ لہذا میرے نزدیک یہ کہنا کہ مختلف اخباروں میں بکھرے ہوئے سیمسن جاوید کے کالم دراصل "پاکستانی مسیحیوں کی تاریخ” ہے کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہو گی۔
یہ احساس ہو جانے کے بعد میں نے کالم نویس صاحب یعنی اپنے سیمسن جاوید صاحب سے (اس وقت تک وہ مجھے اپنے حلقہ احباب میں شرف شمولیت بخش چکے تھے) کئی بار درخواست کی کہ صاحب اس سرمائے کو کتابی شکل میں محفوظ کر دیں تاکہ آنے والے محققین کا کام آسان ہو جائے۔ یوں آپ مسیحیوں پر عمومی طور پر اور تاریخ کے طالب علموں اور محقیقین پر خصوصی احسان کریں گے ۔
سیمسن صاحب نے اپنے کالمز میں کسی بڑے واقعہ کو نظر انداز نہیں ہونے دیا۔ مثال کے طور پر جب مذہبی انتہا پسندوں نے شہباز بھٹی کو جام شہادت نوش کروایا تو آپ نے "شہباز بھٹی کارتھیچ کا شہید” کالم لکھ کر ان کی شہادت کو مظالم کے اس سلسلے سے ملا دیا جس کا آغاز ابتدائی کلیسیا کے دور میں ہوا تھا۔ نہ ہمارا ایمان مٹا ہے نہ شہادتوں کا سلسلہ۔ نہ سیمسن جاوید صاحب کا قلم! اسی طرح چھ نومبر 2014 کو جب شہزاد اور شمع ، ایک خوبصورت نوجوان مسیحی جوڑے کو ان کے نامولود بچے سمیت اینٹوں کے بھٹے میں جھونک دیا گیا تو انہوں نے اپنی قوم کے دکھوں کی ترجمانی کے لیے پھر کالم لکھا "آہ کورٹ رادھا کشن کے شہزاد اور شمع "۔
تاریخ نویسی بڑا مشکل فن ہے اور تاریخ میں جیتے ہوئے تاریخ کو غیر معتصبانہ اور(Objectively) قلم بند کرنے کی صلاحیت اس فن کی معراج ہے۔ سیمسن جاوید کے کالموں کا مطالعہ کرنے کے بعد راقم الحروف اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ آپ کی تحریریں گواہ ہیں کہ آپ اس نقطہ معراج کو متعدد بار چھو چکے ہیں۔ لہذا ” گل و خار”ایک ہمعصر صحافی کے مشاہدات اور ان مشاہدات پر ان کے تاثرات کی ایک مصدقہ دستاویز ہے۔ جسے ایک ایسے لکھاری نے تصنیف کیا ہے اور ترتیب دیا ہے جو ایک دانشور کہلانے کا حقدار ہے۔
فیس بک کمینٹ